یکساں سول کوڈ اور اقلیتوں کا بلیک میل ناقابل قبول
(Syed Farooq Ahmed Syed, India)
محترم قارئین کرام:السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
وبرکاتہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔مگر وقت حالات اور حکومت ہمیں بخیر رہنے
کی اجازت نہیں دے رہا ہے کیونکہ بات ہی کچھ ایسی ہورہی ہے کہ حکومت وقت
مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے پر لگا ہوا ہے۔ پچھلے ۶۷ سالوں سے حکومتیں
بدلتی رہی ہیں مگر سب کا موقف ایک ہی رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ اور بہانے
سے مسلمانوں کو پریشان کیا جائے انہیں تکالیف دی جائے انہیں غلام بنایا
جائے۔ مگر موجودہ حکومت ان سابقہ تمام حکومتوں سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر وہ سب
کچھ کرنے کے لئے کمربستہ ہوچکی ہے جس کااندازہ ہمارے اکابرین کو بہت پہلے
ہوجانا چاہئے تھا۔مگر امت مسلمہ میں وہ طبقہ جس کے ہاتھوں میں دینی قیادت
رہی ہے اور اس نے مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کی ہے وہ محسوس کررہا ہے کہ
ہندوستان کی فضا اتنی زہریلی ہوچکی ہے کہ مسلمانو ں کی ہر چیز پر فرقہ
واریت کا لیبل لگادیا جارہا ہے گویا اسلام اور مسلمانوں کے نام سے نفرت
ہوگئی ہے انہیں پورا اندازہ ہے کہ ہندوسانی مسلمان کس نازک موڑ سے گزرہے
ہیں ان کی معمولی سی بے احتیاطی ان کے خلاف طوفان کھڑا کردیتی ہے۔ہم
سیاسی،معاشی،اقتصادی اور دیگر تمام شعبہ میں پست سے پست ہوتے جارہے ہیں۔جس
کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں ہیں۔آئے دن نت نئے
مسائل حالات اور پریشانیوں نے نیم جان کردیا ہے۔ ملک اس وقت متعدد مسائل سے
دوچار ہے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ گؤ کشی کے نام پر بھگوا دہشت گردی
شباب پر ہے،کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ ہے، اقلیتیں خوف وہراس میں مبتلا
ہیں۔عزت وقار مرتبہ سرمایہ حیات سب پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں،ہندو
جارہیت اور فسطائی طاقتوں نے فرقہ پرستی اور قوم پروری کو بھی نیا جامہ
پہنادیا ہے۔اکثریت کا ہر فرد قوم پرور اور اقلیت کا ہر فرد فرقہ پرست ہے
خواہ اس کی آواز کتنی ہی حق وصداقت پر مبنی ہو،دہشت گردی کے نام پر ہزاروں
نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈھکیل کر ان کی زندگی تباہ کردی گئی۔فسادات
درفسادات کے لا متناہی سلسلہ نے ہمیں ہر اعتبار سے کڑے امتحان وآزمائش میں
مبتلا کررکھا ہے۔ گؤ کشی کے معاملہ میں درندگی وفتنہ انگیزی عروج پر ہے اور
فرقہ پرست طاقتیں ان کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ بڑے عہدوں
ومنصب پر فائز بیٹھے وزراء انتہائی غلیظ لب ولہجہ کا استعمال کرتے ہیں۔ جو
کسی عام انسان کے لئے بھی مناسب نہیں معلوم ہوتی۔ا س فرقہ پرستی تنگ دلی
وتنگ نظری کے جنون نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سراپا زحمت بنادیا ہے۔ان
حالات میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور روز مرہ مزید خطرات کی
نشاندہی ہوتی جارہی ہے۔
ایسے میں موجودہ حکومت ،آر ایس ایس اور بی جے پی ہے جو ملک کو علی الاعلان
ہندو اسٹیٹ بنانے کی وکالت کرتے ہیں ،رام مندر کی تعمیر کے ساتھ یکساں سول
کوڈ بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل ہے ،ہندو توا نظریہ کے حامل افراد برسوں
سے یہ مطالبہ کر ہے ہیں کہ ملک میں ہر طرح کے پرسنل لاء کو ختم کرکے مشترک
قانون کو نافذ کیا جائے، مئی 2014 سے اس مطالبہ میں شدت پیدا ہوگئی اور
اپنے اس پرانے موقف کے ساتھ سامنے آنے لگے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جو شرعی
قانون نافذ ہیں ان میں سے بعض کی بنا پر عورتوں اور بچوں کے بہت سے حقوق
ضائع ہورہے ہیں ،اس لئے اسکے سدِ باب کے لئے قانونِ شریعت(مسلم پرسنل لا)
کے بجائے مشترک سول کوڈ نافذ کیا جائے۔
حال ہی میں اترا کھنڈ کی ایک مسلم خاتو ن سائرہ بانو نے سپریم کورٹ میں
پٹیشن داخل کی ہے اور پرسنل لا سے متعلق قوانین کو مسلم خواتین کے بنیادی
حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ،جس پر سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا سے
متعلق شادی اور طلاق سے جڑے معا ملات میں مر کزی حکو مت کو نوٹس جاری کیا
ہے جسکی وجہ سے ایک بار پھر فرقہ پرستوں کو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا
موقع مل گیا ،جو لوگ قانونِ طلاق پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرد اسکے ذریعہ
عورت کو پریشان کرتا ہے اور طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہی ہے وہ اپنے اس حق
کو استعمال کرکے کبھی بھی عورت سے خلاصی پا سکتاہے ،جبکہ عورت کو طلاق کا
حق نہ ہو نے کی وجہ سے خواہی نا خواہی اسکے ساتھ ہی رہنے پر مجبور ہوگی ان
کے لئے عرض ہے کہ شریعت میں صلح صفائی کے ذریعہ عورت بھی علیحد گی اختیا ر
کرسکتی ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں خلع کہاجاتاہے، اگر کوئی عورت اپنے شوہر
کو کسی وجہ سے اتنا نا پسند کرتی ہو کہ اسکے ساتھ کسی قیمت پر نبھاؤ ممکن
نہ رہا ہو تو اسکا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ وہ شوہر کو سمجھا بجھا کر
طلاق دینے پر آمادہ کردے ایسی صورت میں شوہر کو بھی چاہئے کہ جب وہ نکاح کے
رشتہ کو خوشگواری کے ساتھ نبھتا نہ دیکھے اور یہ محسوس کرے کہ اب یہ رشتہ
دونوں کے لئے نا قابلِ برداشت بوجھ کے سوا کچھ نہ رہا تو وہ شراافت کے ساتھ
اپنی بیوی کوایک طلاق دے کر چھوڑ دے تاکہ عدت گزرنے کے بعد وہ جہاں چاہے
نکاح کر سکے ،لیکن اگر شوہر اس بات پر راضی نہ ہو تو عورت کو یہ اختیار دیا
گیا ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مالی معاوضہ پیش کرکے اسے آزاد کر نے پرآمادہ کر
سکتی ہے،شریعت کی اصطلاح میں اس عمل کو خلع کہتے ہیں۔
مگر سائرہ بانو ،جاوید اختر،اور اسطرح کے مجوسی اورکمیونسٹ ذہن رکھنے والے،
دین اسلام سے بیزار لوگوں کوفرقہ پرست اوربکاؤ میڈیااسکرین پر لاتا ہے اور
پرسنل لاء کو مسلمانوں کادشمن بتاتا ہے لیکن ہم سب کو چاہئے کہ اس پر کوئی
حیرت کا مظاہرہ نہ کریں اس لئے کہ ان جیسے لوگوں سے اس سے زیادہ او رکیا
کہا جاسکتا ہے جن کی زندگی ناچنے مٹکنے تھرکنے اور رقص وسرور شباب وشراب کی
محفلیں گرم کرنے میں گزری جنہو ں نے کبھی اپنے آپ کو اسلامی شریعت کے بندھن
میں نہیں باندھا حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو جاوید اختر جیسے لوگوں کے نام
سے ان کے مسلمان ہونے کا دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ہر چیز کا اپنا ایک ماہر ہوا
کرتا ہے او ردین کے ماہر علمائے کرام اسلامی شریعت ہیں۔
کرنے والے اسلام مخالف کام بخوبی انجام دیتے آرہے ہیں مگر ہم نے بھی کوئی
کمی باقی نہیں رکھی ہے ہم میں سے مسلمانوں کا اکثر فیصد دین سے بیزارگی
محسوس کرتا ہے اور کچھ فیصدکو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ اسلامی شریعت اسلامی
قانون،عائلی قوانین،کیا ہیں اور اس کے متعلق اﷲ اور اس کے رسول کے کیا
احکامات ہیں ارشادات ہیں۔
بہر کیف ہندوستانی تاریخ میں یہ مسئلہ کئی بار گرما گرم بحث کا موضوع رہا
یہ واقعہ کوئی پہلی بار پیش نہیں آیا ہے تین طلا ق کے سلسلہ میں متعدد
درخواستیں عدالت عظمی میں داخل کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے نادانی یہ کی کہ
پھر ایک بار حکومت ہند کو جواب داخل کرنے کا نوٹس بھیج دیا ہے۔ اور ادھر
مسلم پرنسل لاء کو بھی حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہا گیا ہے مسلم پرنسل
لاء نے حلف نامہ داخل بھی کردیا ہے اور دوٹوک انداز میں واضح کردیا ہے کہ
ہمارے عائلی قوانین قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں ان میں تبدیلی کا کوئی امکان
نہیں اور ہمارا بھی یہی موقف ہے او رہونا چاہئے کہ ایک مسلمان ہر ماحول میں
اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہے اور دستور ہند میں بھی یہ سہولت
تمام مذاہب کے لئے رکھی گئی ہے حکومت ہند کو ابھی اور مہلت دی گئی ہے اپنا
جواب داخل کریں دیکھنا یہ ہے کہ ہندتوکی علمبردار یہ حکومت کیا جواب داخل
کرتی ہے ،لیکن ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ جمہوری دستور کے مطابق اسے مسلمانو ں
کا عائلی مسئلہ قرار دے لیکن ممکن ہے کہ ایک بار پھر اس کی آڑ میں یکساں
سول کوڈ کا نفاذ اس قدر آسان بھی نہیں خود ہندوؤں کے مابین مذہبی قوانین
میں ایسی تفریق ہے جو برہمن کبھی ختم نہیں کرنا چاہے گا۔برہمن منووادی ہے
’’منواسمرتی‘‘ ہوتے ہوئے وہ یکساں سول کوڈ کیسے قبول کر پائے گا جبکہ اس کی
پہچان کی ختم ہوجائے گی۔
بہر کیف ہمیں ان وقت کے فرعونوں کو منہ توڑ جواب دینا ہے تو سرکار دوجہاں ﷺ
کی سنتوں پر عمل آوری کے ساتھ ساتھ خدا کے احکامات پر بھی عمل کرنا
ہوگا۔ہمیں ایسے لوگ ایسے ملت کے نمائندے تیار کرنے ہوں گے جو موجودہ حکومت
کو ان کی زبان میں سمجھا کر اپنی بات منوا سکے،نمازوں کی پابندی کے ساتھ
ساتھ ،قوم کے سیاسی شعور کو بھی بیدا کرنا ہوگا۔ ورنہ مفکر اسلام حضرت
مولانا علی میاں رحمۃ اﷲ علیہ نے جو بات علماء سے مخاطب ہو کر کہی تھی کہ
اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصد تہجد گزار بنادیا جائے لیکن
اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہیں کیا گیا اور ملک کے اقوال ان کو واقف نہ
کرائے تو ممکن ہے کہ اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر
بھی پابندی عائد ہوجائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا کی بات پر وقت سے
پہلے عمل نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں خانہ جنگی کے بہانے
مسلمانوں کی آزادی صلب کر لی جائے گی۔
مولانا محمد ناظم صاحب نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ان نازک حالات میں امت
مسلمہ کے لئے ضروری ہے کہ وقت سے پہلے اٹھنے والے طوفان کا اندازہ کریں،
وقتی جوش وجذبہ اور ہنگامی مدوجزر کے بجائے اپنی قوت کے سرچشمے اپنی ایمانی
طاقت کے خزانے اور اپنی تاریخ کے سنہرے اوراق کا مطالعہ کریں طویل المیعاد
منصوبے کو سمجھیں آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں کتنے تحمل ،صبر،
اور قوت برداشت سے کام لے کر مسلسل عزیمت خوداعتمادی اور خدا اعتمادی کی
امتیازی شان پیدا کی تھی اور اپنے ماننے والوں کی زندگی میں شجاعت وپامردی
اور اخلاق ویقین کی قوت پیدا کی تھی او ریہ احساس دلایا تھا کہ قومیں تیغ
وخنجر اور اینوں وبرچھیوں سے نہیں مرتی بلکہ اخلاق وکردار اور یقین وایمان
کی دولت سے محروم ہو کر مرتی ہیں۔ آ ج کے فرقہ وارانہ ماحول اور نفرت
واشتعال کی ہیسٹر یائی کیفیت میں اپنے عزم وحوصلہ کے ساتھ خاموش جدوجہد اور
مسلسل حکمت عملی کے ساتھ ان افراد سے جن کے ضمیر مردہ نہیں ہوئے ہیں ان سے
رابطہ رکھا جائے۔ او راپنے اخلاق وکردار کے ذریعہ انہیں متاثر کرنے کی کوشش
کی جائے تاکہ فرقہ پرستی کے زہریلے ناگ کے اثرات کو ختم کیا جاسکے ۔ |
|