ایک صحافی کا نام کسی عدالتی حکم یا قانونی
کاروائی کے بغیر ’’ای سی ایل‘‘ میں ڈالنے کا معاملہ ان دنوں ایک موضوع بنا
ہوا ہے۔اخبار ’ڈان‘نے اپنے ادارئیے میں اپنے صحافی سیرل المیڈا کی خبر کی
ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس خبر کی اشاعت کا دفاع کیا ہے۔اس سے پہلے
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم پاکستان محمد
نواز شریف نے چند روز قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو
کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ذمہ
داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے ان کی نشاندہی کی جائے۔وزیر اعظم
ہاؤس کے پریس آفس کی طرف سے سول اور فوجی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات
کے بارے میں جاری بیان میں گذشتہ ہفتے ملک کے مقتدر ترین اخبار ڈان میں
ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے س پر شدید
تشویش کا اظہار کیا گیا ۔بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکا اس بات پر مکمل
طور پر متفق تھے کہ یہ خبر قومی سلامتی کے امور کے بارے میں رپورٹنگ کے
مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس غلط اور گمراہ کن مواد جس کا
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو سے کوئی تعلق نہیں تھا کی
اشاعت سے قومی مفاد کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ جنرل راحیل
شریف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر کے ہمراہ محمدوزیر اعظم
نواز شریف سے ملاقات کی اور ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ
چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف بھی موجود تھے۔اس بات
پر بھی تشویش سامنے آ رہی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی باتیں کس
طرح منظر عام پر آگئیں۔انسانی حقوق ،صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی طرف
سے بھی سیرل المیڈا پر عائد پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلا ف جنگ ہو،ملک کو درپیش اندرونی، بیرونی خطرات ہوں یا ملک
کو بہتری اور استحکام کی طرف چلانا،ہر معاملے میں موثر پیش رفت کے لئے ملک
میں اتفاق و اتحاد ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر درپیش ہے۔اس واقعہ سے اس بات
کی ضروت مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ دفاع اور خارجہ امور میں حکومت
اور فوج کے درمیان ہم آہنگی اور یکسوئی پیدا کرنے کے لئے اشتراک عمل کو
بہتر بنانے کی گنجائش کافی زیادہ موجود ہے۔سابق مارشل لاء حکومتوں میں دفاع
اور خارجہ امور فوج کا دائرہ کار بن گئے،سول حکومت آنے کے باوجود ان
اختیارات پر سول حکومت کو ’’کمانڈنگ پوزیشن‘‘ حاصل نہیں ہو سکی۔یہ معاملہ
نہایت حساس ہونے کے علاوہ ملک کو درپیش سنگین ترین صورتحال کے خطرات کی
نشاندہی بھی کر رہا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ نئے ڈاکٹرائن میں
عوامی مشاور ت شامل معلوم نہیں ہوتی اور اس ڈاکٹرائن میں طے کردہ اہداف اور
پالیسی کے بارے میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے اقدامات اب واضح ہو چکے
ہیں۔ایک طرف ملک کو حقیقی طور پر پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے بیرونی اور
اندرونی خطرات کا سامنا ہے،بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ملک کو درپیش اس
خطرناک صورتحال میں بھی ملک کے اندر اقتدار و حاکمیت کی کشمکش جاری ہے۔
سیاست ملک کو سوچ و عمل کی رہنمائی عطا کرتی ہے ،لیکن ،سیاست کو غیر سیاسی
طور طریقوں پر چلانے سے ملک میں ایسی سیاست کی خواہش بھی منقود ہو جاتی
ہے۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ محض سول حکومت ہونے سے، محروم کردہ تمام
اختیارات کے حصول کا دعوی بار آور ثابت نہیں ہو سکتا،اس کے لئے ملک کی
سیاسی جماعتوں میں سیاسی تقاضوں کی بحالی بھی ناگزیر ہے ۔سیاسی جماعت میں
صدر’’ سیاہ و سفید ‘‘ کا مالک نہیں بلکہ مجلس عاملہ کے فیصلوں کا پابند
ہوتا ہے۔ملک کے پہلے مارشل لاء کے بعد سیاسی جماعتوں کو یوں نشانہ بنایا
گیا کہ سیاسی جماعتیں نشان عبرت بن کر رہ گئیں اور ملک میں سیاسی جماعتوں
کے نام پر شخصی،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں کاچلن عام ہوا۔اب
اگر ملک میں حکومت،پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کا مقصد حاصل کرنا ہے تو اس
کردار کی بحالی کے لئے سیاسی جماعتوں،سیاسی رواجات کو حقیقی سیاسی کردار پر
عمل پیرا ہونا پڑے گا۔سیاسی کردار کی اہلیت نہ ہوتے ہوئے ،حکومت ،پالیمنٹ
کو مکمل با اختیار بنانے کے مطالبے ،عزم کے اظہار سے ’’ بار گینگ‘‘ تو ہو
سکتی ہے لیکن اس سے ملک میں عوامی اقتدار کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں
ہے۔حکومت اور فوج اگر عوام کے وسیع تر مفاد کے ’’ پیج‘‘ پر ایک ہو سکیں تو
یقین جانیں یہی ملک کا بھی وسیع تر مفاد ہے۔
|