کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں سیاست
کرنا کانٹوں پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف ہے۔جب سے متحدہ قومی موومنٹ نے
سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا ووٹ بینک بنایا ہے اس وقت سے شہری سندھ میں
کسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت کے لئے یہاں تک کہ مہاجر نام پر سیاست کرنے
والے کسی بھی دوسرے گروپ یا جماعت کے لئے نہ تو کوئی سیاست کی جگہ رہی نہ
ہی کوئی دوسرا کراچی کے ووٹر کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے تاہم پاکستان
پیپلز پارٹی نے لیاری اور ملیر کے دہی علاقوں میں اپنی شناخت قائم رکھی
جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی کے ڈائی ہارٹ کارکنوں اور رہنماؤں نے کراچی کی
سیاست میں اپنے آپ کو میڈیا میں زندہ رکھا اور جب جب ایم کیو ایم نے صوبائی
اسمبلی یا بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا جماعت اسلامی نے ایم کی ایم کی
غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نمائندے الیکشن میں کھڑے کئے اور
کامیابی حاصل کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم نے آخری بار
بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا جسکے نتیجے میں جماعت اسلامی کے اس وقت
کے کراچی کے ناظم نعمت اﷲ خان نے کامیابی حاصل کر کے کراچی کے پہلے منتخب
ناظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے بعد نے ایم کیو ایم نے یہ بات سمجھ لی
کہ الیکشن کا بائیکاٹ کر کے اسے شدید نقصان ہوتا ہے لہذا بظاہر ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم نے الیکشن کے بائیکاٹ کی سیاست ترک کر دی ہے ۔ آج
کی صورت حال میں ایم کیو ایم دو واضح حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایم کیو
ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان۔ ایم کیو ایم لندن نے گزشتہ دنوں کراچی
میں اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے جس کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار اینڈ کمپنی کا
مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ کون نہیں جانتا کہ سندھ
کے شہری علاقوں کا ووٹر ایم کیوا یم کسی بھی رہنما کو نہیں بلکہ الطاف حسین
کے نام کو ووٹ ڈالتا ہے۔فاروق ستار ایم کیو ایم کے رہنما کے طو ر پر کراچی
کے پہلے کم عمر ترین میئر کا بھی اعزاز حاصل کر چکے ہیں جبکہ عام انتخابات
میں قومی اسمبلی کے کراچی کے مختلف علاقوں سے رکن بھی منتخب ہو تے رہے ہیں۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے مقبول
ترین لیڈر ہیں اور ایم کیو ایم ان ہی کے نام پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے
لیکن دوسری طرف یہ بات فاروق ستار کے بھی علم میں ہے کہ وہ اپنی ذات میں
کچھ بھی نہیں۔ ان کی جو بھی حیثیت ہے وہ الطاف حسین کے نام کے ساتھ ہے۔
باوجود اس کے ایم کیو ایم ان ہی کے نام پر رجسٹرڈ ہے ، لیکن اس ایم کیو ایم
میں ذاتی سطح پر فاروق ستار ایک بہت بڑا صفر ہیں۔ صرف فاروق ستار ہی نہیں
بلکہ ایم کیو ایم میں کسی بھی دوسرے رہنما کی نہ تو کوئی حیثیت ہے اور نہ
ہی ان کو اس وقت تک کوئی ووٹ دینے کے لئے تیار ہو گا جب تک الطاف حسین کی
طر ف سے توثیق نہ ہو جائے۔ ماضی میں یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ کسی کی ذاتی
رائے الطاف حسین کے لئے کتنی ہی مختلف اور مخالفانہ کیوں نہ ہو لیکن یہ
حقیقت ہے سندھ کے شہری علاقوں کا ووٹ ماضی میں بھی الطاف حسین کا تھا اور
شاید مستقبل قریب میں بھی ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے تاہم اس بات کا حتمی
فیصلہ تو الیکشن کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم
کے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹریشن کے دعویدار ہیں لیکن کیا یہ حقیقت
نہیں کہ اگر ایم کیو ایم کے بانی قائدمستقبل میں الیکشن لڑنے کے لئے کسی
بھی نام سے کوئی گروپ یا پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹر ڈ کروا لیں تو کیا
اسے وہی کامیابی حاصل نہیں ہو گی کہ جو ماضی میں ایم کیو ایم کے نام پر
حاصل ہوتی رہی ہے؟ ڈاکٹر فاروق ستار کو اس حقیقت کو سامنے رکھ کر ہی کوئی
فیصلہ کرنا ہوگا۔ دوسری طرف یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ایم کیوایم بانی کی نظر
میں کسی بھی بڑی سے بڑی غلطی یا جرم پر خود معافی مانگنا اور دوسروں کو
معاف کر دینا ایک معمول کی بات ہے۔ الطاف حسین نے متعدد بار سر عام میڈیا
کے سامنے عسکری اداروں سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ان کی خواتین
کے خلاف سخت ترین بلکہ شرمناک حد تک گھٹیا زبان بھی استعمال کی ہے لیکن بعد
میں انھوں نے مافی تلافی کر لی۔ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگوانے کے بعد
بھی انھوں نے مافی نامہ مقتدر حلقوں اور عالمی قوتوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔
ماضی میں ایم کیو ایم کے بڑے بڑے باغیوں کو وہ مافی تلافی کے بعددوبارہ ایم
کیو ایم میں شامل کرتے رہے ہیں جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد کی
مافی کا وہ شدت سے انتظار کر رہے ہیں تاہم ابھی اس حوالے سے کوئی ٹھوس
پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔اسی طرح ڈاکٹر فاروق ستار اینڈ کمپنی کی طرف سے بھی
معافی نامے کا الطاف حسین کو اس وقت تک انتظار رہے گا جب تک وہ اپنی غلطی
کا اعتراف کر کے معافی کے طلب گار نہ ہو جائیں۔ بس ڈاکٹر فاروق ستار اور ان
کی ٹیم کی طر ف سے لب ہلانے کی دیر ہے اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم
پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ ماضی جیسا ہو جائے گا۔ اس امکان کو کلی طور
پر تو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن
دوبارہ شیر و شکر ہو جائیں ۔عین ممکن ہے کہ یہ سب کچھ 2018کے عام انتخابات
سے پہلے ہو جائے اور الطاف حسین کو الیکشن کمیشن میں کوئی نیا گروپ رجسٹرڈ
کرانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ جہاں تک مصطفی کمال اینڈ کمپنی کا تعلق ہے تو
انھیں بھی مستقبل میں کبھی معافی مل ہی جائے گی لیکن یہ تمام باتیں الطاف
حسین کی زندگی سے مشروط ہیں۔ |