’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘۔۔ طنزو مزاح کے ادب میں ایک خوبصورت اضافہ

طنز و مزاح سے بھر پور خوب صورت مضامین کا مجموعہ ’ ’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ سینئر صحافی جناب محمد اسلام صاحب کی دوسری تصنیف ہے جسکا دوسرا اڈیشن حال ہی میں بڑے اہتمام سے شا ئع ہوا ہے۔اس کتاب کے مزاح پارے پڑھتے پڑھتے احساس ہوتا ہے کہ مزاح نگا ر صاحب دل ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دماغ بھی ہیں۔ ’’چالیمینٹ ہاوس‘‘ انکی صالحتیوں پر مشتمل ایک اور خوب صورت تخلیق ہے۔
مصنف کا تعارف:
محمد اسلام صاحب 1965 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُ نھوں نے کراچی یو نیورسٹی سے علم سیاسیات میں ایم اے اور ایس ایم لاء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ زمانہ طا لب علمی میں طلباء سیاست سے گہری وابستگی رہی۔1982 میں کراچی کی سطح پر ہونے والے کوئز مقابلے میں’’ برین آف "1982 کا اعزاز حاصل کیا۔
1985 سے ’’جنگ گروپ‘‘ سے وابستہ ہیں۔ مختلف موضوعات پر سینکڑوں کالم لکھ چکے ہیں۔ وہ ’’اخبارجہاں‘‘ کے لئے عالمی حالات و واقعات بھی تحریر کر چکے ہیں۔ اسکے علاوہ پانچ سال تک جیو ٹی وی کی سپورٹس ڈیسک کے ساتھ اسکرپٹ رائٹرکے طور پر وابستہ رہے۔
انکی پہلی تصنیف ’ ’ المیہ بو سینیا ہر زیگوینا‘‘ اُنیس سو چورانوے جبکہ دوسری تصنیف ’’ چارلیمینٹ ہاوس‘‘ اُنیس سو ستانوے میں شائع ہوئی۔ تیسری کتاب ’’عین غین‘‘ جو انکے کالموں کا مجموعہ ہے ،دو ہزار سو لہ میں شائع ہوئی تھی۔
ہم طنز ومزاح پر مبنی انکی کتاب ’’ چارلیمینٹ ہاوس‘‘ کو ڈسکس کرینگے جسکا دوسرا اڈیشن کچھ ہفتے قبل شائع ہوا ہے۔
کتاب کا تعارف!
جس طرح پارلیمینٹ ہاوس کسی قوم کی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے با لکل اسی طرح اس کتاب ’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ کے متنوع مضامین ہماری سیا سی، سماجی اور عمومی ذندگی کے عکاس ہیں۔ چند مضامین پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ محمد اسلام صاحب اپنے ارد گرد دکھوں، نا انصافیوں اور سیاسی بد اعمالیوں کو دیکھ کر ا فسردہ تو ہوتے ہیں لیکن دل برداشتہ نہیں نہیں ہوتے۔وہ عوام کے مسائل کا تذکرہ ہلکے پھلکے اور شگفتہ انداز میں کرتے ہیں جسکا مطا لعہ شعور و آگاہی تو دیتا ہے لیکن اپنے پڑھنے والے کو بوجھل نہیں ہونے دیتا۔ ہر مضمون کا عنوان دلچسپ اور متن کا ایک ایک جملہ اس سے بھی ذیادہ انبساط کا سبب بنتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق ورک نے طنزو مز ا ح پر اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں ’’چا رلیمینٹ ہاوس‘‘ سے اقتبا سات شامل کئے ہیں۔
اس تصنیف کا ایک پہلو یہ ہے کہ مصنف دربار ی کالم یا مضامین لکھنے سے یکسر قاصر نظر آتے ہیں۔ اس کتاب ’’ چارلیمینٹ ہاوس‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ عام آدمی کی بات کرتی ہے۔اس میں عوامی مسائل کو عام فہم انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔
عصر حاضر میں کئی مشہور کالم نگار دربار سرکار کی خو شنو دی کے لئے لکھتے ہیں اور انعام و اکرام میں سفارت ومراعات کے حقدار قرار پاتے ہیں۔لیکن ایسے حکومتی مفکروں کا مستقبل بھی حکومت کے حال کی طرح ہوگا، یعنی بدنام بھی اور بُرا بھی۔
’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ طنزو مزاح کا ایسا مجموعہ ہے جو ذہن کو انبساط، فکر میں استغراق ، اور مثبت تبدیلی کی خواہش کو جنم دیتا ہے۔ مضامین کے عنوانا ہی ہونٹوں پہ تبسم کا سبب بنتے ہیں جو محمد اسلام صاحب کی فنکاری اور چابکدستی کا کمال ہے۔ وہ برائی کے خلاف طنز کے تیر تو چلاتے ہیں لیکن مصنف کا مقصد اصلاح احوال ہے انکا مقصد کسی کی دل آذاری نہیں۔ وہ اپنے مضامین میں نرم انقلاب کا قائل نظر آتے ہیں۔
مضمون ’’ارسطو کا ایک خط اہل سیا ت کے نام‘‘ میں اس نوع کا طنز و مزاح ملتا ہے۔
اس کتاب کے بارے میں ہم عصر اساتذہ اور مصنفین کی آراء بھی شامل گفتگو کریں گے۔
مشہور مصنف اور کراچی یو نیور سٹی کے سابق استاد ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہتے ہیں۔
’’مزاح کا دائمی پیغام یہی ہے کہ نا پسندیدہ رسوم ورواج، ضوابط و روابط،ترجیحات و ترغیبات اور افعال و قدار کو ارتقاء( نہ کہ خونی انقلاب) کے ذریعے ختم کیا جائے تاکہ نئی بہترروایات اور رویئے اُنکی جگہ لے لیں۔ اور محمد اسلام صاحب کو اس فن پر عبور حاصل ہے ‘‘
یہ سچ ہے کہ مصنف کے ہاں خشک اور پھیکے تخیل کی پیدداوارکم کم لیکن دل چسپ، خوشگوار اور زرخیز مشاہدات کی رنگینیاں ذیادہ ہیں۔
مثالیں:
ایک مضمون ’’ بستیاں‘‘ سے اقتباسات پیش کریں گے جو کراچی شہر سے متعلق ہے۔
’’ گارڈن کا نام تو آپ نے سن رکھا ہے مگر اب یہ اُجڑ گیا ہے اور اُ جڑی ہوئی جگہ کو ’’گارڈن ‘‘کہنا کہاں کا انصاف ہے۔ قریب ہی ’’ نمائش ‘‘ہے جو کب کی ختم ہو چکی ہے بس نام رہ گیا ہے ‘‘
’’نیشنل ہائے وے پر قائد آباد ہے ، جہاں سے آج تک کوئی ’’قائد ‘‘ نہیں اُبھرا۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر ’’گیدڑکالونی ہے‘‘۔ نہ جانے کس نے اسکا نام ’’گیدڑ کالونی ‘‘ رکھا ہے۔ ہمیں تو یہاں کوئی ’’گیدڑ ‘‘ نظر نہیں آیا۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ آسان زبان ،سادہ الفاظ اور چھوٹے چھو ٹے جملوں میں مزاح پارے تخلیق کئے گئے ہیں۔ مضمون ایک لیکن مزاح کے شگوفے الگ الگ ہیں۔ ان مزاح پاروں کو نہ صرف یاد رکھا جا سکتا ہے بلکہ یہ اس قابل ہیں کہ انہیں ہم اپنے نجی محافل میں سنا سکتے ہیں۔مصنف کی اپنی شہر سے محبت بھی صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔ ان کیفیات کا نظارہ اسی مضمون میں آگے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’ابھی میں عید گاہ پر تھا توبہ توبہ ! یہ عید گاہ ہے؟ مجھے اسکے نام سے ہی وحشت ہونے لگی۔ کیوں کہ یہاں میں نے ایسے لوگوں کو بڑی تعداد میں دیکھا جو ’’چادر تانے ‘‘ مل جل کر سگر یٹ نوشی کر رہے تھے۔۔۔ کسی کے پاس پنی تھی۔ کوئی سگریٹ لے کر آ یا تھا۔ کوئی موم بتی تھامے بیٹھا تھا۔ کسی نے چادر تان لی تھی۔ اور پھر سب مل جل کر زندگی کو ’ ’ ٹھکانے ‘‘ لگا رہے تھے۔‘‘
یوں مصنف معا شرے میں برے اعمال دیکھ کر دکھی ہیں لیکن اپنے فرض اصلاح کے مثبت پیغام سے غافل نہیں۔ ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ مصنف قاری کو مزاح سے اصلاح او ر اس سے آگے انتباہ تک کس مہارت سے لے جا تا ہے۔ انکے نذدیک مقصد ہی اصلاح اور انتباہ ہے۔ آخری لائین اصلاحی ادب کا شاہکار ہے۔
سابق وائس چانسلر کراچی یو نیورسٹی ڈاکٹر منظو ر الدین احمد’’ چارلمینٹ ہاوس‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’ اس کتاب کے موضوعات انتہائی دلچسپ ہیں۔مصنف نے ہمارے سیاسی ، اقتصادی او ر معاشر تی مسائل کو طنزو مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے۔۔۔ میرے خیال میں یہ کتاب ہمارے ملک کے نثری ادب میں ایک اہم اور دلچسپ اضافہ ثابت ہوگی۔۔۔
اس تحریر کی گواہی کی تصدیق کے لئے ہم اس کتاب کے مضامین ’’ مس بلدیہ یا مسٹر بلدیہ‘‘ اور عینک بٹن ، شیونگ برش‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔
پروفیسر انوار احمد زئی انکے انداز تحریر اور تکنیک کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’محمد اسلام کی تحریروں میں شوخی کے ساتھ فکر انگیزی موجود رہتی ہے۔ وہ بات سے بات بنانے کا فن جانتے ہیں۔ یقینا ہر کالم کی اساس کوئی خبر، کوئی واقعہ، کوئی حکایت، کوئی روایت ہوتی ہے مگر اس بنیادی عنصر پر تخیل، تفنن، تفکر، اور تدبر کی عمارت کھڑی کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔وہ نہایت سلیقے سے بات شروع کرتے ہیں اور پھر سماجی تجزیہ کاری کی مہارت دکھاتے ہوئے اسی منزل پر آجاتے ہیں جہاں تفریحی فضاء خود بخود تعمیری رُخ اختیار کر لیتی ہے۔‘‘
اب آئیے اس تحریر کی روشنی میں ’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ کے ایک اور کے اقتباس مضمون کا لطف اُٹھاتے ہیں:
ایک مضمون ’’ناک کا مسئلہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
ـ’’ چہرے پر ناک کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ناک کی سیاسی،سماجی اور اقتصادی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔‘‘
’’ ناک کی اہمیت سے مکھیاں بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مکھیوں کی اکثریت ناک پر بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔‘‘
۔۔۔۔ ’’ناک ہمارا سیاسی ،معاشی اور معا شر تی مسئلہ ہے۔۔۔۔اس لئے بیشتر مسائل’’ ناک ‘‘کی آڑ میں پرورش پا کر بڑے بڑے مسئلے بن جاتے ہیں۔‘‘
بات در اصل یہ ہے کہ مصنف اپنے سماج کا عکاس ہے ۔ وہ اپنے سماج پر ایک مفکر کی سی نگاہ رکھتا ہے۔
جہاں مزاح نگار حرفوں اور الفاظ کے داوپیچ سے ہمیں مسکرانے پہ اُکساتے ہیں، وہیں غور و فکر کا موقع بھی فراہم کر تے ہیں
ناک کا مسئلہ بنا کر ہم در گزر ، معافی اوربرداشت کی سرحدیں پھلانگ کر ضد ، جہالت اورہٹ دھرمی کی بے آب وگیاہ سرزمین پر پہنچ جا تے ہیں۔ مزاح نگار انسانی زندگی کے اس منفی پہلوکے خطرناک نتائج کی نشاندھی کے لیے انسانی ’’ ناک‘‘ کا سہارا لیکر مزاح اور شگفتگی کا بہت خوبصورت ماحول پیدا کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ذادہ فریدا لدین قا دری صاحب کہتے ہیں۔
’’ مزاح نگار آداب مزاح سے واقف ہو تو سب کے دل جیت لیتا ہے۔ اور اسلام صاحب میں یہ خوبی موجود ہے۔‘‘
مصنف ان اداب سے واقف ہیں ’’ جامعہ قبضہ گروپ‘‘ ایک اور دلچسپ مضمون ہے جس میں وہ تعلیمی انحطاط پر طنز کے نشتر برساتے ہیں۔ لیکن تلخ سچائی کو کو بھی کتنی شرینی سے پیش کیا گیا ہے، ملاحظہ فرمایئے:
’’ بہت سے علو م کا آغاز یو نان سے ہوا۔ پھر عرب، ایران اور اہل یورپ بھی اس میدان میں کود پڑے۔ ہمارے بعض پاکستانی بھائی بھی اس میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ان جدید علوم میں بھتہ خوری، مختصر ا غواء برائے تاوان، تجاوزات کی سائنس۔۔۔اور دہشت گردی کے اسرار ورموز پر مبنی علم شامل ہے۔ ایک علم یہ بھی ہے کہ حکومت ہو لیکن عوام کو اسکا احساس نہ ہو۔‘‘
اب اس مضمون میں طنز و ظرافت کے کئے مظاہر محسوس کئے جا سکتے ہیں ۔ہمارا تعلیمی نظام سماج کو کیسے کیسے ماہرین دے رہا ہے، اسلام صاحب نے اس پر چوٹ لگائی ہے۔ لیکن اسی طنز میں اصلاح احوال کا پیغام بھی ہے۔
ایک اور مضمون ’’حاجی نمازی منے خان کی انتخا بی مہم ‘‘ میں مصنف نے مذہبی دکھلاوہ اور ریا کاری کرنے والوں کو اپنے طنز و مزاح کے نشانے پہ رکھا ہے۔ ہمارے سماج میں کچھ لوگ مذہبی عبادات کو بھی ذاتی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ حاجی نمازی کہلوا کر بعض چالاک حضرات تو اس شہرت کو سیاست کا زینہ بھی بنا لیتے ہیں۔
اسلام صاحب اس مضمون میں دکھاوے اور ریا کاری سے مزاح کا پہلو کچھ اس طرح نکالتے نظر آتے ہیں۔ملاحظہ فرمایئے:
’’موصوف کا نام حاجی نمازی منے خان ہے۔ ہم نے انہیں ایک بار تجویز پیش کی تھی کہ اگر وہ زکوٰت ادا کرتے ہیں تو اپنے نام میں ’’ حاجی نمازی‘‘کے ساتھ ساتھ ’’ ذکاتی‘‘ کا اضافہ بھی کر لیں اور اگر خیرات کرتے ہیں تو ’’خیراتی‘‘ کا اضافہ بھی کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں‘‘۔
محمد اسلام صاحب کبھی طلباء سیاست کے سرگرم لیڈر رہے ہیں۔وہ ملکی سیاست اور سیاسی اداروں کی کارکردگی سے خوب آگاہ ہیں۔پارلیمینٹ ہاوس کی عدم ٖفعا لیت اور سیاست دانوں کے بے مقصد بندر ناچ سے اچھی طر ح واقف ہیں۔ وہ ’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ میں ذاتی باتیں کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’ یار لوگوں نے سیاست کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ملک میں سب کچھ ہو رہا ہے بس سیا ست نہیں ہو رہی۔‘‘
اسی طرح مضمون ’’چارلیمینٹ ہاوس ‘‘ میں انھوں نے ملکی سیا ست اور سیاست دانوں کی بھد اُڑائی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ چارلی چپلن ایک مزاحیہ اداکار تھا جو اپنے حرکات وسکنات سے مزاح پیدا کرتا تھا۔ مزاح نگار نے پارلیمینٹ کو چارلیمینٹ کا معنی خیز نام دیا ہے۔ مضمون’’ چارلیمینٹ ہاوس‘‘ میں سیا ست دانوں پر طنز کے تیر برساتے ہو ئے لکھتے ہیں:
’’ ایک بڑے ہال میں دو سو سینتیس افراد جمع ہیں۔ جو بڑی حد تک دو نمائیاں گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اکثر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ غالباََ اسی لئے انہیں ’’ لاوڈسپیکر‘‘ کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اکثر اس بڑے ہال میں جمع ہوتے ہیں ، واپس چلے جاتے ہیں اور پھر جمع ہوتے ہیں۔۔۔۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان لوگوں میں ایسے ایسے ’’نایاب گوہر ‘‘ موجود ہیں جنہیں دیکھ کر ’’چارلی چپلن‘‘ بھی دانتوں میں اُنگلیاں دینے پر مجبور ہو جائے۔ ۔۔۔
تبصرہ: اس طرح یہ مضامین قاری کے لبوں پر مسکراہٹ بکھرتے ہیں لیکن اس مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ یہ مطالعہ ارد گرد کے ماحول کو مثبت تبدیلی کے لئے تیار کرتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ ’’ چارلیمینٹ ہاوس‘‘ کے مضامین طنزو مزاح کی وہ کھڑکیاں ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے سماج کی روز مرہ زندگی کے مشاغل کا بہت قریب سے نظارہ کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے چارلی چپلن جیسی حرکتیں اور دیگر افعال کے یہ نظارے ان مضامین میں پڑھ کر بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ لیکن یہیں سے تو فکری استغراق کا عمل شروع ہو تا ہے۔
ایک ا ور مضمون ’’ گدھالوجی ‘‘ میں مزاح نگار بہت خوبصورتی سے بات سے بات نکالنے کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں: لکھتے ہیں:
’’گدھا بہت مظلوم جانور ہے اور گدھی نہایت ہی شریف جانور ہے جو ایک کے بعد یک گدھے کو جنم دیتی ہے او رانسانیت کی خدمت کا سامان پیدا کرتی ہے۔ ہمار ے ایک دوست نے ایک اہم بات کی جانب ہماری توجہ دلائی ہے۔ کہنے لگیــ ۔ گدھے کے بچے بہت ہوتے ہیں ۔ ہم نے پوچھا ، ’’وہ کیسے؟‘‘ کہنے لگے۔ ایک وہ جو گدھے کے اپنے بچے ہوتے اور دوسرے وہ جنہیں انسان ’’ گد ھے کا بچہ‘‘
قرار دیتا ہے۔‘‘
یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے پاس عنوانات اور خیالات کا خزانہ ہے وہ بہت روانی اور مہارت کے ساتھ اپنے خیالات کو تسلسل کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
اس سلسلے مین مضمون ’’ پیلے سکول سے پرائیویٹ تک‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس میں مصنف بڑے دلنشین انداز میں سرکاری سکولوں کی بد حالی اور پرائیویٹ سکول والوں کی خو شحالی کا ذکر کرتے ہیں۔ انکی یہ خو شحالی والدین کے لئے مسلسل تکلیف اور ذہنی اذیت کا سبب بن رہی ہے ۔
ہمار ا خیال ہے کہ ان مضامین کی زبان سادہ، انداز دل نشین اور فقروں کی بناوٹ بہت زبر دست ہے ۔
اسلام صاحب گذشستہ پندرہ سال سے مسلسل مزاح لکھ رہے ہیں۔ لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ جو مسائل پندرہ بیس سال قبل تھے وہ اب بھی ہیں۔ تبدیلی کی جو خواہش تب تھی وہ اب بھی پورے طور پر توانا ہے۔ گو یا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔
مشہور صحافی جناب محمود شام’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: اپنے گرد وپیش میں مسلسل نظر رکھنا ، حالات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا اور پھر انکا اظہار شگفتہ لہجے اور چھیڑ چھاڑ کے انداز میں کرنا ایک مشکل فن ہے، کیوں کہ اس میں اپنے دُکھوں اور پریشانیوں پر ہنسنا پڑتا ہے۔ ۔۔۔ہمارے رفیق کار، محمد اسلام نے اس بدحالی پر قلم اُٹھانے کی جُرا ت کی ہے۔‘‘
’’چارلیمینٹ ہاوس‘‘ اُردو ادب کے طنز و مزاح کے سلسے میں بہت شگفتہ اور خوبصورت اضافہ ہے۔ اسکے دوسرے اڈیشن کی اشاعت اسکا منہ بولتا ثبوت ہے۔

akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 15108 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More