کراچی کے شہری ٹارگٹ کلنگ جسے "
اندھا دھند" کلنگ کہنا زیادہ مناسب ہوگا سے بہت پریشان ہیں۔ نامعلوم موٹر
سائیکل سوار دہشت گرد سڑکوں پر آتے ہیں اور اندھا دھند فائرنگ سے معصوم
جانوں کو مار کر شہر کا امن تباہ کرنے کی کاروائیاں کرتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ
کرنے کیلئے سب سے اہم چیز "اسلحہ" ہے۔ مگر یہ اسلحہ آتا کہاں سے ہے کون
افراد اس کو لاتے ہیں۔ ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
کراچی کا وہ علاقہ جسے سہراب گوٹھ، الآصف اسکوائر کہتے ہیں اس علاقے میں
اکثریت پختونوں کی ہے۔ سنہ 80 کی میں لڑی جانے والی افغان جنگ کی وجہ سے اس
علاقے میں افغانی بھی آباد ہوگئے اس طرح یہ علاقہ فاٹا سے آنے والے پختونوں
اور افغانیوں کا گڑھ بن گیا۔ افغانی اسلحے کو مرد کا زیور سمجھتے اور
منشیات کا کاروبار کرتے تھے اس لئے انہوں نے سہراب گوٹھ کو اسلحے اور
منشیات کی منڈی بنا لیا اور کراچی کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں حصہ لینا
شروع کیا۔ اس دوران کراچی میں زمینوں کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے کراچی شہر
میں فلیٹ کلچر پروان چڑھنے لگا اور سہراب گوٹھ میں ایک تعمیراتی منصوبے کا
آغاز ہوا جس کا نام الآصف اسکوائر تھا۔ اس کے تمام فلیٹس اردو بولنے
مہاجروں نے خرید لئے تھے مگر جب الآصف اسکوائرکی تعمیر مکمل ہوئی تو موقعے
کا فائدہ اٹھا کر اسلحہ مافیا اور ڈرگ مافیا نے پورےالآصف اسکوائر پر قبضہ
کرلیا اور آج تک قبضہ کیا ہوا ہے اس طرح انہوں نے اپنا نام لینڈ مافیا کی
لسٹ میں بھی شامل کرلیا۔
پھر سہراب گوٹھ پختونوں اور افغانیوں نے اے این پی کے جھنڈے تلے سیاست میں
بھی آ گئے۔ اس طرح یہ علاقہ دوسری قومیتوں کیلئے نو گو ایریا بن گیا ہے اب
یہاں صرف، ڈرگز مافیا، غیر قانونی تجاوزات مافیا، مہلک ترین بھاری غیر
قانونی اسلحہ مافیا کا کنٹرول ہے۔ اگر آپ کراچی میں ہیں اور آپ کو منشیات،
شراب یا غیر قانونی اسلحہ کی ضرورت ہو تو آپ سہراب گوٹھ چلے جائیں آپ کو
تمام چیزیں مل جائیں گی۔ یہاں فاٹا سے اسلحہ لا کر بیچا جاتا ہے اس دھندے
کو صوبہ خیبر پختونخواہ کی لسانی جماعت میں شامل لوگ چلا رہے ہیں۔
کراچی میں سہراب گوٹھ، الآصف اسکوائر کا نام لیتے ہی سب سے پہلے ذہن میں جو
بات آئی گی وہ یہ ہے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں جرائم کی ایک ایسی دنیا ہے
جہاں مجرموں کی سرکوبی کیلئے پولیس یا رینجرز جاتے ہوئے ڈرتے ہیں اور سو
بار سوچتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں جرم بستا ہے اور جہاں اس پاکستان کے
کئی نامی گرامی مجرموں اور طالبان دہشتگردوں نے پناہ حاصل کی۔ طالبان اور
القاعدہ کے بڑے بڑے دہشتگرد یہاں سے پکڑے گئے جس سے لگتا ہے کہ اب یہ علاقہ
غیرملکی عسکریت پسندوں کا مرکز بھی بن گیا ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ جب لوگ سہراب گوٹھ، الآصف اسکوائر، بنارس چوک، منگھو پیر،
شیرپاؤ کالونی اور قائد آباد کے ڈرگز مافیا، غیر قانونی تجاوزات مافیا،
غیرقانونی اسلحہ مافیا وغیرہ کے خلاف احتجاج و شکایت کرتے ہیں تو اے این پی
کے عیار لیڈران فوراً اس کو لسانی رنگ دے کر اسے مہاجر پشتون جنگ بنا دیتے
ہیں۔ اور حکومت نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ مختلف ادوار میں مختلف
حکومتوں نے ان جرائم پیشہ کو پنپنے کا خود موقع دیا صرف اپنی سیاسی مصلحتوں
کی وجہ سے۔ ہر بار ان کے خلاف عسکری کاروائی کرنے کی بات کی گئی لیکن پھر
فیصلہ موقوف کردیا گیا کہ "اے این پی" کو یہ بات راس نہ آتی تھی۔ اگر اب
بھی اگر ان کو یہاں سے نہیں ہٹایا گیا تو صورتحال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔ اور
یہ عمل پولیس یا رینجرز کے بس کا نہیں رہا اب کاروائی صرف فوج ہی کرسکتی
ہے۔ آئے روز رینجرز اور پولیس کو اضافی اختیارات اور احکامات دینے سے کچھ
حاصل نہیں ہوگا جب تک حقیقی معنوں میں غیر قانونی اسلحے سے شہر اور ملک کو
پاک نہ کیا جائے۔ اگر اس غیر قانونی اسلحے کی مین سپلائی لائن کو ہی کاٹ
دیا جائے تو ٹارگٹ کلنگ میں واضح کمی آسکتی ہے۔ نہ اسلحہ ہوگا نہ کلنگ
ہوگی۔ |