موروثی اورمیراثی نظام۔۔۔۔۔ سیاست
میں تو ہوسکتا ہے فوج میں نہیں،فوج میں میرٹ کا سکہ چلتا ہےلیکن جب سپہ
سالار کی تعیناتی کا معاملہ ہو تو اس میں سیاسی ملاوٹ کردی جاتی ہے لیکن یہ
ملاوٹ قانونی اور آئینی ہے ، دستور کی شق 243 فو ر کے تحت سربراہ حکومت
سپاہ کا سالار مقرر کرنےکا ذمہ دار ہے ۔کہنے کو تو یہ بہت آسان لگتا ہے
لیکن یہ پل صراط پر سے گزرنے کے مترادف ہے ۔
نوازشریف ان دنوں پھر پل صراط پر سے گزر رہے ہیں میاں صاحب کو اگر اس پل کا
مستقل مسافر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا 1991 میں انہوں نے اسی پل پر سے گزر
کر آصف نواز جنجوعہ کا انتخاب کیا تھا 1993 میں عبدالوحید کاکٹر،1998 میں
پرویز مشرف اور 2013 میں راحیل شریف کو بھی اسی سفر کے بعد چنا اور اگر
1999 کے ضیا الدین بٹ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہمارے کشمیری النسل میاں
صاحب کو یہ سعادت 5 بار حاصل ہوئی ہے اور اب وہ پل کے اس پار بخیریت جانے
کےلئے چھٹی بار حالت سفر میں ہیں قوم کو ان کے لئے دعاگو ہونا چاہیے ۔
نئے چیف کے لئے وزیراعظم نوازشریف کے پاس کئی تھری اسٹارز جنرل کی لسٹ ہے
لیکن ان میں سے دو کو انہوں نے 29 نومبر سے پہلے پہلے لازمی فور اسٹار کے
عہدوں پر ترقی دینی ہے ۔ ایک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور دوسرے آرمی
چیف کےلئے ۔۔۔۔ آرمی کی سنیارٹی لسٹ کو دیکھیں تو ایک اہم نام لیفٹیننٹ
جنرل زبیر محمود حیات کا آتا ہے وہ جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف ہیں
اس سے پہلے وہ ڈائریکٹر جنرل سٹرٹیجک اینڈ پلان ڈویژن تھے ان کا تعلق
آرٹلری سے ہے ان کے والد میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے جبکہ لیفٹیننٹ
جنرل زبیر محمود حیات کے دو بھائی فوج میں ہیں ۔۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود
حیات اور میجر جنرل احمد محمود حیات۔۔۔۔۔ جرنیلوں کے اس خاندان میں فور
اسٹار جنرل بننے کا قوی امکان ہے اور لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات سپہ
سالار کے منصب پر پہنچ سکتے ہیں تاہم ایک سوچ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف
مسلسل دوسری بار ایک سا تجربہ نہیں کرنا چاہیں گے ۔۔
ملتان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم بھی فور اسٹار جنرل بننے کے
اہل ہیں وہ سی جی ایس رہ چکے ہیں ڈی جی ایم آئی اے کی حیثیت سے انہوں نے
آپریشن ضرب عضب کا خاکہ تیار کیا جبکہ سوات اور شمالی وزیرستان میں دہشت
گردوں کا قلع قمع کرنے میں ان کا اہم کردار رہا ہے ۔بری فوج کے سربراہ
کےلئے جتنی بھی آپریشنل اور اسٹاف ذمہ داریوں کی ضرورت ہوتی ہے اس تمام پر
وہ پورا اترتے ہیں لیکن ذرائع کے مطابق وہ سول قیادت کی گڈ بک میں نہیں ہیں
اور اس کی وجہ ان کا مشرف کے قریب ہونا بتایا جاتا ہے ۔
ایک اور نام لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے کور کمانڈر بہاولپور کا ہے وہ
بھی سوات آپریشن کا حصہ تھے اور جی او سی رہ چکے ہیں واشنگٹن میں فوجی
اتاشی اور سینٹ کام کے ساتھ کام کرنےکا تجربہ ہے جبکہ بعض امریکی سینیٹرز
کے ساتھ بھی ان کےاچھے تعلقات تھے ان کا تعلق رمدے خاندان سے ہے جی ایچ کیو
حملے میں ان کے ایک رشتہ دار بریگیڈیئر انوار الحق رمدے شہید ہو ئے تھے ۔نوازشریف
سےزیادہ شہبازشریف سے قربت،امریکی عنصر اور سیاسی خاندان سے تعلق ان کے فور
اسٹار جنرل بننے کی راہ میں رکاوٹ خیال کئے جا رہے ہیں ۔
سنیارٹی لسٹ میں ایک اہم ترین نام لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے ان
کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے ان دنوں وہ جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ
اینڈ ایلویلشن ہیں ، یہ وہی عہد ہ جس پر جنرل راحیل شریف آرمی چیف بننے سے
پہلے کام کر رہے تھے ۔2014 کے دھرنے کے دوران ٹین کور کی کمان انہی کے پاس
تھی ان کی لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر گہری نظر اور وسیع تجربہ ہے۔ جبکہ
غیر سیاسی خاندان ہونے کی وجہ سے وزیراعظم کو انہیں نظر انداز کرنا بالکل
آسان نہیں ہو گا ۔
مذکورہ شخصیات میں سے لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود کی مدت ملازمت جنوری 2017
میں ختم ہو جائے گی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم ، لیفٹیننٹ جنرل جاوید
اقبال رمدے اور لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ اگست 2017 میں سبکدوش ہو
جائیں گے آرمی چیف جنرل راحیل شریف 29 نومبر 2016 کو ریٹائر ہو رہے ہیں اسی
روز چیئرمین جوائنٹ چیفس کی بھی مدت ملازمت پوری ہو جائے گی ایسے میں
وزیراعظم کو دو اعلیٰ ترین جرنیلوں کا انتخاب کرنا ہے ویسے تو نوازشریف نے
الیکشن 2013 کے بعد ہی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد کے آرمی چیف کے متعلق
سوچنا شروع کر دیا تھا اس سلسلے میں انہوں نے قریبی ساتھیوں سے صلاح مشورے
بھی کئے تاہم جنرل راحیل شریف کی تقرری کا اعلان انہوں نے کمان سنبھالنے کی
تقریب سے دو روز پہلے 27 نومبر 2013 کو کیا تھا ( اتفاق سے جسٹس تصدق حسین
جیلانی کو بھی انہوں نے اسی روز چیف جسٹس بنانےکا اعلان کیا تھا ) تاہم اس
بار صورتحال مختلف ہے حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے
اوروہ چاہیں گے کہ پیپلز پارٹی کی طرح ن لیگ بھی پانچ سال پورے کرے اس کے
ساتھ جنرل راحیل شریل کی قیادت میں دہشت گردوں کا ناسور کافی حد تک ختم ہو
چکا ہے جبکہ جنرل راحیل خود بھی ملازمت میں توسیع کے حق میں نہیں اس
سلسلےمیں ان کی طرف سے 25 جنوری کو واضح طور پر اعلان بھی کیا گیا تھا ۔۔
جنرل راحیل شریف مطالعہ ،شکار اور تیراکی کے شوقین ہیں اور امید ہے کہ 29
نومبر کے بعد ان کازیادہ وقت ان ہی مشاغل میں گزرے گا ۔ تاہم ایک مودی کی
خر دماغی ہے جس کی وجہ سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی صورتحال کشیدہ ہے
ورنہ کوئی اور بڑی وجہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کی نظر نہیں
آتی باقی حکومت تحریک انصاف کے دھرنے کا دھنیا جتنامرضی گھول کر قوم کو پلا
دے نقصان بہرحال حکومت کا ہی ہو گا ۔
ن لیگ کسی نئی نئی بیوہ کی طرح میرٹ کا بین تو خوب کرتی پھرتی ہے تاہم اس
کا اطلاق ہوتا بھی نظر آنا چاہئے وزارت دفاع کی طرف سے بھجوائے جانے والی
فائل میں وزیراعظم کی نظر لیفٹیننٹ جنرل زبیر اور لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کے
نام پر تو بار بار پڑے گی اس کے باوجود میاں صاحب کو اگر قوم کا میاں بننا
ہے تو انہیں اپنا بندہ والی ذہنیت کو ترک کرکے اچھوں میں سے اچھا ترین کا
انتخاب کرنا ہو گا ،بھلے سولہویں آرمی چیف کے نام کا اعلان کمان کی تبدیلی
کی تقریب سے ایک روز پہلے ہی کردیں ! |