امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ:پیغمبر اسلام اور صحابۂ کرام کے بعدعابد ترین اور دنیائے تصوف ومعرفت کے آفتاب
(Ata Ur Rehman Noori, India)
اﷲ رب العزت نے آپ کی نسل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ آج تک دنیا میں سادات کا گھرانہ قائم ودائم ہے۔
|
|
حضرت سیدناامام زین العابدین رضی اﷲ عنہ کا
اسم گرامی علی بن حسین بن حیدرکرار علی المرتضیٰ ہے۔ابوبکر،ابوالحسن اور
ابومحمد کنیت اورسجاداور زین العابدین لقب ہے۔والدہ ماجدہ کا اسم گرامی بی
بی شہر بانو بنت یزد جرد بن نوشیروان عادل ہے۔سال ولادت میں اختلاف
ہے۔چنانچہ تذکرۂ مشائخ قادریہ میں ہے کہ آپ کی ولادت ہجری 33؍بمطابق
653؍عیسوی میں ہوئی اور مسالک السالکین میں ہے کہ 5؍شعبان المعظم 38؍ہجری
کو مدینۂ منورہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ
نوریہ کے چوتھے امام ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے
بعد تمام اہل زمانہ میں عابد ترین اور دنیائے تصوف ومعرفت کے آفتاب تھے۔آپ
کم سنی ہی سے فصیح البیان تھے۔واقعہ کربلا کے بعد لڑکوں میں صرف آپ
تنہاباقی رہ گئے تھے۔آپ کے آٹھ فرزند تھے۔ان آٹھ فرزندان کی نسل میں رب
العالمین نے اتنی برکت عطا فرمائی کہ آج تک دنیا میں سادات کا گھرانہ قائم
ودائم ہے۔دنیائے اسلام میں کل حسینی سادات آپ کی اولاد میں سے ہیں۔(تذکرۂ
مشائخ قادریہ،ص67)
٭تعلیم:سیدناامام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے دوسال اپنے داداحضرت علی ،پھر
دس سال اپنے چچاحضرت حسن اور اکیس سال اپنے والد حضرت حسین رضی اﷲ عنہم سے
تعلیم وتربیت حاصل کیں۔ساتھ ہی عظیم ترین صحابۂ کرام رضوان اﷲ اجمعین
مثلاً:حضرت ابن عباس،حضرت مستور،حضرت ابورافع ،حضرت سعید بن مسیب اور ازواج
مطہرات میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ،حضرت اُم سلمہ اور حضرت صفیہ
وغیرہ سے ظاہری وباطنی علوم حاصل کیے۔طبقۂ تابعین کے سب بزرگ آپ کی عظمت کے
قائل ہیں۔
٭قدرومنزلت:ابو نعیم اور سلفی نے بیان کیاہے کہ ہشام بن عبدالملک بن مروان
حج کے لیے آیا،بھیڑ کے سبب حجر اسود تک پہنچ نہ سکاتو زمزم کی ایک جانب سے
اس کے لیے منبر نصب کیاگیاجس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا،اس کے
اردگرد اہل شام کے سربرآوردہ لوگوں کی ایک جماعت بھی تھی،اسی اثناء میں
سیدناامام زین العابدین رضی اﷲ عنہ آگئے،جب آپ حجر اسود کے پاس پہنچنے لگے
تولوگ ایک طرف ہٹ گئے اورآپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔شامیوں نے ہشام سے
کہایہ کون شخص ہے؟ہشام نے اس خوف سے کہ کہیں شامی امام زین العابدین میں دل
چسپی لینا نہ شروع کردیں کہاکہ میں نہیں جانتا۔اس موقع پر مشہور شاعر فرزوق
نے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:
ترجمہ:یہ وہ شخص ہے جسے بطحا،بیت اﷲ اور حل وحرم سب جانتے ہیں۔یہ تمام
مخلوقات میں سے بہتر آدمی کا بیٹاہے اور یہ متقی،پاک،صاف اور جھنڈے کی طرح
نمایاں ہے۔جب قریش نے اسے دیکھاتوایک کہنے والے نے کہااس شخص کی خوبیوں پر
خوبیاں ختم ہوجاتی ہیں۔یہ عزت کی اس چوٹی کی طرف بڑھتاہے جس کے حصول سے عرب
وعجم عاجز ہیں۔اے ہشام! اگر تو اسے نہیں جانتاتومیں بتائے دیتاہوں کہ یہ
فاطمہ بتول کا جگرگوشہ ہے جس کے نانا پر سلسلۂ انبیاء ختم ہواہے۔تیرایہ قول
اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتاجس کے پہچاننے سے تونے انکارکیاہے۔اسے عرب
وعجم پہنچانتے ہیں۔یہ اس گروہ کافردہے جن سے محبت کرنادین اوران سے بغض
رکھناکفرہے اوران کا قرب نجات اور حفاظت کاذریعہ ہے۔ان کی سخاوت کی انتہاتک
کوئی سخی نہیں پہنچ سکتااور کوئی قوم خواہ کس قدر کریم ہوان کا لگّا بھی
نہیں کھاسکتی۔‘‘یہ ایک مشہور قصیدہ ہے جس میں سے چند اشعار یہ تھے۔
٭عفوودرگزر:سیدناامام زین العابدین رضی اﷲ عنہ غریبوں،مسکینوں،یتیموں اور
محتاجوں کی دست گیری فرماتے،مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے بے دریغ سرمایہ
خرچ کرتے اور راہ اسلام میں بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے پیچھے نہیں
ہٹتے۔آپ بڑے درگزر کرنے والے اور صاحب عفو تھے۔یہاں تک ایک آدمی نے آپ کو
برابھلاکہا،آپ نے تغافل سے کام لیا۔اس نے کہامیں آپ کو گالیاں دے رہاہوں۔آپ
نے فرمایا:میں تم سے اعراض کررہاہوں اور اس آیت کی طرف اشارہ
فرمایا۔ترجمہ:معاف کرنا اختیارکرواور بھلائی کا حکم دواورجاہلوں سے منہ
پھیرلو۔‘‘(سورۂ اعراف،پارہ 9، آیت 199)آپ فرمایاکرتے تھے کہ مجھے ذلت سے
سرخ اونٹوں کے حصول جیسی خوشی ہوتی ہے۔(الصواعق المحرقہ،ص463)اﷲ والوں کی
یہ سیرت ہے کہ برائی کا بدلہ کچھ ایسے طریقے سے دیتے ہیں کہ خطاکارنادم
ہوکراپنی خطاسے کنارہ کش ہوجاتاہے اور نیکی اختیار کرلیتاہے۔
٭صبرورضاکے پیکر:سیدناامام زین العابدین رضی اﷲ عنہ انتہائی منکسرالمزاج
اور صبرورضاکے پیکر تھے۔واقعۂ کربلاکے بعد آپ کو زنجیروں میں جکڑدیاگیاتھا
مگر آپ نے شکوہ وشکایت کرنے کی بجائے ہر قدم پر اﷲ پاک کا شکرادا کیا۔آپ
ہردن رات میں ایک ہزارنفل نمازادافرماتے تھے۔روض الریاحین میں ہے کہ ایک
مرتبہ آپ اپنے مکان میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مکان میں آگ لگ گئی۔مگر آپ
انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادافرماتے رہے،نماز کے اختتام پر لوگوں نے
دریافت کیاکہ حضور ہم آگ بجھانے میں مصروف تھے مگر آپ نے آگ کی پرواہ تک نہ
فرمائی۔آپ نے فرمایا:’’آپ لوگ یہ آگ بجھارہے تھے اور میں آخرت کی آگ بجھانے
میں مشغول تھا۔‘‘(سچی حکایات،حصہ دوم،ص336)امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ
جنتی نوجوانوں کے سردار کے صاحبزادے ہونے کے باوجود اس قدر عبادت گزار تھے
اور ہم لوگ پنج گانہ نماز بھی باقاعدہ ادانہ کریں ،گناہوں سے نہ بچیں
اورجہنم کی آگ سے بچنے کی کوشش نہ کریں تو یہ ہماری کس قدر غفلت ہے؟
٭وفات:کہتے ہیں کہ ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہردے دیاتھا۔علامہ عبدالوہاب
نے آپ کی تاریخ وفات99؍ہجری بمطابق 717عیسوی تحریر کی ہے۔شہزادہ داشکوہ
قادری نے 95؍ہجری بمطابق 713ء لکھی ہے۔مزارپُرانوار جنت البقیع میں
سیدناامام حسن رضی اﷲ عنہ کے پہلو میں ہے۔آپ سے صحاح ستہ میں حدیث مروی
ہے۔(تذکرۂ مشائخ قادریہ،ص؍67)
٭٭٭ |
|