اتر پردیش کا انتخاب اورسرجیکل اسٹرائیک

مایا وتی نے وزیراعظم کے حلقۂ انتخاب وارانسی میں ایک زبردست ریلی کرکے بی جے پی کے ذریعہ سرجیکل اسٹرائیک کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی مذمت کی۔ مایاوتی نے اپنی تقریر میں کہا ایک طرف اڑی میں ہلاک ہونے فوجیوں کے اہل خانہ سوگ منارہے ہیں اور دوسری جانب وزیراعظم دسہرہ کاجشن منارہے ہیں ۔ ان کو چاہئے کہ وہ فوجیوں کے پسماندگان کی ہمدردی میں اس سال دیوالی اور دسہرہ سادگی سے منائیں ہے ۔مایاوتی شاید نہیں جانتیں کہ امیت شاہ پہلے ہی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک انتخابی مدعا تو بن ہی جائیگا ۔ امیت شاہ کی یہ بات درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بابت کئے جانے والے سارے وعدے انتخاب کے بعد ’’جملہ‘‘ کہہ کر بھلا دئیے جائیں گے۔

اترپردیش کے حوالے سے امیت شاہ کی منصوبہ بندی بہت موثر ہے ۔ پہلے تو دہلی کےوگیان بھون میں پنڈت دین دیال کی کتابوں اجراء کرتے ہوئے وزیراعظماشاروں کنایوں میں کہتے ہیں کہ بہت جلد ہم وجئے دشمی منانے والے ہیں اور اس سال کا دسہرہ بہت خاص ہوگ اسی کے ساتھ سارا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھتا ہے لوگ اشارہ سمجھ جاتے ہیں ۔ اس کے بعد وزیراعظم دسہرہ منانے کیلئے لکھنو کے رام لیلا میدان میں پہنچ جاتےہیں اور وہاں ان کی خدمت میں ہنومان کی گدا پیش کی جاتی ہے ۔ یہ وہی ہنومان ہے جس کا ذکر منوہر پریکر نے کیا تھا ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کی ابتداء اور اختتام جئے شری رام سے کرتے ہں لیکن سرجیکل سٹرائیک کے ذکر سے گریز کیا جاتا ہے اور پھر ہماچل پردیش کے اندر اس کا ذکر سفاک اسرائیل سے جوڑ کر اس طرح کیا جاتا ہے کہ پہلے یہ اسرائیل کرتا تھا اب یہ ثابت ہوگیا کہ ہندوستانی فوج بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ ان تمام واقعات کو جوڑ کر دیکھا جائے توکیا ایسا نہیں لگتا کہ ان سب کا سوتردھار ایک ہی ہے ؟

لکھنو کی دسہرہ ریلی کے بعد ایودھیا میں رامائن میوزیم کی تعمیر اس بات کا اشارہ ہے کہ بی جے پی اس بار رام رتھ پر سوار ہوکر اترپردیش کا انتخاب جیتنا چاہتی ہےحالانکہ اکھلیش بھی ایودھیا میں رام تھیم پارک بنا کر ہندوتواوادیوں کو رام کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ رام کے نام پر سنگھ پریوار کے اندر مہابھارت چھڑی ہوئی ہے۔وزیر سیاحت مہیش شرما جب رامائن میوزم کی تیاری کیلئے ایودھیا کیلئے نکلے تو وہ ایودھیا سے راجیہ سبھا کے ایم پی ونئے کٹیار کو اپنے ساتھ لے جانا بھول گئے ۔ اس پر کٹیار نے اپنی بھڑاس اس طرح نکالی کہ وہ تو اچھا ہی ہوا جو وہ ایودھیا میں نہیں تھے ورنہ لوگ سوال کرتے کہ رام مندر کب بنے گا؟ کٹیار کے مطابق جب بھی وہ ایودھیا جاتے ہیں سنت مہنت ان سے سوال کرتے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر کا کام کب شروع ہوگا ؟ اب لوگ اس طرح کے لالی پاپ سے بہلنے والے نہیں ہیں انہیں رام جنم استھان پر مندر چاہئے نہ کہ۱۵ کلومیٹر دور میوزیم ۔

رام مندر کے نام پر راس لیلا کرنے والی بی جے پی کو چاہئے کہ وہ ایک نظر انڈیا ٹوڈے اور ایکسس کے انتخابی جائزے پر ڈال لے ۔ اس جائزے کے مطابق گزشتہ مرتبہ ۸۰ میں ۷۱ سیٹ جیتنے والی بی جے پی اب بھی سب سے آگے چل رہی لیکن واضح اکثریت میں ہنوزتقریباً ۳۰ کی کمی ہے۔ اسی کمی کو پورا کرنے کیلئے کبھی جئے شری رام کاتوکبھی پاکستان کا شور بلند کیا جاتا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق بی جے پی کے صرف ۳ فیصد رائے دہندگان رام مندر کو اہم سیاسی مدعا مانتے ہیں اور گائے کے حق میں تو صرف ایک فیصد ہیں ۔ وزیراعظم کی کارکردگی ۹ فیصد لوگوں کے نزدیک اہم ہے جبکہ ۸۸ فیصد اب بھی ترقی کو اہمیت دیتے ہیں ۔ بی جے پی والوں نے اگر ترقی کے بجائے رام مندر کا راگ الاپنا شروع کردیا تو یہ ۳۰ والی کھائی مزید گہری ہوسکتی ہے۔

سرجیکل اسٹرائیک جیسا معاملہ بھی ماضی میں اتر پردیش کے ووٹرس کو بہت متاثر نہیں کرسکا ہے۔ جولائی ۱۹۹۹؁ میں کارگل کی جنگ ہوئی اس سے قبل ۱۹۹۸؁ میں اترپردیش میں بی جے پی کے ۵۹ ارکان پارلیمان منتخب ہوئے تھے مگر جنگ کے ۳ ماہ بعد ہونے والے قومی انتخاب میں یہ تعداد گھٹ کر ۲۹ پر پہنچ گئی اور کانگریس صفر سے بڑھ کر ۱۰ پر آ گئی ۔ بی ایس پی کو بھی ۱۰ کا اور سماجوادی کو ۶ کا فائدہ ہوا۔ ۲۰۰۶؁ میں وارانسی کے اندر کئی دھماکے ہوئے جس میں ۲۸ لوگ ہلاک اور ۱۰۱ زخمی ہوئے۔ اس کے بعد بی جے پی نے پاکستان اور کانگریس کے خلاف زبردست تحریک چلائی مگر ۲۰۰۷؁ کے اندر ہونے والے صوبائی انتخابابت میں بی جے پی کے ارکان اسمبلی کی تعداد ۸۸ سے گھٹ کر ۵۱ پر پہنچ گئی جبکہ بہوجن سماج پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی اور ایس پی اقتدار سے محروم ہوگئی۔ بی جے پی نے اگر ماضی سے سبق نہیں سیکھا تو تاریخ اپنے آپ کو دوہرا سکتی ہے ۔

وزیرداخلہ راجناتھ نے لکھنوکے جلسۂ عام میں وزیراعظم کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت میں دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ اب ہندوستان کی فوج کمزور نہیں ہے گویا پہلے دنیا بھر کے لوگ ہندوستان کی فوج کو کمزور سمجھتے تھے ۔ ہندوستان کی فوج آزادی کے بعد چین کےساتھ ایک اور پاکستان کے ساتھ چار جنگوں میں اپنی دلیری کا مظاہرہ کر چکی ہے ۔ کیا اس وقت فوج کو اپنی بہادری کا علم نہیں تھا یا ساری دنیا نے اس کا اعتراف نہیں کیاتھا ۔ملک کے وزیرداخلہ کو اس طرح کا بیان زیب دیتا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان جنگوں کے باوجود مسئلۂ کشمیر جوں کا توں رہا ایسے میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بات درست لگتی ہے ’’وادی کا بحران اور تنازعہ دب تو سکتا ہے لیکن یہ چنگاری بجھ نہیں سکتی۔ یہ پھر سے اٹھے گی اور ہماری تباہی کا باعث بنےگی دونوں بڑے ممالک سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں مسئلہ کا حل بات چیت ہے ۔ بات چیت سے ہر مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے‘‘۔ اس لئے بی جے پی کی بھلائی اسی میں ہے کہ اترپردیش کا انتخاب جیتنے کیلئے کشمیر اور پاکستان کے مسائل اچھالنے کے بجائے عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کی بات کرے اس میں قوم کا اور اس کا اپنا فائدہ ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453369 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.