گورنر سندھ کو فارغ کروانا مصطفی کمال کا مینڈیٹ؟

دنیا بھر میں خفیہ ادارے اور ملکوں کی اسٹبلشمنٹ کے افراد کا یہ طریقہ واردات ہوتا ہے کہ جب تک کوئی بھی ان کا ایجنٹ کام کے قابل ہو تا ہے تو اس سے کام لیا جاتا ارہتا ہے لیکن جب خفیہ اداروں یا اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کرنے والے شخص کا کام بلکہ اسکرپٹ ختم ہو جاتا ہے تو پھر یہ ایجنسیاں یا ادارے یا تو اس شخص کو اس عارضی دنیا سے ابدی دنیا میں بھیج دیتے ہیں یا پھر اس شخص کی ذہنی اور معاشرتی سطح پر ایسی صورت حال سے دوچار کر دیتے ہیں کہ وہ کسی قابل نہیں رہتا۔ اگر وہ دنیا کو کچھ بتانا بھی چاہے اور کچھ رازوں پر سے پردہ اٹھانا بھی چاہے تو کوئی اس کی باتوں کا یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور دنیا اسے جھوٹا اور پاگل کہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان خفیہ اداروں اور اسٹبلشمنٹ کو دنیا اور دیگر ممالک کے سامنے اپنی ساکھ کو بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔کون نہیں جانتا کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کس کی مرضی سے گزشتہ چودہ برس سے سندھ کی گورنری کے منصب پر فائز ہیں۔ ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ان چودہ برسوں میں متعدد بار ایسا بھی وقت آیا ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد نے اپنے اس منصب سے جان چھڑا کر دبئی بھاگنے کی کوشش کی لیکن انھیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا اور ان کو ضرورت اور دھونس دھمکیوں کی زنجیروں میں جکڑ کر زبردستی سندھ کی گورنری سے باندھ کے رکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے بہت سے سیاسی مفادات اور اہداف تھے۔ لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کہانی میں ٹوسٹ آ چکا ہے اور اب ڈاکٹر عشرت العباد کا اسکرپٹ ختم ہو چکاہے لہذا ان کا کام بھی ختم ہو گیا ہے۔دو روز قبل گورنر سندھ نے مصطفی کمال کے بارے میں جو لب لہجہ اختیار کیا وہ ان کی مرضی اور منشا کا لب و لہجہ نہیں تھا بلکہ کسی نے انھیں ایسے کرنے اور کہنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر عشرت العباد یہ بھی کہہ گئے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے آدمی ہیں۔ اگر ان کے الفاظ کو کوٹ ان کوٹ کیا جائے تو انھوں نے کہا کہ وہ اسٹبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ یہ وہ بات ہے کہ ماضی میں ان کے بارے میں مختلف لو گ اور سیاسی تجزیہ کار کہتے رہے لیکن انھوں اس کی نہ تو کبھی تصدیق کی اور نہ ہی انھوں نے اس کی کبھی تردید کی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی شخصیت کو بد ترین انداز سے مسخ کر کے انھیں سندھ کی گورنری سے فارغ کروانے کا ٹھیکہ (مینڈیٹ) مصطفی کمال کو دیا گیا ہے۔ مصطفی کمال نے کمال مہارت سے یہ کام شروع کردیا ہے اور وہ گزشتہ چودہ برس میں ہونے والی ہر برائی کا ذمہ دار ڈاکٹر عشرت العباد کو قرار دے رہے ہیں۔ڈاکٹر عشرت العباد کو رشوت العباد کہا جا رہا ہے ۔ جمعرات کو پریس کانفرنس میں مصطفی کمال نے ایک مرتبہ پھر الزامات وہی الزامات دھرائے ہیں کہ جو انھوں نے ان پر د و تین روز قبل لگائے تھے۔ مصطفی کما ل نے مطالبہ کیا ہے کہ گورنر سندھ کو ان کے عہدے سے ہٹا کران کے خلاف تحقیقات کی جائے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ مصطفی کمال نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈاکٹر عشرت العباد پاکستان کے کرپٹ ترین شخص ہیں اور ان کی دنیا بھر میں جائیدادیں موجود ہیں جو انھوں نے اپنے رشتہ داروں، اپنے اسٹاف اور دوستوں کے نام کر رکھی ہیں۔ مصطفی کمال سندھ میں ساری برائیوں کا محور عشرت العباد کو ثابت کر رہے ہیں اور شاید وہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے تو سندھ میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ساری کرپشن ختم ہو جائے گی ۔ انھیں سندھ کابینہ کے وزیروں ، مشیروں کی مالی اور اخلاقی بد عنوانیاں بالکل نظر نہیں آ رہیں کیونکہ ان کو کسی نے چند روز قبل ہی صر ف یہی ٹاسک دیا ہے کہ بس زیادہ سے زیادہ گورنر سندھ کو گندہ کروتاکہ ڈاکٹر عشرت العباد کو بے آبرو کر کے گورنر ہاؤس سے نکالا جا سکے اور وہ یہ کہیں بقول غالب ’’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ ۔ مصطفی کمال چار روز پہلے تک کہاں تھے اور یہ ساری باتیں انھوں نے اپنی مارچ 2016 میں کراچی آمد کے وقت ہی سے کیوں نہیں شروع کر دیں تھیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ آخر میں بس دوباتیں۔ گزشتہ چودہ برسوں میں ڈاکٹر عشرت العباد کو خود بھی بار بار یہ سوچنا چاہیے تھا کہ وہ برسہا برس سے گورنر ہاؤس میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں۔ کب تک وہ ذاتی مفاد اور کسی دباؤ اور اشارے پر گورنر سندھ بنے بیٹھے رہیں گے اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ وہ ان کے گورنر رہنے سے مہاجر عوام یا کراچی و حیدرآباد والوں کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ انھیں بہت پہلے یہ عہدہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ دوسری طرف مصطفی کمال کو بھی یہ سوچ لینا چاہیے کہ آج وہ کسی کے اشارے پر ڈاکٹر عشرت العباد کے خلاف مہم جوئی کرر ہے ہیں لیکن کل یہی کام کوئی دوسرا ان ہی قوتوں کے اشارے پر کررہا ہو گا وہ جو آج آپ کو اشارے دے رہی ہیں۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 68429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.