کیا حکومت اور فوج میں پھڈا ناممکن ہے؟

امیرالمؤمنین سیدنا حضرت علیؓ اور ام المؤمین سیدہ ِکائنات اماں عائشہ کے اختلاف کے بارے میں اہلِ ایمان کی ایک بڑی اکثر یت تزبزب کا شکار ہے ۔ علماء نے اپنے اپنے علم اور مسلک کے مطابق اس نازک مسئلہ پر رائے قائم کی ہے ۔ مولانا مودودیؒ کی رائے کے مطابق،دونوں ہی اپنے اپنے اجتہاد کی بنا پر حق بجانب تھے۔یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ تمام صحابہ ؓ کا اجتہاد امر خیر ہے، اگر اجتہاد منشاء ومراد کو پہنچے تو ؛ دو اجر اور برخلاف ہو تو ایک۔اس واقعہ کی اصل وجہ حضرت عثمانؓ کے خون کا قصاص تھا۔ حضرت علی ؓ کی رائے تھی کہ پہلے بیعت ِخلافت ہو پھر قصاصِ عثمان اور دوسری طرف یہ رائے تھی کہ پہلے قصاص ہو پھر بیعت، نہ کوئی قاتلین عثمان کو پچانا چاہتا تھا اور نہ کوئی حضرت علیؓ کی بیعت سے انکاری تھا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نوبت جنگ تک کیسے پہنچی؟آغازِ اسلام میں ہی اتنے بڑے حادثے کی وجہ روافض و خوارج کا اطراف میں اپنے بھرپور ایجنڈے کے ساتھ موجود ہونا تھا۔جس کا آغاز من گھڑت خطوط اور جھوٹی افواہوں سے ہوا ،اور انجام ایک ، خون ریز جنگ ۔۔۔جس میں دونوں ا طراف سے مسلمانوں کا خون بہا اوربڑی تعداد میں صحابہ کرام کی پاک جماعت کے ہاتھ اپنوں کے خون سے رنگین ہوئے۔ثابت یہ ہوا کہ لڑنے والے دونوں حق پر تھے ،اورباطل کے پجاری لڑانے کے لیے دونوں اطراف موجود تھے۔یہ تمہید باندھنے کا مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہے کہ، فوج اور حکومت کے درمیان پھڈا نہیں ہوسکتا۔ارے بھائی! دشمن بڑا چالاک ہے ، اس کے پاس یکے بعد دیگرے ان گنت پلان موجود ہیں۔ ایک بڑی کوشش کامیابی کے سرہانے پہنچ کر دم توڑ گئی؛ نئے منصوبوں پر کام شروع ہوچکا؛ آغاز ہوا ہے، اسی پرانی طرز سے یعنی من گھڑت خبراور کہانی سے: اﷲ کریم بچائے وطن عزیز کو چارہ گروں کی چال سے۔ ابھی تو اسے ضمانت پر رہاہی نصیب ہوئی ہے وہ بھی عبوری؛کنفرم ہونا ابھی باقی ہے ؛ پھر ـــ’’جیسے تھے‘‘ کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔چارہ گروں نے وطن عزیز کو اپنے تئیں2015کے عالمی نقشے سے منہا کر رکھا تھا؛مگر شہداء کی قربانیوں اور بزرگوں کی عرضیوں کی بدولت اﷲ کریم کی رحمت جوش میں آئی ہماری بے حسی،نافرمانی اور کمینگی کے باوجود،دشمن کے بوتھے پر طمانچہ رسید ہوا، منہ میں خاک پڑی، ملک دہشت گردی کے عذاب سے چھٹکارے کے قریب پہنچ چکا ،ملکی سلامتی اور وطن عزیز سے اسلامی اقدار کے خاتمے کے داعی ، اسلام کا لبادہ اوڑھے ؛دشمن کے گماشتے؛ اپنے ناپاک ارادوں سمیت پاک فوج کے ہاتھوں ملیہ میٹ ہوچکے۔لیکن دشمن جانتا ہے اگر’’ سی پیک منصوبہ ‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تو، چھونا درکنار،اس کی طرف نگاہِ بد بھی ممکن نہیں ہوگی۔اسی لیے ’’ملزم نہیں بلکہ مجرم‘‘ بھی چھوڑے جا رہے ہیں۔ حکومت اور فوج کی مثال دل و دماغ کی ہے۔ اگر کسی انسان کے دل و دماغ کی ہم آہنگی جاتی رہے۔ تو نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ حکومتی اور اپوزیشن نمائندگان کیا؛ وطن عزیز کا ہر شہری جانتا ہے، مگر پھر بھی ایک طبقہ ایسی زہر آلود خبروں پر شادیانے بجا رہا ہے۔سب جانتے ہیں وہ قت ؛ جب اعلیٰ ترین منصب کی طرف سے پاک فوج پر سنگ باری ہو رہی تھی،کوئی خبر کہانی نہیں بنی اور نہ کسی خبر کے فیڈ کرنے کی بات ہوئی ،نہ کسی شہر کو بند کرنے کی بات ہوئی اور نہ کوئی دھرنا ؛اس لیے کہ سمت چارہ گروں کی متعین کردہ منزل کی طرف تھی۔کہیں ایسا تو نہیں؛ کہ نیا پاکستان بنانے کے لیے نیا مکان بنانے کا فارمولاطے ہو رہا ہے۔بے چارے انصافیوں کی اکثریت کو تو شاہد اس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کہ، جن کی ناکامیوں سے ’’بند ٹوٹا‘‘ اور اور ریلا تبدیلی کے بیس سالہ’ جوہڑ کوندی بنا گیا‘۔ ان ہی کو ہم رکابی کی دعوت دی جاتی رہی کہ آئیں کنٹینر پر ہمارے ساتھ برا جماں ہوجائیں۔ تاکہ تبدیلی کی یہ نام نہاد ندی طوفان بن جائے۔ ۔پھر اگر کہیں سے آواز آئے’’ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے، حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے ‘‘ تو غصہ نہیں آنا چاہیے۔ بات ہو جائے ؛ خبر یا کہانی کی، کہاں سے آئی ، کسی وزیر یا مشیر کے ذریعے باہر آئی یا کسی پاشا؛ یا لطیف کے ذریعے کہیں سے بھی لیک ہوئی یا فیڈ ہوئی، مقدس گائے کا تصور اب ختم ہونا چاہیے اور تحقیقات سب سے ہونی چاہیے۔کیوں کہ دونوں طرف سنگ باری کرنے کے لیے اپنے بندے بٹھا دیے گئے ہیں۔ اگر صحابہؓ کی پاک جماعت شیطانی چالوں کو نہیں بھانپ سکی تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔ہمارے دور کا طاغوت اُس دور کے شیطان سے کمزور نہیں ہے۔رہی بات المیڈا کی تو اس سے یہ ضرور پوچھا جائے کہ خبر اگر صحیح بھی تھی تو اس کو کہانی بنانے میں کہاں کہاں سے صلاح اور مدد ملی۔۔۔راز داری کا قانون شاہد ابھی تک 1923کا ہی ہے یعنی المیڈا کے فور فادرز کا بنایا ہوا ہے، اسی لیے اس پر لاگو نہیں ہوسکتا۔ حب الوطنی کا تقاضہ ہے کہ انا کو بالائے طاق رکھ کر وطن کی سلامتی کی فکر کی جائے؛ دونوں اطراف اپنی اپنی صفوں کی نگرانی سخت کر دیں تاکہ افواہیں پھیلانے والے ،خبریں اور کہانیاں گڑھنے والے بھی اپنی تما م چالوں سمیت قصہ ماضی ہو جائیں۔جب ناؤ بھنور میں ہو تو خون کے پیاسے بھی ایک ہوجاتے ہیں۔یہاں عجب دستور ہے۔ جب وطن پر چاروں ا طراف سے یلغار شروع ہوتی ہے تو اپنوں کی بغلوں سے بھی خنجر نکل آتے ہیں۔

ضمانت پر رہائی،پاشا و لطیف اور مقدس گائے جیسی کچھ مثالیں تفصیل طلب ہیں۔ آئندہ کالم میں ملاحظہ
S Zaman Gujjar
About the Author: S Zaman Gujjar Read More Articles by S Zaman Gujjar: 6 Articles with 5370 views I AM FROM DISTRICT MANSEHRA OF KPK. WAS PUBLISHING MY OWN WEEKLY NEWS PALER (SIRN NEWS) FROM KARACHI WHICH IS STILL BEING PUBLISHED BY MY FRIEND. I A.. View More