مسلکی خانہ جنگی کی سازش کا نیا روپ !!

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں داعش ایک دجالی فتنے کی علامت بن کر ابھر ا اور اس نے نہ تو شیعہ مسلک دیکھااور نہ سنی مسلک دیکھا ، بس اپنے دہشت گرد کاروائیوں سے انسانیت کے خوں کے درپے ہوتا چلا گیا ، اسلامک اسٹیٹ کہلائے جانے والے اس دجالی فتنے نے مسلم امہ میں خوف کے سائے چھوڑ کر تمام مسالک کو اپنا نشانہ بنایا۔ان کا ایجنڈا کیا ہے ۔ کس نے انھیں تخلیق کیا ، کس نے انھیں پروان چڑھایا ، اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔امریکہ اپنے مفادات کیلئے جہاں غیر مسلم ہونے کے باوجود ’جہاد ‘کیلئے فنڈ اس لئے دیتا رہا کیونکہ اس سے روس کمزور ہورہا تھا ، اورعام مسلمان ’جہاد‘ اس لئے کرتے رہے کیونکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ پرجوش تقاریر کے پس پردہ بعض ’علما سو‘ کس اسلام دشمن ایجنڈے پر کام کرنے کیلئے انھیں اسلام کے اہم ترین رکن’ جہاد ‘ کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر ارہے ہیں۔داعش بھی انہی مقاصد کیلئے وجود میں آئی ، افغانستان اورپاکستان میں داعش کا وجود ثابت ہوچکا ہے ، کئی اراکین گرفتار ہوچکے ہیں ، ان کی بھرتیوں اور دہشت گرد کاروائیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ہیں۔پاکستان کے دشمن ممالک اپنے ایجنڈے کے تحت پاکستان کے حساس شہروں میں شام و عراق کی طرح خانہ جنگی کرانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ان کی یہ سازشیں کسی خاص موقع کا انتظار کر رہی ہیں ۔ کراچی میں اسلحے کی بھاری کھیپ کی کھوج کے بعد سوشل میڈیا میں قانون نافذ کرنے والوں کا جس طرح مذاق اڑیا گیا اور ان پر لطائف گھڑے گئے ، وہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ عوام کا اعتماد ، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ختم کرکے ،ذاتی تحفظ کے نام پر ناپختہ اذہان میں برین واشنگ کی جائے کہ خانہ جنگی کا ماحول تیار ہوجائے۔ ابھی تک ملت اسلامیہ کے دشمن سنی ، شیعہ فسادات کرانے کے لئے سرگرم رہتے تھے ، اور اب بھی ہیں ،۔ مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کی سرزمین کو اس لئے منتخب کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں متعدد مسالک سے وابستہ افراد تعداد میں دوسرے مسلم ممالک کے مقابلے میں کئی زیادہ ہے۔یہاں بڑے گروہوں میں ، اہل تشیع مسلک میں اثنا عشری ، اسمعیلی، زیدیہ،کیسانیہ ، اہل سنت میں دیوبندی، بریلوی ،اہل حدیث و دیگر فرقے و گروہ ہیں جو ایک دوسرے سے مسلکی اختلاف رکھتے ہیں ،لیکن ان میں سب سے خطر ناک فرقہ داعش ہے ۔ داعش میں بھرتی سینٹرز کا سراغ حساس ادارے لگا چکے ہیں ۔ اس سے قبل داعش میں جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شامل ہوئے ، تو یہ خطرات سامنے آچکے تھے کہ پاکستان کی سر زمین سے بھرتی کیلئے کالعدم تنظیموں کو بھرتی کیا جائے گا ۔ پشاور میں داعش کی جانب سے پمفلٹ ، اسٹیکر اور پر کشش مراعات افغان مہاجرین کے کیمپ میں تحریری شکل میں تقسیم کیں گئیں۔پنجاب میں اسٹیکر لگائے گئے ۔ کراچی میں دیواروں پر چاکنگ اور پمفلٹ چپساں کئے گئے۔کراچی میں اورنگی ٹاؤن ، گلشن اقبال ، ملیر ، گلشن حدید اور بفر زون سمیت پوش علاقوں میں بھرتی مراکز کا سراغ لگایا گیا ۔داعش کراچی کے انچارج نے اپنی گرفتاری پر انکشاف کیا کہ القاعدہ برصغیر نیٹ ورک کے تحت ویسٹ اور سیینٹرل زون کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے ، اس کی بنیادی یہ ہوسکتی ہے کیونکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں ایسی کچی آبادیاں ہیں جہاں کالعدم جماعتوں نے اپنے قدم مضبوطی سے جمالئے ہیں ، سینٹرل کا علاقہ بھی زیادہ تر کچی آبادیوں پر مشتمل ہے اور جہاں خاص نقطہ نظر کے مسلک گروہ کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ابھی تک دس مراکز کا سراغ لگایا گیا ، جبکہ یہ بھرتی سینٹر کئی برسوں سے چل رہے تھے۔لیکن آئی بی اے جیسے پروفیشنل ادارے کے فارغ التحصیل طالب علموں کی جانب سے سیفورا گوٹھ میں بھیانک دہشت گردی کے واقعے نے ملک بھی میں سنسنی پھیلا دی اور اپنی یہ رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے کہ مدارس کو انتہا پسندی کے نام پر مورد االزام ٹھہرانا درست نہیں ، بلکہ پوش علاقے اور انتہائی پروفیشنیل اداروں میں انتہا پسند ی بڑی خطرناک حد تک پنیب چکی ہے۔القاعدہ کی ذیلی شاخ القاعدہ برصغیر کے تحت پاکستان اور افغانستان سے بیرون ملک بڑی تعداد میں بھرتیاں کیں گئیں۔ ذرائع کے مطابق اب تک دس ہزار سے زائد کالعدم تنظیموں کے کارندے اور تعلیمی اداروں کے طلبا بھرتی ہوچکے ہیں۔اعلی تعلیم یافتہ نوجوان تواتر سے بھرتی ہوئے۔ان میں وہ لوگ بھی تھے ، جنھوں نے اسلام کے نام پر عراق و شام کی خانہ جنگیوں میں حصہ لیا ۔ واپس پاکستان و افغانستان آئے اور پھر بھرتی ہوکر مغربی ممالک بھی گئے ۔ جہاں انھوں نے برین واشنگ کرکے مغربی ممالک کے شہریوں کو بھی داعش میں بھرتی پر آمادہ کیا ، ایسے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔پولیس آفسر راجہ عمر خطاب بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ، کئی القاعدہ کے جنگجو اپنی وفا داریاں بدل کر داعش میں شامل ہوچکے ہیں۔صحافیوں کو داعش کیلئے کام کرنے پر راغب کیا جاتا ہے ۔ داعش کی مخالفت میں لکھنے والوں کو دہمکیاں دیں جاتی ہیں۔ بذات خود راقم پر کالعدم تنظیم نے حملہ کرکے شدید زخمی کیا، ایسی دہمکی آمیز ای میل بھی ملی جس میں داعش کی جانب سے دہمکیاں دیں گئیں ۔ حساس اداروں کو ان ای میلز سے آگاہ کیا۔اہم صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو ایک نئی مسلکی جنگ کا اکھاڑہ بنانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں ،شیعہ ، سنی خانہ جنگی تو لسٹ میں ٹاپ پر ہے ، لیکن سنی مسالک میں بھی باہمی تصادم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔جیسے سنی تحریک کی اعلی سطح کی قیادت کو نشتر پارک جلسے میں بم دھماکہ کا نشانہ بنا کر بریلوی اور دیو بندی مسلک کے درمیان خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی گئی، ایسی طرح فیضان مدینہ میں 33خواتین جاں بحق ہوئیں ۔دوسری جانب دیو بند مسلک کے اہم ترین علما ؤں کو جو کسی فرقہ وارانہ تنظیموں یا اسلام پسند انتہا پسند جماعتوں سے وابستہ نہیں تھے ، انھیں نشانہ بنایا گیا اور انھیں ٹارگٹ کلنگ کرکے جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کے لئے سازشیں کیں گئیں وہیں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی تنظیم کے خلاف بھی رائے عامہ خلاف کرنے کیلئے پروپیگنڈا کیا گیا ۔اگر ایسے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے ، ہمیں ان سازشوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ بھی نظر آتا ہے ، جو’ را ‘کی شکل میں ایم کیو ایم و لیاری امن کمیٹی کے گینگ وار کو فرقہ وارانہ کشیدگی کیلئے استعمال کرتا رہا۔دیو بند اور سنی بریلوی مکتبہ فکر کے علماؤں کو نشانہ بنا کر شہید کرنا ، شیعہ ، سنی سے زیادہ خطرناک سازش ہے ، کیونکہ واضح طور پر یہ نظر آرہا ہے کہ ایک جانب بھارت یہ چاہتا ہے کہ چین پاکستان میں پاک، چائنا اقتصادی راہدری کو کامیاب نہ ہونے دے ،اور چین کے قدم پاکستان میں جمنے نہ پائیں ۔ جیسے پاکستان کے عسکری اداروں ، خاص کر کراچی نیول بیس و دیگر مواقعوں پر چین کے انجنیئرز کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔تو دوسری جانب بھارت نے دیو بند مکتبہ فکر کے کچھ ایسے گروہ کی فنڈنگ شروع کردی ، جو پاکستان اور پاکستانی عسکری اداروں کے مخالف ہیں، جن کالعدم تحریک طالبان پاکستان سرفہرست ہے ۔ یہاں عرب کے کچھ ممالک کا کردار بھی پاکستان و افغانستان میں متنازعہ نظر آتا ہے جو باقاعدہ فنڈنگ کرکے ایسے گروہوں کو مضبوط کر رہے ہیں ، جو ایک طرف بریلوی مسلک کے خلاف ہوں تو دوسری جانب داعش کے روپ میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی صورتحال میں شام والا کردار ادا کرسکیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ متحدہ عرب امارات بھی گوادر فری پورٹ بننے سے خوش نہیں ہے ، کیونکہ پاک ، چائنا اقتصادی راہدری بننے کے بعد دوبئی و مارات کی اہمیت کم ہوجائے گی ، ویسے بھی دوبئی، شارجہ معاشی بحران سے گذر رہے ہیں اور مالی طور پر پاک ، چائنا اقتصادی راہدری کی کامیابی کے بعد ان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔ہماری تمام تر توجہ ایک مخصوص ملک کی جانب مبذول کرکے بھارت ، پاکستان میں چاروں طرف اپنی مرضی کا کھیل ، رچا رہا ہے ، افغانستان بھارت کی جانب سے مالی ، عسکری و اقتصادی امداد کے ساتھ بھارتی ثقافتی یلغار کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اکثر و بیشتر افغانستان سے پاکستان کے خلاف بیان کے سیاق و سباق سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے افغانستان نہیں ، بلکہ بھارت بول رہا ہو۔پاکستان میں جہاں شیعہ ، سنی خانہ جنگی و فسادات کی منصوبہ بندی ہے تو دوسری جانب بریلوی ، دیوبندی ، اہل حدیث کو بھی آپس میں باہم دست و گریباں کرنے کیلئے مذموم سازشیں کی جا رہی ہیں، داعش افغانستان میں بیٹھ کر جنوبی ایشیا میں مخصوص ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوشش کر تورہی ہے لیکن اس کے سامنے امارات اسلامیہ افغانستان ( افغان طالبان) حائل ہیں ۔جبکہ پاکستان میں شیعہ ، سنی فسادات و خانہ جنگی کرانے کیلئے بڑی شد و مد سے ہوا دی جا رہی ہے ، ممتاز قادری کی پھانسی پر مختلف مکتبہ فکرکا یکجا ہو جانا ، پاکستان کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا گیا ہے ، اگر ممتاز قادری پر صرف ایک مسلک کا احتجاج ہوتا تو پاکستان میں مسلکی خانہ جنگی کا عالمی ایجنڈا کامیاب ہوجاتا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743898 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.