تحریک انتفاضہ کشمیر:100 دن بعد بھی بھارتی درندگی رک نہ سکی
(عابد محمود عزام, Lahore)
بھارت برسوں سے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم
کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ ہزاروں کشمیری عوام حق خود اردایت کے حصول کے لیے اپنی
جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ عالمی ادارہ کمیشن برائے انسانی حقوق(آئی ایچ
آر سی) آزاد کشمیر کی رپورٹ کے مطابق 1989ء سے 30 ستمبر 2016ء تک 27 سال کے
دوران بھارتی افواج نے94,548 کشمیریوں کو شہید اور ایک لاکھ 37 ہزار 469
کوگرفتارکیا۔ 22 ہزار 826 خواتین کو بیوہ کیا گیا۔ یتیم بنائے گئے کشمیری
بچوں کی تعداد 1لاکھ، 7ہزار،591 ہے، جبکہ بھارتی افواج نے 10ہزار 717
کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا، جو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی
اور اقوام متحدہ سمیت مسلمان ملکوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ایک لاکھ 37ہزار
4سو 69 افراد کو گرفتار کر کے بھارت کی مختلف بدنام زمانہ جیلوں میں اذیت
کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استعمار سے آزادی کی
حالیہ تحریک انتفاضہ کو 100 دن مکمل ہو گئے، وادی بھر میں مظلوم اور نہتے
عوام پر بھارتی فوج کے مظالم اور کرفیو کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 8 جولائی
کو حزب کمانڈر برہان وانی کے شہید ہونے کے اگلے روز 9 جولائی سے وادی میں
پھیلی احتجاجی لہر کے 100 دن اتوار کو مکمل ہوئے۔ 100دنوں کی قتل و غارت،
مار دھاڑ، افراتفری، اعلانیہ غیر اعلانیہ کرفیوکے دوران کشمیر میں 100سے
زاید افراد شہید، تقریبا پندرہ ہزار افراد زخمی، 399 آنکھوں کی بینائی سے
محروم ، 6900 کے قریب نوجوان اور سیاسی کارکن گرفتار، 375 پبلک سیفٹی ایکٹ
لاگو کرنے کے بعد جیلوں کو منتقل، 640 سیاسی کارکن اور نوجوانوں پر سیفٹی
ایکٹ لاگو کرنے کے لیے فائلیں ڈپٹی کمشنروں کی میزوں پر، 670 بجلی
ٹرانسفارمر ناکارہ بنا دیے گئے۔ 15ہزار رہائشی مکانوں کی توڑ پھوڑ، 270
چھوٹی گاڑیاں، 25 بڑی گاڑیاں و ٹریکٹر تباہ، 30 موٹر سائیکل، 25 اسکوٹر، 6
ہائی اسکول، 7 مڈل و پرائمری اسکولوں، 4 پنچایت گھر نذر آتش کر دیے گئے۔ 7
جولائی سے لے کر 15 اکتوبر تک کے 99 دنوں میں وادی کے طول و ارض میں قتل و
غارت گری، آگ و آہن، مار دھاڑ، افراتفری، اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کرفیو
نافذ کرنے کے دوران وادی کے طول و ارض میں نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہوئیں،
بلکہ 14ہزار کروڑ روپے کے خسارے کا تاجروں کو سامنا کرنا پڑا، ٹرانسپوٹروں
اور سیاحتی شعبے کو اس مدت میں 30 ہزار کروڑ کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔
تحریک انتفاضہ کے 100دن مکمل ہونے کے باوجود صورتحال کو بہتر بنانے ، امن
کی فضاء کو قائم کرنے ، اعتماد سازی بحال کرنے کے لیے ابھی تک مرکزی حکومت
کی جانب سے کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں مل پا رہا ہے۔ نامساعد حالات کے
دوران 3 بار وزیر داخلہ ریاست کے دورے پر آئے۔ 100دن گزرنے کے باوجود امن
قائم کرنے، حالات کو سازگار بنانے، زندگی کو پٹری پر لانے کے لیے مرکزی
حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں مل پا رہا ہے، جس سے اس بات کی
عکاسی ہو تی ہے کہ مرکزی حکومت وادی کشمیر کے لوگوں کو تھکانے کے منصوبے پر
عمل کر رہی ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک درجن سے
زیادہ تنظیموں کے اتحاد سی سی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی سیکورٹی
فورسز نو ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کر چکی ہیں۔ کشمیر میں لاگو خصوصی
قوانین کے تحت گرفتار ہونے والوں کی اکثریت کو مختلف جیلوں میں بھیج دیا
گیا ہے۔ سی سی ایس کی تحقیق کے مطابق پندرہ ہزار زخمی افراد میں سے چار
ہزار افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ایسے ہیں جن کے چہرے پر چھروں کے
زخمی آئے ہیں۔ کشمیر میں نہتے عوام پر چھروں والے کارتوسوں کو چلانے پر
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا کی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں شدید تشویش
کا اظہار کر چکی ہیں۔ بھارتی حکومت نے یاسین ملک اور میر واعظ جیسے حریت
کانفرنس کے سرکاردہ رہنماؤں سمیت حریت کے ایک ہزار سے زیادہ رہنماؤں اور
کارکنوں کو گرفتار کیا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ ستاسی برس کے سید علی گیلانی
اور شبیر احمد شاہ اپنے گھروں پر نظر بند ہیں۔ سی ایس ایس کے سرکردہ رہنما
خرم پرویز بھی گزشتہ ایک ماہ سے جموں کی کوٹ بلوال جیل میں قید ہیں۔ ترجمان
کل جماعتی حریت کانفرنس کا کہنا تھا کہ برہان وانی کی شہادت نے دنیا کو
مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا۔ دختران ملت نے انسانی حقوق
کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس اور ہیومن
رائٹس واچ کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں رائج کالے قانون پبلک سیفٹی
ایکٹ پر شدید تشویش کے اظہار کا خیرمقدم کیا۔کشمیری عوام نے حالیہ تحریک سے
ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر صورت میں بھارت کے مظالم سے نجات
حاصل کر کے رہیں گے۔ بھارت کی درندگی کشمیری عوام کو آزادی کے لیے آواز
بلند کرنے سے نہیں روک سکتی۔ 8جولائی 2016ء کے بعد کشمیر ی نوجوانوں نے
گزشتہ تین دہائیوں کے کم عرصے میں تیسرے بڑے انتفادہ کی شروعات کرکے عوامی
تحریکات کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا
جائے تو دنیا کی ہسٹری میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے جس میں
مسلسل تین ماہ تک عوام نے مجموعی طور پر ظلم و جبر اور بنیادی حقوق کی
پامالیوں کے خلاف اپنے روز مرہ کے کام کاج کو خیر باد کہتے ہوئے سڑکوں پر
نکل کر صدائے احتجاج بلند کیا ہو۔ یہ تین ہی ماہ نہیں ہیں، بلکہ چوتھے
مہینے کا نصف ہونے کو ہے اور کہیں پر بھی تھکاوٹ کا دور دور تک کوئی نشان
نظر نہیں آ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے گورنر این این ووہرا کے نام حر یت
قیادت نے اپنے مکتوب میں کہا آپ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ کشمیر ایک
سیاسی مسئلہ ہے اور اس کو ایک سیاسی حل کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ مسئلہ حل
نہیں ہورہا، اسی لیے پورے خطے میں خوف، بے چینی اور عدم استحکام جیسی
صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ بھارت اقوام متحدہ لے کر گیا، جہاں
کئی قرار دادیں پاس ہوئیں، جن پر اب تک عمل نہیں ہوا ہے۔
بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر مظالم کے انہترسال کے بعد تک اس مسئلے
کے حل کے سلسلے کی کوششیں جاری ہیں، جس کے لیے کئی فارمولے اور معاہدے ہو
چکے ہیں، لیکن بھارت کبھی اس معاملے کے حل میں مخلص نہیں رہا، بلکہ جب بھی
اس مسئلے کے بارے میں مذاکرات شروع ہوئے، وہ کوئی نہ کوئی نیا محاذ کھڑا کر
دیتا ہے، جس سے کشمیر کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اور پیشرفت رک جاتی
ہے۔ سات لاکھ بھارتی فوج وحشیانہ کاروائیوں کی مدد سے کشمیریوں کی آواز
دبانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جبکہ بھارتی میڈیا منفی پراپیگنڈہ پر عمل
پیرا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر بھارتی مظالم پر عالمی امن کے
ٹھیکے داروں کی پراسرار خاموشی بھی معنیٰ خیز ہے۔ پاکستان کو شدید ضرورت ہے
کہ وہ میڈیا کے ذریعے اصل صورتحال اور سنگینی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرے
تاکہ بھارتی میڈیا کا مقابلہ کر کے کشمیری عوام سے موقف کی صحیح ترجمانی
ہو۔
کشمیر میں بھارتی مظالم نے دنیا بھر میں بھارت کا بھیانک ومکروہ چہرہ بے
نقاب کردیا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی سفاکیت نے یہ ثابت کردیا کہ بھارت ایک
دہشتگرد ملک ہے، لیکن بھارت اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے دنیا بھر میں
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے، لیکن ہر بار بھارت کو منہ کی کھانا
پڑتی ہے۔ برکس ممالک کے سربراہ اجلاس کے موقع پر بھی بھارت نے پاکستان کو
دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی ، جس میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کا نام لیے بغیر ایک مرتبہ پھر
اسے دہشت گردی کا محور قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کا ہمسایہ دہشت گردوں
کی ذہنیت کو فروغ دے رہا ہے۔ ہمیں ایسے ممالک کو ہر صورت میں روکنا ہو
گا۔جنوبی افریقہ، بھارت، برازیل، چین اور روس کے مشترکہ اجلاس میں جاری کیے
گئے اعلامیہ میں بھارت کی کوشش تھی کہ اڑی حملے اور پاکستان کی مذمت کی
جائے، لیکن چین اور روس کی مخالفت کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندرمودی
مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا نام شامل کرانے میں ناکام ہوگئے۔ رکن ممالک
نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نظریاتی، مذہبی، سیاسی،
نسلی یا لسانی بنیاد سمیت ہر صورت میں دہشت گردی کی مخالفت پر قائم ہیں۔
دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والاخود اس میں گرتا ہے اور بھارت کے ساتھ بھی
کچھ ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کے جتن کرنے والا
بھارت خود تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ برکس اجلاس میں چین اور روس نے
پاکستان کے خلاف بھارتی موقف کو مسترد کردیا، جس سے بھارت پریشانی میں
مبتلا ہے۔بھارت کی طرف سے پاکستان کو ’دہشت گردی کا گڑھ‘ قرار دیے جانے کے
بعد چین نے پاکستان کا دفاع کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چون
اینگ سے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے پاکستان سے متعلق بیان
کے بارے میں پوچھا گیا تو اْن کا کہنا تھا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان
اور بھارت دہشت گردی کا شکار ہیں، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
بہت کوششیں کی ہیں اور قربانیاں دی ہیں۔ میرے خیال میں بین الاقوامی برادری
کو پاکستان کا احترام کرنا چاہیے۔ چین اور پاکستان قریبی اتحادی ہیں اور
بھارت کے وزیراعظم کی طرف سے بیان کے بعد بیجنگ نے جس طرح اسلام آباد کا
دفاع کیا ہے اْسے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔چین کی جانب سے کھلے الفاظ میں یہ
بھی کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت نیو کلیئر سپلائیرز گروپ کی رکنیت کا خواب
دیکھناچھوڑ دے۔بھارت ایک مدت سے اقوام متحدہ کے نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی
رکنیت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے تاکہ وہ اپنی ایٹمی قوت میں مزید
اضافہ کرسکے، لیکن چین نے بھارت کا خواب چکنا چور کردیا، جبکہ ٹائمز آف
انڈیا کی رپورٹ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ برکس اجلاس
میں روس نے پاکستان کے خلاف بھارتی موقف مسترد کردیا، جس پر مودی سرکار
کافی پریشان ہے۔ روس کی پاکستان کے حوالے سے خاموشی نے مودی سرکار کی
نیندیں اڑا دیں اور چین کی بجائے روس نے بھارت کو سب سے زیادہ مایوس کیا
ہے۔ برکس اجلاس میں بھارت روس سے پاکستان کے خلاف بیان بازی کروانا چاہتا
تھا، لیکن مودی سرکار کے عزائم کامیاب نہ ہوسکے جب کہ برکس اجلاس کے
اعلامیہ میں بھی روس نے بھارتی موقف کی تائید نہ کی۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز
نے مودی کے اس بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ’’برکس
اور بمسٹک‘‘ کے ساتھیوں کو گمراہ کر رہے ہیں، بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر
میں اپنے ظلم وبربریت کو چھپانے کی مایوسانہ کوشش کر رہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ
کشمیر ہے۔پاکستان نے کئی بار مذاکرات کے ذریعے دیرینہ مسائل کے حل کی پیشکش
کی، تاہم بھارت کی جانب سے اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں
اب تحریک نوجوانوں کے ہاتھ میں آ چکی ہے، لوگ خود اپنے اوپر ظلم کا بدلہ لے
رہے ہیں۔ خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، پاکستان بھارت
کو بارہا مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے، اب جب بھارت خطے میں کشیدگی کو ہوا دے
رہا اور پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ پاکستان نے
جب بھی بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی تو اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر
راہِ فرار اختیار کی۔ بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ
کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے
جدید ترین ہتھیاروں کے انبار لگا رہا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ عالمی قوتیں
بھی بھارت کے اس جنگی جنون میں اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ایک جانب بھارت نے
اسلحے کی دوڑ شروع کر رکھی ہے جس کے منفی اثرات پورے خطے کی معیشت اور
استحکام پر مرتب ہو رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے
وہ آئے دن سرحدوں پر گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ 2016
میں اب تک بھارت 90 سے زاید مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کرچکاہے۔پاکستانی
حکومت کو اس معاملے کو سنیجدگی سے لیتے ہوئے دنیا بھر کے سامنے بھارتی
دہشتگردی کو آشکار کرنا چاہیے، تاکہ عالمی برادری پر یہ حقیقت کھلے کہ سیز
فائر کی خلاف ورزی اور کشمیر میں دہشتگردی بھارتی کرتا ہے، کشمیر میں نہتے
عوام پر مظالم کی حالیہ دردناک داستان اس کا واضح ثبوت ہے۔ |
|