ہم ایک ہیں؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ہمارے سیاسی رہنما قومی معاملات پر کس قدر
سنجیدہ ہیں، انہیں ملک کے اندر اور باہر کے حالات کی کتنی فکر ہے، ان کے دل
میں ملک وقوم کی بہتری کا کتنا درد ہے؟ ان باتوں کا اندازہ لگانے کے لئے
دور جانے کی ضرورت نہیں، بس گزشتہ روز کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی
روداد پڑھ لیجئے۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے، قیادتوں کی بلند پروازی اور
بلند نگاہی دیکھنے کو مل جائے گی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس عام حالات میں
منعقد نہیں ہوتا، قومی سطح کا کوئی اہم ایشو زیرِ بحث ہو تو دونوں ایوان
اکٹھے ہوتے ہیں۔ آئین کی رو سے سال میں ایک مرتبہ یہ اجلاس صدارتی خطبہ
سننے کے لئے بلایا جاتا ہے، ورنہ ہنگامی حالات میں اس کا انعقاد ہوتا ہے۔
جب اسلام آباد میں پی ٹی آئی نے دھرنا دیا تھا اور وہ طوالت اختیار کرگیا
تھا تو حکومت نے مشترکہ اجلاس کا سہارا ہی لیا تھا، اس کا حکومت کو یہ
فائدہ ہوا کہ اجلاس کو ڈھال بنا کر حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی گئی،
یہ اجلاس بہت دنوں تک جاری بھی رہا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم میاں
نواز بھی ایک طویل عرصے کے بعد ایوان میں تشریف لائے، اس کے بعد شاید وہ
سال بھر میں پہلی مرتبہ ایوانِ بالا کے اجلاس میں بھی گئے۔ آج کل چونکہ
کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہیں، اور سرحدوں پر بھی کسی حد تک کشیدگی بھی
موجود ہے، حتیٰ کہ کچھ گولہ باری ہوبھی چکی ہے۔ گولہ باری کے علاوہ ہمارے
ٹی چینلز پر لفظوں کی جنگ جاری ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی جانب سے مارچ در
مارچ ہورہے ہیں، ابھی رائے ونڈ یاترا ہوئی ہے تو آنے والے دنوں میں اسلام
آباد پر چڑھائی کا پروگرام ترتیب دیا جارہا ہے۔ حکومت نے گزشتہ دنوں اگرچہ
پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بھی وزیراعظم کی صدارت میں طلب کیا تھا،
مگرمعاملات پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس
بھی بلا لیاتھا۔
اجلاس بلایا تو کشمیر کے نام پر گیا تھا، مگر وہاں حسبِ روایت تقریری
مقابلہ شروع ہوگیا، اگر بات مقابلے پر ختم ہو جاتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا،
کیونکہ ایسے بے شمار مواقع آتے ہیں، جب صرف تقریروں کا شوق ہی پورا کیا
جاتا ہے۔ مگر جب بات ہو دوسروں پرکیچڑ اچھالنے کی، دوسروں کی پگڑیاں
اچھالنے کی، گڑے مُردے اکھاڑنے کی، الزامات لگانے اور دہرانے کی، دوسروں کو
نیچا دکھانے کی، گویا جب مقصد ہی تبدیل ہو جائے تو پھر مطلوبہ نتیجے کی
امید رکھنا بھولپن کی انتہا ہی کہلوائے گا۔ اعتزاز احسن کو طویل تقریر کا
بے حد شوق ہے، اور جب ان کو کسی بات پر ذاتی غصہ بھی ہو، تو ان کی تقریر
میں ادبی چاشنی اور شعروں کا عمل دخل بھی ہو جاتا ہے۔ جب معاملہ کو بگاڑنا
اور دوسرے سے انتقام لینا مقصود ہو تو الزامات کی بوچھاڑ بھی کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے مشترکہ اجلاس میں یہی کچھ کیا۔ کیونکہ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی
صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم نے اُن سے بے رخی سے ہاتھ ملایا
تھا، اندازہ تھا کہ اعتزاز احسن موقع پاتے ہی جواب دیں گے، وہی ہوا ، انہوں
نے کہان لیگ نے ’’گالی گلوچ بریگیڈ‘‘ بھی بنا رکھی ہے۔ ان کو جواب دینے کے
لئے ن لیگ کے مشاہد اﷲ نے اپنی خدمات پیش کیں اور پاناما لیکس میں میاں
نواز شریف کو برّی کردیا اور بے نظیر پر یہی الزام عائد کردیا، انہوں نے یہ
بھی بتایا کہ اٹھارہ تو کیا سن اٹھائیس تک بھی پی پی کا وزیراعظم نہیں بنے
گا، جواب میں پی پی والے جذباتی ہوگئے، خورشید شاہ نے اجلاس کے بائکاٹ کی
دھمکی دے دی اور کہا کہ آپ ایسی ہی باتیں کرلیں، ہم جاتے ہیں، باتیں ختم ہو
جائیں تو ہم آجائیں گے۔ سپیکر اور وزراء نے مشکلوں سے انہیں ٹھنڈا کیا،
مشاہد اﷲ نے روایتی طور پر معذرت کرلی،یہی کام ان کے وزراء کو بھی کرنا
پڑا۔ چند ماہ قبل اِنہی جناب نے وزیر ہوتے ہوئے فورسز کے خلاف بے جا باتیں
کی تھیں، وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے، معذرتیں الگ کرنا پڑیں، گویامعافیوں
کے یہ پرانے عادی ہیں، یہی رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ اسی اجلاس کا پی ٹی آئی نے
بائکاٹ کر رکھا تھا، اسے اس بات پر تنقید کا نشانہ بننا پڑا کہ کشمیر پر
منعقد ہونے والے اجلاس میں ذاتی اختلافات کو ختم کر کے شامل ہونا چاہیے۔
اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے ٹکراؤ پر پی ٹی آئی قائد خوش تھے۔ پارلیمنٹ
کے مشترکہ اجلاس کی کاروائی ہی دراصل ہمارے اجتماعی رویے کی عکاس ہے، اپنے
ملک پر اﷲ کا کوئی خاص فضل ہی ہے، ورنہ ہمارے نمائندوں اور سیاستدانوں نے
اس کی تباہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑ رکھی۔ |
|