وطن عزیز کے شہری یہ سن سن کر تنگ آگئے ہیں
کہ بد عنوان عناصر کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ احتساب بیورو
سے لے کر احتساب کمیشن اور اآنٹی کرپشن سے لے کر نیب تک کیا کچھ محکمے نہ
بنائے گئے ۔ کیا کچھ قوانین نہ بنے مگر نتیجہ وہی ایک ہے کہ کو ن پوچھتا ہے
؟ فوج کی حکومت آتی ہے تو چند نہ ماننے والوں (Non-Conformists) کے خلاف
مقدمات بنا دیئے جاتے ہیں اور پھر سیاسی مک مکا ہونے اور کوئی جیم شیم اور
نون پ ق کی مسلم لیگ یا مارشل لاء کی بی ٹیم بننے کے بعد اگلے پچھلے گناہ
’’عظیم تر ملکی مفاد ‘‘ (Larger Public Interest) کے نام پر معاف کر دیئے
جاتے ہیں بلکہ این آر او تک آ جاتی ہے۔ عوام میں چونکہ تعلیم اور شعور کی
بے حد کمی ہے ورنہ انسانی ضمیر اور انسانی شعور و شرافت کے ساتھ اس قسم کا
کھیل کسی مغربی تعلیم یافتہ ، بیدار مغزاور جمہوری آزاد معاشرے میں قطعاً
ناممکن ہے ۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بھی کر سکتا ہے۔ پھر ایک
مسئلے کو ختم کرنے کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ ڈرائنگ روم
کی سیاست اور لین دین شروع ہو جاتی ہے۔ کمزور طبقات مزید پیس دئیے جاتے ہیں
۔ درمیانی طبقہ یا نچلہ طبقہ جو تھوڑا بہت کما لیتا ہے وہ ایک نہ ایک قانون
اور جبر کے راستے ان سے واپس کرایاجاتا ہے جبکہ جاگیردار اور صنعت کار طبقہ
اور اعلیٰ پولیس و ملٹری افسران اور کسٹمز، انکم ٹیکس اور تعمیرات و
مواصلات سے وابستہ بیور وکریسی پھر سے بچ جاتی ہے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل
شریف نے بعض فوجی افسران کی بدعنوانی پر بڑا سخت ایکشن لیا مگر یہ ایکشن ان
افسران کے خلاف لیا گیا جن کی بد عنوانی بہت واضح ہو گئی تھی۔ عوام یہ
اُمید کر رہے ہیں کہ جن فہرستوں کا وہ سُن رہے ہیں شاید وہ نکل آئیں ۔ اسی
طرح خیبر پختونخوا میں بدنامِ زمانہ اسلحہ و بلٹ پروف جیکٹس اِسکینڈل کا
کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا ہے اور بعض اوقات تو یوں لگتا ہے جیسے یہ اسکینڈل
بھی کرپشن کا کالا باغ ڈیم بننے والا ہے ۔ نیب کے پاس موجود اس اِسکینڈل
میں اس قدر ثبوت موجود ہیں کہ کسی صورت بھی ان میں سے ایک بھی ملوث فرد
قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا مگر قانونی لیت و لعل سے کام لیا جار ہا ہے
۔ جب اربوں روپے کی خریداری قریبی دوست ملک چین کے ایک فرضی فرم سے کی گئی
ہے اور ایک چینی تاجر مسٹر لی (Lee) جس کا کوئی وجود ہی نہیں،سے جعلی
دستخطوں پر سودا اور معاہدہ کیا گیا تھا تو عدالت کو اور کیا ثبوت چاہیے؟
عوام کو حیرت ہے کہ عدالت عالیہ جو کہ ایپلیٹ کورٹ ہے اور ٹرائیل کورٹ نہیں
ہے کیوں اس مقدمے کی انصاف اور حق کی بنیاد پر سماعت کا حکم نہیں دیتی ؟یہی
حال اسٹیل ملز سمیت دیگر میگا اسکینڈلز کا بھی ہے ۔ بدعنوانی صرف ایک محکمے
میں نہیں ہر محکمے میں عروج پر ہے۔پنجاب میں تو جیسے کوئی بدعنوان ہے ہی
نہیں۔ عوام پوچھتے ہیں کہ خیبرنخواہ کی سابقہ صوبائی حکومت کے ایک مشیر نے
پچیس کروڑ روپے آخر کس بدعنوانی سے حاصل کیے تھے جو پلی بارگین میں واپس
کیے ؟ کیا یہ تمام دولت وہ مشیر موصوف اکیلے جمع کر چکے تھے ؟ کیا وہ حکومت
میں ایک منتخب نمائندے تھے؟ کیا اس کا کوئی ساتھی ساجھی نہیں تھا ؟
پختونخوا اور بلوچستان میں تو علمی مراکز اور یونیورسٹیوں کے سربراہان تک
ضمانتوں پر ہیں ۔ کیا عدالتوں کا کام عوامی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا
نہیں ہے کہ وہ تعلیمی اور تربیتی اداروں سے ایسے افراد کی صفائی کا حکم دے
؟ مانتا ہوں کہ ضمانت دینا عدالت کا اختیار ہے مگر کیا کسی نے عبوری
ضمانت (بی بی اے )سال ڈیڑھ سال تک بھی دیکھی ہے ؟ مجرم مجرم ہوتا ہے وہ کسی
بھی عہدے اور تعلیم کا ہو۔’’اگر محمد ؐ بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کا
ہاتھ کاٹ دیا جاتا ‘‘ یہ حدیث ہمیں کیوں نظر نہیں آتی کہ ایک وائس چانسلر
اور ایک پٹواری کے لیے الگ الگ قانون ہے؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے رضا
کارانہ طور پر کرپشن کی دولت واپس کرنے والوں کی فہرست طلب کر لی ہے اور 24
اکتوبر 2016ء کو اس مقدمے میں حکومت کو آخری موقع دیا ہے ۔ چونکہ یہ کیس
سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے میں اس پر رائے زنی نہیں کر سکتا۔ تاہم
فاضل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور فاضل جسٹس ہانی کے ریمارکس سے معلوم
ہوتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت ملک کی بگڑتی اخلاقی حالت اور روبہ زوال
معاشرے میں بد عنوانی کی عفریت کو لگام دینا چاہتی ہے ۔ عدالت نے سوموٹو
ایکشن کے تحت یہ کیس اٹھایا ہے کہ آخر بد عنوانی کا اقرار کرنے والے اور
پھر کرپشن کی بے تحاشا دولت سے چند ٹکے واپس کر کے کس اخلاقی جواز کے تحت
وہی افسران ملک کے سفید و سیاہ کے مالک بنے ہوئے ہیں ؟ کیااس لیے کہ وہ
اپنا نقصان سُود سمیت پورا کریں ؟یہ لوگ تو برادرانِ یوسف سے بھی بڑھ کر
ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ پہلے یوسف ؑ کو قتل کرو اور پھرواپس جا کر رونا
دھونا کرو اور اچھے اچھے کام کر کے نیک صالح بن جاؤ۔ مگریہاں تو یہ واپس جا
کر اور زیادہ لوٹ مار کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کو پاکبازی کی کلین چٹ مل
جاتی ہے ۔اِسی وجہ سے تو نیب زدگان نے اعلیٰ عدالتوں کے خلاف بھی ایک مہم
شروع کر رکھی ہے ۔ محکمانہ کارروائی میں اگر کوئی بات ثابت نہ بھی ہو تب
بھی کسی افسر کو اگلے گریڈ میں ترقی نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کے خلاف
انکوائری ہوتی ہے مگر یہاں تو باقاعد ہ اعترا ف ِ جرم ہوتاہے پھر بھی ان کو
اَگلے گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے ۔ قانوناً نیب کی انکوائری یا تفتیش ترقی
کے لیے رکاوٹ نہیں ہے مگرریفرنس دائر ہونے اور ضمانتوں پر ضمانتیں لینے کے
باوجود اعلیٰ ترین عہدوں پر تعیناتی اور اگلے گریڈ میں ترقی اخلاقی جواز سے
عاری عمل ہے ۔ نیب کا ریفرنس تو باقاعدہ اور اچھے پکے ثبوت کے بغیر بن ہی
نہیں سکتا ہے ۔ہو سکتا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان اس مسئلے میں ملک و قوم کی
راہنمائی کرے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ ایک شخص اعتراف جرم کر کے حکومت کو بد
عنوانی کی کچھ رقم واپس کر دیتا ہے مگر مجال ہے کہ وفاقی اسٹبلشمنٹ ڈویژن
اتنی کھلی خلاف ورزی پر محکمانہ کاروائی کے لیے ایک لفظ بھی لکھے ۔ یہ کتنے
افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف پورے ملک میں بد عنوانی کے خلاف شدید جذبات
پائے جاتے ہیں کہ اس ناسُور نے ہماری معاشیات کو تباہ کر دیا ہے اور دوسری
طرف وفاقی اسٹبلشمنٹ ڈویژن عدالت میں یہ کہہ رہا ہے کہ چونکہ ان لوگوں نے
کچھ نہ کچھ ادائیگی کی ہے اس لیے ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اگر
ایسا ہی ہے تو وفاقی اسٹبلشمنٹ ڈویژن معمولی معمولی باتوں پر آئے دن افسران
کے خلاف سال ہا سال تک انکوائری کیوں کرتا ہے ؟ اور جب کوئی افسر اس
انکوائری میں بے گناہ ثابت ہو جاتا ہے تو ڈویژن کے پاس اس کے لیے کوئی
تلافی (Compensation) نہیں ہوتی ہے ؟ ڈویژن کچھ بھی تلافی نہیں کرسکتا اور
ایک افسر کو جھوٹے الزام اور ذاتی عناد پر ترقی اور ضروری کورسسز سے روک
دیا جاتا ہے ۔ یہاں پر تو اعتراف جرم ہوتا ہے اور ہ بھی رضا کارانہ طور پر
’’ باہمی گفت و شنید ‘‘ اور ’’باہمی رضا مندی‘‘ سے ’’بخوشی ء خود‘‘ رقم کی
واپسی ہوتی ہے ۔ نہ معلوم کتنی رقم علانیہ اور کتنی خفیہ واپس کی جاتی ہے
مگر پھر بھی احتساب اور ڈسپلن کے رولز خاموش ہو جاتے ہیں؟
ایک طرف تو یہ قانونی جنگ جاری ہے تو دوسری طرف بد عنوان افسران دَھڑا دَھڑ
عبوری ضمانتوں کے پیچھے چھپ رہے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ایسے افسران بھی
ہیں جو رضاکارانہ طور پر واپسی کے لیے کروڑوں کی ادائیگی پر راضی ہو جاتے
ہیں مگر پھر وکلاء کی بھاری فیس ان کو آسان معلوم ہوتی ہے اور بڑی آازادی
سے دھندناتے پھرتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اخلاقی
جرأت کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور میڈیا، وکلاء اور عدالتوں سمیت نیب، ایف آئی
اے اور فوج کو بھی اس تحریک احتساب میں شامل ہونا ہو گا۔ یہ محض نیب یا
عدالت کا کام نہیں ہے ۔ ہم سب کو اپنا کردار اد ا کرنا ہو گا۔
اس تمام سرگرمی میں بُری خبر یہ ہے کہ نیب کے اپنے افسران کے درمیان ایک
سرد جنگ شروع ہو گئی ہے جو اب عدالتی جنگ میں بھی تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے ۔
افسران کا ایک گروہ شکایت کررہا ہے کہ ان کے مخالفین کو غلط طور پر ضم
(Absorb) کر لیا گیا ہے اور دوسرا گروہ یہ کہہ رہا ہے کہ پہلا گروہ بغیر
مطلوبہ تربیت و تجربہ کے لیے لیا گیا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ وقت نیب کے
افسران کے درمیا ن ناچاقی کا نہیں ہے بلکہ ان کے اندر ٹیم سپرٹ اور اتفاق
کا ہونا ضروری ہے ۔ چیئر مین نیب پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ
اپنے افسران کو ایک میز پر بٹھا کر یہ گروہ بندی ختم کروائیں ورنہ اس سے
احتساب کے عمل کو شدید دھچکا لگے گا۔ اگر افسران میں ناچاقی برقرار رہی تو
عوام میں نیب کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو جائے گی ۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت
ہے ۔ آنے والا وقت سپریم کورٹ اور چیئر مین نیب کے امتحان کا ہے ۔ دیکھنا
پڑے گا کہ عدالت اور چیئر مین نیب عوامی جذبات و احساسات اور قومی تقاضوں
کی ترجمان کرتے ہیں یا بد عنوان عناصر پھر سے قانونی موشگافیوں اور لفظی
ہیر پھیر کے گور کھ دھندوں میں سر چھپانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ |