پاک چین اقتصادی راہداری۔۔۔ قوم کی ترقی کا سفر

پاکستان کوقدرتی طورملاجغرافیائی محل وقوع( اسٹریٹجک پوزیشن )اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی تیل، گیس ،زراعت، صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن سکتاہے۔اس قدرتی محل وقوع کی اہمیت اورافادیت کومدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور چین نے مل کر’’پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ‘‘بنانے کافیصلہ کیاہے جوکاشغر سے شروع ہو کر گلگت۔ بلتستان اور خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے گزرے گا۔واضح رہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ہے۔یہ ہزاروں کلومیٹر ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔چین یومیہ60لاکھ بیرل تیل بیرون ملک سے درآمدکرتاہے جس کاکل سفر12000کلومیٹر بنتاہے جبکہ یہی سفرسی پیک کی تکیمل کے بعدسمٹ کرمحض3000کلومیٹر رہ جائے گا جس کے باعث چین کوتیل کی سالانہ تیل کی درآمدت پر20ارب ڈالربچت ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مدمیں5 ارب ڈالریعنی پانچ کھرب یاپانچ سو ارب روپے سالانہ ملیں گے۔ سی پیکصرف چین کیلئے نہیں بلکہ روس کیلئے بھی انتہائی سودمندہے کیونکہ وہ بھی اپنی تجارت اس خطے سیکرناچاہتاہے اس کے لیے روس کے پاس صرف دوہی راستے ہیں ایک ایران کی چاہ بہاربندرگاہ جسکی گہرائی11میٹر سے زیادہ نہیں جبکہ دوسراراستہ گوادر کاہے جو دنیا کی تیسری سب سے گہری بندرگاہ ہے۔وسطی ایشیاء کی ریاستیں دنیا کا دوسراسب سے بڑا تیل اور گیس کا ذخیرہ رکھتی ہیں۔ جن کووہ ان ممالک تک پہنچانا چاہتے ہیں روس اور وسطی ایشائی ممالک گوادر کی بدولت بہت جلد پاکستان پر انحصارکرینگے۔ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار ٹرک روزانہ چین، روس اوروسطی ایشیاء کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کرینگے۔ پاکستان کو صرف ٹول پلازے کی مد میں ہی 20سے 25 ارب کی بچت ہوگی۔سی پیک منصوبوں کاپہلا مرحلہ 2017ء کے آخریا 2018ء کے آغاز میں مکمل ہو جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے کے منصوبے2020ء اور تیسرے مرحلے کے پروجیکٹ2030ء تک مکمل ہو جائیں گے تاہم سی پیک منصوبے کے ثمرات پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعدہی پاکستانی عوام تک ملناشروع ہو جائیں گے۔سی پیک منصوبے کے تحت گوادر پورٹ میں توسیع و اپ گریڈیشن،گوادر شہر میں ائیرپورٹ سمیت بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی، انڈسٹریل پارک کاقیام، مغربی اور مشرقی روٹس پرگوادر سے لے کر چینی سرحد تک موٹر وے نیٹ ورک، بڑے شہروں کے لئے رابطہ سڑکیں، ریلوے ٹریکس میں توسیع وانقلابی اپ گریڈیشن اور تیل کی پائپ لائنز وغیرہ شامل ہیں۔ان منصوبوں کے متعلقہ علاقوں میں لامحالہ معاشی اوراقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر ان علاقوں میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کاسنگِ میل ثابت ہوں گی۔ روزگار کے بے شمار مواقع میسرہوں گے۔غربت کے خاتمے کے لئے یہ مواقع لاکھوں خاندانوں کو غربت کی بیڑیوں سے آزاد کر سکیں گے۔ اگر تمام منصوبے پروگرام کے مطابق مکمل ہو گئے تو زیادہ تر علاقوں میں کاروبار، صنعت اور تجارت کا روایتی انداز اور طرز ہمیشہ کے لئے بدل جائے گا۔سی پیک کا اصل مقصد اہم یورپی اور ایشیائی معیشتوں کو انفراسٹرکچر، تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کرناہے ۔ اس منصوبے کے تحت دو طرح کے عالمی رابطے قائم کرنا مقصود ہے ، ایک جانب سلک روڈ کے ذریعے اقتصادی رابطہ یعنی سلک روڈ اکنامک روڈ جبکہ دوسری جانب(میری ٹائم سلک روٹ)زمینی راستے کے منصوبوں میں سڑکیں، ریلوے ٹریکس، تیل اور گیس پائپ لائنز اور اس سے منسلک کئی دیگر منصوبے ہیں جن کے ذریعے وسطی چین کے علاقے زن جیانگ کو ابتداء میں وسطی ایشیا سے مربوط کر نے کا پلان ہے۔ بعدمیں اس انفراسٹرکچر کو پھیلا کر روس کے شہر ماسکو، ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم اوراٹلی کے شہر ونیس تک لے جانے کاارادہ ہے ۔ان منصوبوں کے لئے ایک مخصوص سڑک کے بجائے اس بیلٹ یاکوریڈور کو پہلے سے موجود زمینی راستوں یعنی سڑکوں اور پلوں کے ساتھ ساتھ جوڑاجائے گا۔ یوں چین، منگولیا،روس، وسطی چین اور مغربی ایشیا، انڈو چا ئنا کا علاقہ، چائنا، پاکستان،بنگلہ دیش، چائنا، انڈیا اور میانمارکو آپس میں ملانے کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ دوسری طرف سمندری نیٹ ورک کے ذریعے بندر گاہوں اور ساحلی علاقوں میں انفراسٹرکچر منصوبوں کو زمینی راستوں سے مربوط کرنے کا پروگرام ہے تاکہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء سے لے کر مشرقی افریقہ تک اور بحیرہ قلزم تک تجارتی راستوں کا وسیع اور مربوط نظام قائم کر دیا جائے۔ اس منصوبے میں65پینسٹھ ممالک کی شمولیت متوقع ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دیکھیں تو ساڑھے چار ارب افراد ان منصوبوں سے مستفید ہوں گے۔ ان ممالک اور آبادی کی مجموعی قومی آمدنی کو جوڑ لیں تو یہ عالمی جی ڈی پی کا چالیس فی صد بنتا ہے۔ اس وسیع و عریض منصوبے کے لئے وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری چین نے اْٹھائی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لئے چین نے نیو سلک روڈ فنڈ کے نام سے چالیس ارب ڈالر مختص کئے ہیں۔ اس فنڈ کے لئے چین اپنے زرمبادلہ کا کچھ حصہ صرف کرے گا جبکہ حکومت کے دیگر سرمایہ کاری اور مالی ادارے بقیہ وسائل فراہم کریں گے۔ اس فنڈ کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سرمایہ کاری بھی متوقع ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں قائم ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک کے ذریعے مزیدایک سوارب ڈالر کے قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے۔انفراسٹرکچرکے ان منصوبوں سے منسلک نو سوسے زائدصنعتی اورتجارتی منصوبوں کے لئے چائنا ڈویلپمنٹ بینک نوسوارب ڈالرکے وسائل فراہم کرے گا۔یوں اپنی وضع اور نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک منفرد اور کئی ملکوں کے درمیان مربوط منصوبہ ہے۔اب اگر پاکستان کی بات کی جائے توسی پیک منصوبے کی صورت میں پاکستان کے لئے یہ ایک انتہائی نادروسنہری موقع ہے کہ اس منصوبے سے اپنے بہترین معاشی مفادات اورمتناسب علاقائی ترقی کے مطابق اس سیفائدہ اٹھائے۔ بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان براہ راست اس منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ جبکہ دوسرے صوبے روڈ نیٹ ورک کے ذریعے منسلک ہوں گے۔منصوبوں کی تیاری، ان میں مقامی صنعتوں کی شمو لیت، مقامی لیبر اور افرادی قوت کی کھپت سمیت بہت سے حساس اور دور رس اہمیت کے معاملات اس پرو جیکٹ کے فوائدکے حصول میں اہم کردار کریں گے۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق سی پیک کے ذریعے 150ارب ڈالرکی سرمایہ کاری متوقع ہے۔اس میگا منصوبے کے ذریعے رابطوں کو بڑھانے سے پاکستان کوتجارتی مواقع میسرہوں گے اوردنیا کی 70 فیصدسمندری تجارت پاکستان کی2بڑی بندرگاہوں کراچی اور گوادر کے راستے ہو گی۔گوادر متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک، سعودی عرب اور ملحقہ خطوں کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کا تیز ترین ذریعہ بن جائے گا۔مختصر یہ کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان دنیا میں ایک مستحکم اقتصادی قوت کاحامل ملک بن کے ابھرے گا اسی وجہ سے پاکستان مخالف طاقتوں اور گروہوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں جوکہ پاکستان کو پھلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتیں جبکہ سی پیک منصوبے پرسب سے زیادہ مخاصمت بھارت کوہے جس نے سی پیک منصوبے کی ابتداء سے ہی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا تھا۔ بلوچستان میں بدامنی اورعلیحدگی پسندتحریکیں،کنٹرول لائن پربلااشتعال فائرنگ،باڈرپرسرجیکل اسٹرانک کاڈھونگ رچانے سمیت دیگرہتھکنڈیاس منصوبے کو سبوتاژکرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔بھارت اس منصوبے کوروکنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیارہے ۔مختلف صوبوں میں سی پیک کی مخالفت میں اٹھنے والی انتہائی خفیف آوازوں کے پیچھے بھی بھارت کامکروہ چہرانمایاں ہے۔واضح رہے کہ مختلف سیاسی اور قوم پرست جماعتیں سی پیک کے خلاف آوازیں بلند کررہی ہیں جس کیلئے وفاق وعسکری قیادت کو چاہیے کہ انہیں آن بورڈلیکر ان کے جائزمطالبات کوپوراکریں مگرتمام سیاسی وقوم پرست جماعتوں کو چاہیے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفادات ،سالمیت اورخوشحالی کیلئے اس عظیم منصوبے کے خلاف صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہرزہ سرائی سے گریز کریں۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی وقوم پرست جماعتوں نے ماضی میں بھی عوام کے مفادات کیلئے بنائے جانے والے بڑے منصوبوں کوسیاست کی نذرکرکے پاکستان کی ترقی میں رکاؤٹ ڈالی اگر اس بارایساکیا گیاتوانہیں سخت ترین عوامی ردعمل ومذاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی ترقی ،سالمیت اورخوشحالی کے ضامن سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے قوم کا ہرفرد خواہ اس کی وابستگی کسی بھی سیاسی،مذہبی جماعت سے ہو یا کسی بھی علاقے وزبان وقوم سے ہوکو چاہیے کہ مل کر ملک کی ترقی میں حائل رکاؤٹوں کومشترکہ جدوجہدکرکے اس عظیم ترین منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچاکرپاکستان کوترقی کے ناختم ہونے والے سفرپرگامزن کریں ۔
Kamran Chouhan
About the Author: Kamran Chouhan Read More Articles by Kamran Chouhan: 6 Articles with 3716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.