سرجیکل اسٹرائیک :خود اپنے داغ دکھانے کو روشنی کی ہے

سرجیکل اسٹرائیک کا خمار وقت کے ساتھ چڑھتا جارہا ہے ۔گاہے بہ گاہے اس کا ذکر براہ راست یا بالواسطہ کردیا جاتا ہے لیکن کشمیر کی بات کوئی نہیں کرتا حالانکہ وہاں پر برہان وانی کے انکاونٹر سے شروع ہونے والی کشیدگی کو۱۰۰ دن سے زیادہ بیت چکے ہیں اور حکومت اس محاذ پر چاروں شانے چت ہوچکی ہے ۔کشمیر کے حالیہ بحران میں ابھی تک ۹۰ سے زیادہ مظاہرین ہلاک کئے جاچکے ہیں ،۱۳۰۰۰ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں جن میں ۱۰۰۰نوجوانوں کی بینائی جزوی یا کلی طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ۷۰۰۰ سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور تجارتی خسارہ تقریباًدس ہزار کروڈ کا ہے۔ اخبارات، موبائیل فون وغیرہ پر آئے دن پابندیاں لگتی رہتی ہیں اور عوام کی روزمرہ کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعہ دشمن کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کے مقابلے خود اپنی عوام کا یہ خسارہ کہیں زیادہ ہے لیکن سارہ قوم کو پہلے تواڑی کی فوجی چھاونی پر ہونے والے حملے کا رونا روتی رہی اور اب سرجیکل اسٹرائیک پر بغلیں بجارہی ہےحالانکہ اس گورکھ دھندے کےالجھاو تو بس امر پریم نامی فلم کے عجیب و غریب نغمہ جیسا ہے؎
یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟
جب ہوا، تب ہوا، چھوڑو یہ نہ سوچو۰۰۰۰یہ ۰۰۰کیا ہوا!

ملک کی عوام اب یہ بھی سوچ رہی ہے کہ آخر سرجیکل اسٹرائیک کا یہ معمہ اس قدر پیچیدہ کیوں ہے کہ اس پرہر روز نت نئے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں ؟ اس راز کوفاش کرنے کا کام وزیردفاع منوہر پاریکر کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ حملہ آرایس ایس کے اندر ان کی اور وزیراعظم کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ آرایس ایس نے تحریک آزادی میں حصہ نہیں لیا لیکن سب سے بڑی دیش بھکت بن گئی ۔ یہ جعلی دیش بھکت سرحدوں کے بجائے بستیوں میں دھونس جماکراپنی بہادری کے ڈنکے بجاتے ہیں۔ اس لئے جب انہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کا شور مچاکر اپنی سیاسی دوکان چمکانےکی کوشش کی تو عوام کے ذہنوں میں شک پیدا ہوگیا۔وزیر اعلی اروند کیجریوال کے ویڈیو فوٹیج جاری کرنے کے مطالبہ کو بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے بدبختی قراردےدیا حالانکہ پاکستان کے انکار کی تردید کا یہ سب سے مؤثر طریقہ ہے۔پرساد نے کیجریوالپر فوج کے حوصلے کو پست کرنے اوراس کی قابلیت پر شک کر نےکا الزام لگایا اور مودی بھکتوں نے چراغ پا ہو کر کیجریوال کو غدار قراردے دیا ۔ اس چور کی داڑھی میں تنکہ کی سی کیفیت پر مشتاق عاجز کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
یہ رازِ عشق ہے افشا تو ہو گا،گلی کوچوں میں ُتو رُسوا تو ہوگا
اُٹھیں گی انگلیاں جب اس پہ عاجزؔ،تمہارا شہر میں ، چرچا تو ہو گا

سرجیکل اسٹرائیک کو لے کر پریشانی کا یہ عالم ہے کہ سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کا این ڈی ٹی وی پر نشر ہونے والے انٹرویو کو تشہیر کے بعد رکوادیا گیا حالانکہ چدمبرم نے سرجیکل اسٹرائیک پر حکومت کی تنقید نہیں تائید کی تھی ۔ لگتا ہے کہ اس مسئلہ پر بولنے کا حق اب سنگھ پریوار کیلئے مختص کردیا گیا ہےیا ان لوگوں کواندیشہ ہے کہ کسی اور کی حمایت سے بھی ان کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر بڑے طمطراق سے مقبوضہ کشمیر سمیت گلگت اور بلتستان کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ بتا کر خوب دادِ تحسین حاصل کی تھی لیکن سرجیکل اسٹرائیک نے اس کی نادانستہ تردیدکردی ۔ اگر وہ خطہ ہندوستان کا حصہ ہیں تو وہاں اتنی خاموشی اور رازداری کے ساتھ نصف شب میں جانا اور صبح پو پھٹنے سے قبل لوٹ آنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ وزیراعظم نے فوج کوواپس کیوں بلایا وہیں خیمہ زن رہنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟

اس حملے پر اس قدر سیاست ہوئی کہ حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کو کہنا پڑا وزیراعظم فوجیوں کےخون کی دلالی نہ کریں ۔ راہل کے اس بیان پر ان کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک دیا گیا ۔ دراصل یہ مقدمہ تو وزیردفاع منوہر پاریکر کے خلاف ہونا چاہئے جنھوں نے یکے بعد دیگرے دو احمقانہ بیان دئیے ۔ اول فوج کا ہنومان سے موازنہ کردیا۔ بی جے پی والے خود کوتو رام سینا قرار دیتے ہیں اور ملک کی فوج کو ہنومان بنادیتے ہیں ۔ منوہر پریکر نے یہ بھی کہا اس سرجیکل اسٹرئیک سے قبل ہندوستان کی فوج کو اپنی شجاعت و دلیری کا علم نہیں تھا ۔ یہ تو سراسر فوج کی توہین ہے جس پر انہیں نہ صرف فوج بلکہ قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔

ہونہار وزیردفاع منوہر پاریکر نے گزشتہ دنوں یہ انکشاف بھی کیا کہ سرجیکل اسٹرئیک پہلی بار ہوا ہے جبکہ اس سے قبل کانگریس دو مرتبہ اس طرح کا محدود حملہ کرنے کا دعویٰ کرچکی ہے اور بی جے پی اس کی تردید نہیں کرسکی ۔ ہندو اخبار نے ۲۰۱۱؁ میں ہونے والے حملے ’’آپریشن جنجر‘‘ کی تفصیلات بھی شائع کردیں ۔ اب سنگھ کے دانشور پرانے اور نئے حملے کا فرق بتانے میں جٹ گئے ہیں ۔ آپریشن خنجر کو بدلے کی کارروائی کہہ ک ہلکا کیا جارہا ہے حالانکہ یہ حملہ بھی تو اڑی کا انتقام تھا ۔سرحد پر اس طرح کی کارروائی پہلے بھی ہوئی مگر ایسا شور غل پہلی بار ہورہا ہے۔ منوہر پریکر کے دعویٰ کی سب سے طاقتور تردید خارجہ سکریٹری شیوشنکر کی جانب سے آئی۔ انہوں نے پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا کہ اس طرح کے کامیاب حملے پہلے بھی ہوئے ہیں مگر ان کا اعلان پہلی بار ہوا ہے۔ شیوشنکر کو چونکہ انتخاب نہیں لڑنا ہے، انہوں نے یہ بیان عوام میں نہیں بلکہ ایک نہایت ذمہ دار فورم میں دیا ہے جہاں کذب گوئی سے ان کی ملازمت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ان کا تعلق سنگھ پریوار سے نہیں ہے اس لئے وہ وزیردفاع سے کہیں زیادہ قابلِ اعتبار ہیں ۔ منوہر پاریکرتو آئندہ سال اپنی ریاست گوا میں انتخاب کے پیش نظر ایک وجئے یاترا بھی نکالنے جارہے تھے مگر ان کو اس سے روک دیا گیاہے۔کشمیر کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ غریب کی کٹیامیں لگائی جانے والی آگ سے حکمرانوں کےمحل روشن ہونے کے بجائے خاکستر بھی ہوجاتے ہیں بقول شاعر؎
اسی لہو میں تمھارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتل عام نہیں، تم نے خودکشی کی ہے

اس سرجیکل اسٹرائیک پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے کہہ دیا کہ کاش اس طرح کا حملہ کئی سال قبل ہوا ہوتا تو کشمیر میں شورش پیدا ہی نہ ہوتی حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریس کے زمانے میں بھی یہ سب ہوچکا ہے اور اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔سرجیکل اسٹرائیک کے بعد جو خوش فہمی پیدا ہوئی تھی اب مظاہرے اور حملے کافور ہوجائیں گے وہ بہت جلد دور ہوگئی۔ پمپور کے ایک سرکاری ادارے پر فروری میں حملہ کیا گیا تھا جہاں سے حملہ آوروں کو نکالنے میں ۴۸ گھنٹے لگے تھے ۔ سرجیکل اسٹرائیک کے بعد پھر سے اسی ادارے کو نشانہ بنایا گیا اور ۲ حریت پسندوں پر قابو پانے میں فوج کو ۵۲ گھنٹے لگے ۔ گزشتہ ۱۰۰ دنوں کے اندر فوجی تنصیبات میں ہونے والے حملوں اچھا خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی خبر ذرائع ابلاغ میں آجاتی ہے ۔ آئے دن عسکریت پسند حفاظتی دستوں سے بندوق چھین کر لے جاتے ہیں ۔ پاکستان اگر خوفزدہ ہو گیا ہے تو اس نے گزشتہ ۱۹ دنوں میں ۲۹ مرتبہ سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کیوں کی؟

کشمیر کی اس دگرگوں صورتحال کا اعتراف بی جے پی کے نائب صدر اور کشمیر کے نگراں اویناش کھنہ نے بھی کیا ہے مگر وہ اپنی پیٹھ تھپتھپا نے کیلئے کہتے ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں نہیں ہوتے تو جموں میں اس کاشدید ردعمل ہوتا ۔ ظاہر ہے بی جے پی اگر اقتدار میں نہیں ہوتی تو وہ آئے دن جموں میں مظاہرے اور احتجاج کرتی اب چونکہ صوبے اور مرکز دونوں مقامات پر اس کی اپنی حکومت ہے احتجاج کس کے خلاف کیا جائے؟ ایک سینئر پولس افسر کا کہنا ہے کہ وادی میں جملہ ۲۴۰ تا ۲۶۰ کے درمیان عسکریت پسند ہیں جن میں سے ۸۵ غیر ملکی ہیں ۔ ان اعدادو شمار سے یہ راز فاش ہوجاتا ہے کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کا جو بونڈر کھڑا کیا جاتا ہے اس کی حقیقت کل ۱۰۰ بھی نہیں ہے ۔

قومی انتخاب سے قبل امیت شاہ نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ اگر نریندر مودی وزیراعظم بن گئے تو کوئی دہشت گرد ہندوستان میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی دہشت گردوں کو یہ پتہ ہی نہ چلا ہو کہ مودی جی اپنی نصف سے زیادہ میعاد ختم کرچکے ہیں ۔ ویسے وزیردفاع نے بھی کچھ روز قبل سینہ ٹھونک کر کہا تھا اب کوئی میری اجازت کے بغیر سرحد پار نہیں کرسکتا ۔ ایسالگتا ہے ان کی یہ دھمکی بھی صدا بہ صحرا ہوگئی۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر وادی میں عسکریت پسندوں کی کل تعداد صرف ۲۶۰ سے یا اس سے کم ہے تووہ لاکھوں کی تعداد میں ہماری فوج کے قابو میںکیوں نہیں آتےاور اس کام کیلئے دنیا بھر کو ساتھ لینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ ان سوالات کا جواب شاید اس شعر میں ہے ؎
زندگی کا رنگ ایسا تو نہ تھا، روشنی کم تھی اندھیرا تو نہ تھا
عکس تک اپنا نہ پہچانا گیا، آئنہ ایسا بھی دھندلا تو نہ تھا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.