پاکستان کی سیاست اور انتظامی مشینری کے
بھی عجب رنگ و ڈھنگ ہیں کہ ملک میں پہلے ایسی تنظیمیں مضبوط بنائی جاتی ہیں
کہ جو فرقہ واریت کی بنیاد پر کام کر رہی ہوں اور اندرون ملک اور بیرون ملک
سے جی بھر کے ان کو فنڈنگ بھی فراہم کی جار ہی ہو ۔ اس میں کسی شک کی
گنجائش نہیں ان فرقہ پرست ، جہادی اور لسانی تنظیمیں کو ایک سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت پروان چڑھایا گیا ۔ اس میں کچھ پاکستان کے دوست برادر اسلامی
ممالک کی ایماء ، مرضی و منشا اور فنڈنگ کو بھی کلی طور پر نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا۔ایسی صورت حال میں کہ جب ملک کی انتظامی مشیری اور اس وقت کی
سیاسی و عسکری قیادت مذکورہ تنظیموں کے بننے اور ترقی پانے کے حوالے سے
خاموش ہو اور سب کچھ ان کی ناک ک نیچے ہوتا رہا ہو ، یہاں تک کہ ان میں سے
بعض گروپوں اور تنظیموں نے نہ صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات
بھی لڑے بلکہ کامیابی بھی حاصل کی ، تو پھر یہ کیسے نہ مانا جائے کہ ملک کی
ماضی کی سیاسی و عسکری قیادت کی مذکورہ تنظیمیں اور جماعتیں ضرورت تھیں۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ملک بھر میں فرقہ پرست تنظیمیں اور جماعتوں کو
کالعدم قرار دے دی گئیں۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب ملک میں فرقہ وارنہ دہشتگردی
میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا اور پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ خاص طور پر
مغربی ممالک کے دباؤ میں اضافہ ہونے لگا تو ہمارے ملک کی قیادت جاگی اور
مذکورہ تنظیموں اور جماعتیں کا لعدم قرارپائیں۔ لیکن پھر ان جماعتوں اور
تنظیموں نے نام بدل کر کام کرنا شروع کردیا۔ سب جانتے تھے کہ ان تنظیموں کے
ریپر تبدیل کئے گئے ہیں لیکن ریپر کے اندر وہی مال ہے لیکن ریاستی مشینری
خاموش رہی۔ یقیناجان بوجھ کر خاموش رہی۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ فرقہ وارانہ
جماعتیں اور جہادی تنظیمیں ایک خاص مقصد کے لئے بنائی گئیں ہیں جن سے بعض
ریاستی ادارے اب بھی کوئی نہ کوئی کام لے رہے ہیں۔ مذکورہ تنظیموں کو
کالعدم قرار دے کر بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں
جہادی تنظیموں اور فرقہ پرست جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن
اندرون خانہ کام جاری رہا۔اب جب سے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا ہے تو
حکومت اور ریاستی اداروں کی اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں نظر آ رہی ہیں ۔ اب
کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام کالعدم اور فرقہ پرست ، جہادی تنظیموں
کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ اب یہ کام اتناآسان
بھی نہیں کہ چند ماہ کے آپریشن سے یہ تنظیمیں ختم ہو جائیں۔ ماضی میں پوری
توجہ اور بھر پور فنڈنگ سے ان کی آبیاری کی گئی ہے۔ اب یہ تناور درخت ہیں۔
جن کی جڑیں بھی موجود ہیں اور ہر درخت میں ہزاروں نہیں لاکھوں پتے بھی ہیں۔
اب ان کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے برسوں پر محیط آپریشن کرنا پڑے گا۔ اب یہ
تنظیمیں نئی نسل کے ذہنوں اور دلوں میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوشش
ضرور کرنی چاہیے۔ کوئی کوشش نظر آئے تو اس کی حمایت بھی ضروری ہے۔ پہلے
مرحلے میں ان کو غیر مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعرات کو وزیراعظم محمد نواز
شریف کے صدارت میں ہونے والے اجلاس میں فرقہ پرست جماعتوں اور جہادی
تنظیموں کو ختم کرنے کی بات کی گئی ۔ اجلاس میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے
سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے بھی شرکت کی اور اس بات پر مکمل
اتفاق کیا گیا کہ مذکورہ کالعدم تنظیموں اور جماعتوں غیر مسلح کیا جائے گا
اور جو بھی تنظمیں اور جماعتیں نام بدل کر کام کرر ہی ہیں ان کے خلاف
آپریشن کیا جائے گا۔ بہت اچھی بات ہے آج کی قیادت کو یہ خیال آ ہی گیا کہ
پاکستان میں تمام تر خرابیوں کی جڑ یہ ہی فرقہ پرست، جہادی اور لسانی
بنیادوں پر بنائی ہوئی تنظیمیں اور جماعتیں ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے
اور ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے کی ضرورت ہے تب ہی ملک کے داخلی اور خارجی
معاملات درست سمت میں آگے بڑھ سکیں گے۔ |