سعد رفیق کی جمہوریت

مجھے حیرت ہے اُن لوگوں پر جو خواّجہ سعد رفیق کے دَعوؤں کے بَرعکس ریلوے میں بے پناہ کرپشن اور دیگربے قاعدگیوں کی خبریں قومی اخبارات میں دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔ تازہ ترین آڈٹ رپورٹ جس میں پاکستان ریلوے کے اندر 80 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف کیا گیا ہے اور قومی اسمبلی کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ ریلوے حکام سے یہ لوٹ مار کی رقم واپس دلوائی جائے اور اعلیٰ سطح پر اسکی تحقیقات کروائی جائیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوئے میں گذشتہ مالی سال کے دوران 95 ارب 38 کروڑ36 لاکھ39 ہزار روپے کے اخراجات کیئے گئے۔ جس میں سے 58ارب73کروڑ14لاکھ60 ہزارروپے کی ادائیگیوں کا آڈٹ کیا گیا۔ کمزور مالیاتی کنڑول کی وجہ سے محکمہ ریلوے کو تقریباً 5 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا جبکہ تقریباً 21 ارب روپے مالیاتی کرپشن کی نذر ہوگئے۔ ا ب یہ رپورٹ دیکھ کر بہت سارے لوگ حیران اور پریشان ہونگے کہ انہوں نے تو آج تک وفاقی وزیر ریلوے کو منہ ٹیٹرھا کرکے ریلوے میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے دعوئے ہی سُنے تھے لیکن مجھے اُس حیرت زدہ طبقے کی حیرت پر حیرانگی ہے۔

کیا اس ارِض پاک میں ہر دُوسرے دُودھ فروش کی دکان کے باہر جَلّی حَروف میں ـ"خالص دودھ دستیاب ہے" کا نعرہ آپ نے نہیں دیکھا؟ بلکہ اکثر و بیشتر دودھ فروشوں کی دکان کے باہر نمایاں یہ لکھا نظر آتا ہے کہ" دودھ میں ملاوٹ ثابت کرنے پر اتنے لاکھ روپے انعام دیا جائے گا"۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ایسی تمام دکانوں میں ملنے والا دودھ کتنا خالص ہوتا ہے۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا ہمارا قومی وطیرہ بن گیا ہے۔ اور اگر سعد رفیق بھی دور حاضر کا گوئے بل بن گیا ہے جسکا نظریہ یہ تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ سچ لگنے لگے تو اس پر حیرت بنتی نہیں ہے۔

جہاں تک دعوؤں کا تعلق ہے تو اُن میں ناکامی سعد رفیق کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ موصوف کی قیادت شہباز شریف کر رہے ہیں جنہوں نے ببانگ دہل عوامی اجتماعات میں یہ کہا تھا کہ اگر دوسال میں بجلی کے بحران کو میں نے جڑ سے نہ اُکھاڑ پھینکا تو میرانام بدل دیجئے گا۔ دوسال تو کیا ساڑھے تین سال گزر گئے بجلی کا بحران ویسے کا ویسا ہی ہے اور کس میں جُراّت کہ وہ شہباز شریف کو یہ یاد دلائے کہ جناب اب نام بدلنے کا وقت آگیا ہے۔میرے جیسے کچھ کم عقل اس بات پر حیرت زدہ ضرور ہونگے کہ ایک جمہوری حکومت عوام کے ساتھ کس قدر واشگاف جھوٹ کیسے بول سکتی ہے؟ لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ اس ارض پاک میں سیاست کو جھوٹ کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے۔اور غیرضروری ڈرامہ بازی ہماری جمہوریت کا حُسن ہے۔ اگرچہ اس قوم کا حافظہ بے پناہ کمزور ہے مگر شاید اتنا ناتواں بھی نہ ہوا ہے کہ وہ سابق دور حکومت میں مینارپاکستان کے سائے تلے ہتھ پنکھیوں سے ہوا لیتے خادم اعلیٰ کے اُن اجلاسوں کو بھول گئے ہوں ! جن کا مقصد وفاقی حکومت کو بجلی کے بحران پر شرم دلانا تھا۔ اب جبکہ وفاق میں بڑے میاں صاحب اپنے پورے لاؤ لشکر اور بقول عمران خان اپنے موٹو گینگ کے ساتھ بُرجمان ہیں تو اب چھوٹے میاں صاحب اب مینار پاکستان یا اسکے گرونواح میں مداری تماشا کرتے کیوں دیکھائی نہیں دیتے۔

خواجہ سعد رفیق کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان ریلوئے میں سب اچھا ہے ۔ وزیرموصوف کے من پسند افسران جنکی قیادت کا سہرہ آفتاب اکبر جیسے بدقماش اور کرپٹ افسران کے سَر ہے، لوٹ مار کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں کیونکہ حصہ بقدرِ جثہ کی تقسیم انتہائی ایمانداری سے ہو رہی ہے۔ اس لیئے وزیر موصوف ریلوئے میں ایمانداری کے قصے سناتے نہیں تھکتے۔ گذشتہ دنوں ایبٹ آباد کے ایک مقامی اخبار نے ہزارہ ایکسپریس کے حوالے سے ایک خبر شائع کی ۔ ہزارہ ایکسپریس ہزارہ سے کراچی جانے والوں کے لیے کسی دور میں سفر کا سب سے بہترین زریعہ تھی اور یہ گاڑی پاکستان ریلوے ایڈوائیزی کونسل اینڈ کنسلٹینسی سروس (پراکس) کے زیر انتظام تھی۔ اس منافع بخش ٹرین پر جب وزیر موصوف کی نظر پڑی تو انہوں نے اس ٹرین کو پراکس کے بجائے اپنے من پسند ٹھیکیدار کو بخشنے کا منصوبہ بنایا جس کا نتیجہ چند ماہ میں ہی سامنے آگیا۔ اب پرائیویٹ ٹھیکیدار نے کرائیوں میں ہوشربا اضافہ کر کے تمام سہولّیات یک مشت ختم کر دی ہیں۔ اور ریلوئے کو جس ٹرین سے کروڑوں روپے سالانہ آمدن ہوتی تھی اب وہ بھی خسارے میں ہے۔ ٹرین فائدے میں ہو یا خسارے میں وزیرموصوف اور انکے دوست احباب بہرحال فائدے میں ہونگے۔اور آئے روز نت نئے ڈراموں سے ریلوئے کو لوٹنے کھسوٹنے کا سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری ہی رہے گا۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پاک چائینہ اقتصادی راہداری منصوبے کے آغاز کے بعد چین نے پاکستان میں ریلوئے ٹریکس کی بہتری ، ٹرینوں اور دیگر نظاموں کی ترقی کے لیے اربون ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جسکا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ریلوے اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا، ملازمین کی بہبود کے منصوبے سامنے آتے لیکن یہاں دستور ہی اُلٹا نکلا۔ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے اور اسکے زیر انتظام اداروں میں ملازمین کی کانٹ چھانٹ کو اپنا وطیرہ بنایا۔ ریلوئے کے تمام منافع بخش اداروں کی جمع پونجھی کو اللوں تللوں میں اُڑا کر اُن اداروں کا دیوالیہ نکالنے کا مکروہ منصوبہ ترتیب دیا گیا اور اس منصوبے پر دن رات زور وشور کے ساتھ عمل درآمد جاری ہے۔

خواجہ سعد رفیق کی جمہوریت پسندی کا اندازہ آپ اس خبر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ریلوئے کے ذیلی ادارے پراکس میں باپردہ خواتین کو حراساں کرنے کے جس دل دوز واقعے کاانکشاف ہوا تھا۔اُس پر صدائے احتجاج بلند کرنے والی ایک اور باپردہ خاتون کو بلاجواز ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ گویا پاکستان ریلوئے میں خواجہ سعد رفیق کی دودھ اور شہد کی بہتی نہروں کا پردہ اگر کوئی چاک کرے گا اورادارے کی اصل بدنما اور بھیانک تصویر سامنے لائے گا تو اسکے خلاف سخت تادیبی کاروائی ہوگی کیونکہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور وزارت ریلوئے کا قلمدان ایک جمہوری کارکن کے ہاتھ ہے۔ مجھ جیسے فاطر العقل پریشان ہیں کہ اگر جمہوریت اسی طرز حکومت کا نام ہے تو آمریت کسے کہتے ہیں۔ اور جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والے کارکن اگر اسقدر بے حس اور کرپٹ ترین ٹولے کے ہاتھوں یرغمال بن جانے والی کٹھ پتلیاں ثابت ہوں تو عوام کس سے امیدیں وابستہ کریں۔خواجہ سعدر فیق نے پاکستان ریلوئے آفتاب اکبر اور انکے حواریوں کے ہاتھ جس طرح گروی رکھا ہے اس سے پاکستان کے وہ تمام کارکن جنہوں نے بحالی جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں ، کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔اور یہ واقعات جمہوری کارکنوں کی قابلیت ، استعداد اور تربیت کے لیے بھی سوالیہ نشان ہیں۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 168184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.