بھارتی شہرگوا میں جب چین، روس، جنوبی
افریقہ، برازیل اور بھارت کا سربراہ اجلاس ہو رہا تھا، اس وقت بھارتی فوج
کشمیر کی جنگ بندی لائن پر گولہ باری اور شیلنگ کر رہی تھی۔ اس وقت بھارت
جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کا الزام پاکستان پر لگا رہا تھا۔ برازیل، روس،
انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ(برکس)کے بارے میں بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے
کہا ہے کہ برکس کی اینٹیں ایک ایک کر کے گر رہی ہیں۔
روسی صدر ولادمیر پیوٹن اور چین کے صدر کے ساتھ نریندر مودی کی الگ الگ
ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ بھارت کو روس سے گلے شکوے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار روسی
فوج کے سیکڑوں اہلکار پاکستان آئے اور پاک روس فوج نے مشترکہ مشقیں کیں۔
ظاہر ہے یہ بھارت کے لئے ناقابل قبول ہے۔ وہ روس کو اپنا دیرینہ پارٹنر
سمجھتا ہے۔ دونوں کی طویل پارٹنر شپ رہی ہے۔ پاکستان نے بھی نصف صدی تک روس
سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے دفاع اور سفارتکاری کے لئے امریکہ پر
مکمل انحصار کیا۔ تا ہم امریکہ نے اب پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم رکھتے
ہوئے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھا دیئے ہیں۔یہ امریکی سرد مہری ہے۔
پاکستان کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئی کہ امریکہ اپنے مفاد کے لئے
پاکستان پر بھارت کو ترجیح دے رہاہے۔ اس کی بڑی مثال میزائل ڈیفنس کی سودا
بازی ہے۔
روس کے شہر اوفا کے بعد گوا میں برکس سربراہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا
ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو
دنیا سے الگ تھلگ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت برکس میں
بھارت چین سے نالاں ہے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی نبھائی۔ مولانا
مسعود اظہر کے معاملہ پر چین نے ویٹو کا اختیار پاکستان کے حق میں استعمال
کیا۔ جس نے بھارت اور اس کے دوستوں کے لئے مشکل کھڑی کی۔ چین کے صدر اسی
تناظر میں گوا پہنچے۔بھارت کے روسی صدر کے ساتھ بھی پاک روس فوج کی مشترکہ
مشقوں کے بعد ہوئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو وضاحت کرنا پڑی ہے کہ اس
کے پاس کے ساتھ تعلقات اور فوجی مشقیں بھارت کی قیمت پر نہیں ہوئیں۔ بلکہ
ان کی الگ نوعیت ہے۔
روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے قریبی دوست اور اعلیٰ روسی عہدیدار سرگئی
چیموزوف کو یہ کہنا پڑا کہ پاک روس مشقیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلہ
میں تھیں۔ ان کا بھارت کی مخالفت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے یہ بھی
وضاحت کی کہ پاکستان جو فوجی ساز و سامان کی فروخت پر کوئی بات چیت نہیں ہو
رہی ہے۔ وہ روس کی 700ہائی ٹیک سولین اور فوجی فرموں کے اتحاد روسٹیک سٹیٹ
کارپوریشن کے سی ای او بھی ہیں۔ اس لئے انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ روس نے
پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں
لائی ہے۔ چیموزوف اور پیوٹن کے جی بی میں ایک ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ جرمنی
میں دونوں نے ایک ساتھ کام کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے
ساتھ روس کی فوجی مشقیں عالمی امن کے لئے تھیں۔ جبکہ وہ روس کی جانب سے ایم
آئی 35ہیلی کاپٹرز کی پاکستان کو فروخت کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان
کو جنگی ہیلی کاپٹرز نہیں دیئے گئے بلکہ یہ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹرز تھے۔ یہ
بھارت کا روس پر دباؤ ہے۔ جس کی وضاحت کی گئی۔ اسی وجہ سے کافی عرصہ بعد
روس اور بھارت کے درمیان معاہدے ہوئے ہیں۔ بھارت نے روس کو نظر انداز کرتے
ہوئے امریکہ، اسرائیل اور فرانس کے ساتھ دفاعی تعلقات قائم کئے ہوئے تھے۔
جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان خیر سگالی میں کافی کمی نظر آئی۔ مگر
برکس کانفرنس کی سائیڈ لائینز پر نریندر مودی نے پیوٹن کے ساتھ اربوں ڈالر
کے منصوبوں پر دستخط کئے۔ فوجی ساز و سامان کی مشترکہ تیاری، خلائی تحقیقات،
توانائی کی تلاش اور بھارت کے ریلوے نیٹ ورک کی بہتری کے ان معاہدوں سے یہ
پیغام دیا گیا کہ روس کو پاکستان سے دور رکھنے کے لئے بھارت کوئی بھی حد
پار سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ تامل ناڈو میں روس کے تعاون سے بھارت ایک ایٹمی
پانٹ بھی تعمیر کر رہا ہے۔ جو روس کے بھارت میں 12پلانٹس میں سے ایک ہے۔
بھارت نیوکلیئرز سپلائیرز گروپ کی رکنیت کے حوالے سے بھی چین کے صدر کو
تعاون کی درخواست کر رہا ہے۔ تا ہم چین کا موقف اصولی ہے۔ وہ پاکستان جو
کسی بھی صورت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ نیز بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ
میں مولانا مسعود اظہر کا معاملہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار چین نے ناکام
بنایا ہے۔ نریندر مودی کی اس سلسلے میں چینی صدر سے کیا بات ہوئی۔ کوئی
نہیں جانتا۔ صرف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ گوا میں ہونے والی ملاقات میں
بھارتی حکام نے چین کے میڈیا کو کوریج کی اجازت نہ دی۔ جس پر چین کے میڈیا
نے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔
پاکستان کو سفارتی میدان میں بھارت کی دشمنی یا مکاری سے ہٹ کر بھی چیلنجز
کا سامنا ہے۔ یہ معاملات صرف دفتر خارجہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے جا
سکتے۔ اس کے لئے ماضی میں خارجہ امور سے وابستہ تمام سیاسی اور دیگر عناصر
کی خدمات سے استفادہ کیا جانا چاہیئے۔ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو اس نہج
پر استوار ہونا چاہیئے جہاں ایکسپورٹس میں اضافہ ممکن بن سکے۔
بھارت نے اپنی سفارتکاری کے لئے نیا طریقہ کار اپنایا ہے۔ معلوم نہیں کہ
پاکستان کی جانب سے برکس ممالک کو گمراہ کرنے کی بھارتی کوششوں کا ردعمل کس
نوعیت کا ہو گا۔ تا ہم یہ ضروری ہے کہ جنوبی افریقہ، برازیل، روس کے ساتھ
سفارتی طور پر مسلسل روابط استوار کئے جائیں۔ روس کے ساتھ تعلقات مرحلہ وار
ہی بہتری کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ البتہ جنوبی افریقہ اور برازیل بھی دنیا کی
ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ پاکستان اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے سفارتی
طور پر تعلق پر غور کر سکتا ہے۔ ابھی تک سارک کانفرنس کے التوا اور بھارت
کے منفی کردار کے بارے میں بھی کوئی سفارتی سرگرمی نظر نہیں آئی ہے۔ ہو
سکتا ہے کہ اس سلسلے میں لوگ خواب خرگوش میں نہیں ہوں گے۔ کہیں کچھ کام ہو
رہا ہوگا۔ مگر کیا کام ہو رہا ہے، جس کے نتائج چھپے ہوئے ہیں۔
بھارت اپنے مفاد میں پاکستان کو دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔بھارتی فوج مسلسل
گولہ باری اور شیلنگ کر رہی ہے۔ بھارت جنگ بندی کی خود خلاف ورزی کرتے ہوئے
اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا رہا ہے۔ برکس اجلاس کے موقع پر بھی بھارت
نے ایسا ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حقائق سے دنیا کو آگاہ کرنا خاص طور پر
اسلام آباد میں روس، جنوبی افریقہ، برازیل کے سفارتکاروں کو ہی نہیں بلکہ
مغربی اور یورپین سفارتکاروں کو بریفنگ دے کر بھارت کے پروپگنڈہ کو زائل
کیا جا سکتا ہے۔ |