مسلم پرسنل لاء:پیروپیگنڈوں کے خلاف ’سرجیکل اسٹرائیک‘

اسلام نے نکاح کوآسان بنایااورطلاق کو ابغض المباحات قراردیا۔طلاق حکم نہیں،گنجائش ہے۔طلاق کی ضرورت کوسب تسلیم کرتے ہیں اسی لئے اسپیشل میرج ایکٹ میں اس کاپروویژن رکھاگیاہے۔ نباہ نہ ہونے کی صورت میں کبھی طلاق دونوں کیلئے ضروری ہوجاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ایک اجیرن زندگی سے آزادہوجاتے ہیں۔ساتھ ہی عورت کیلئے خلع کامتبادل رکھاگیا۔اگرزوجین علیحیدگی کافیصلہ کرلیں تو دنیاکاکوئی قانون انہیں روک نہیں سکتا۔شوہرکواگرنہیں رکھناہے توخواہ ایک طلاق دے یاتین،بات برابرہے۔ایسانہیں ہے کہ مطلقہ ہونے کے بعدعورت لاچارہوگئی ، جواس کے وارثین ہوسکتے ہیں،ان پرذمہ داری عائدہوجاتی ہے اسی طرح اسے دوسری شادی کااختیارہے۔طلاق کاتصورسب سے پہلے اسلام نے دیا۔ اگر’مسلم پرسنل لاء ‘سے اتنی نفرت ہے تو’اسپیشل میرج ایکٹ‘یہاں تک کہ’ہندومیرج ایکٹ ‘سے طلاق کوختم کردیاجائے جومسلم پرسنل لاء سے لیاگیاہے۔
یوں لگتاہے کہ طلاق ثلاثہ ملک کاسب سے اہم مسئلہ ہے۔پیروپیگنڈہ اس اندازسے کیاگیاکہ گویاہرمسلمان مردچارشادیاں کرتاہے اورتین کوطلاق دے دیتاہے۔اب حکومت کہنے لگی ہے کہ’یکساں سول کوڈلاء کمیشن کامعاملہ ہے ،سرکارکااس سے کوئی لینادینانہیں ہے‘۔حالانکہ سرکار نے لاء کمیشن کوخط لکھ کریونیفارم سول کوڈکے نفاذکی راہ ہموارکرنے کوکہاتھانیزاس کے انتخابی ایجنڈے میں یہ ایشوموجودہے۔نائیڈو ایک طرف یکساں سول کوڈسے کنارہ کش ہورہے ہیں ۔دوسری طرف بحث میں شامل ہونے کامشورہ دے رہے ہیں۔خودحکومت نے جوحلف نامہ داخل کیاہے اس میں طلاق ثلاثہ بھی ہے اورتعددازدواج بھی۔مزیدلاء کمیشن کا’بھگواسوالنامہ‘جویونیفارم سول کوڈکی وکالت ہے،میں طلاق ثلاثہ کاتذکرہ ہے تواسے یونیفارم سول کوڈسے الگ کیوں کرکہاجاسکتاہے۔جبکہ3اکتوبرکووزیرداخلہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مسلم پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ارون جیٹلی نے کہاہے کہ’ پرسنل لاء آئین کے دائرہ میں ہوناچاہئے‘۔ پیشے سے وکیل ہونے کے باوجودانہوں نے کانسٹی ٹیوشن آف انڈیاکی بنیادی دفعات نہیں پڑھی ہیں۔ پرسنل لاء آئین کے دائرہ میں ہی نہیں بلکہ اس کے پیٹ میں ہے،جہاں ہرمذہب کے ماننے والوں کو مذہب اورعقیدہ کی آزادی دی گئی ہے اورپرسنل لاء کاآئینی تحفظ کیاگیاہے۔نیزعدالتوں کے فیصلوں نے رواج کوقانون پرترجیح دی ہے جس کی نظیرموجودہے اورجب رواج کواہمیت حاصل ہے تووہ مذہبی قوانین جن کی بنیادیں قرآن واحادیث میں ہیں،بدرجہ اولی آئین ہندکی بنیادی دفعات سے ہم آہنگ ہیں۔یہ سرٹیفکیٹ بھی دیاجانے لگاہے کہ جولوگ یونیفارم سول کوڈیاحقوق کی دفعات کونہیں مانتے ہیں وہ دیش دروہی ہیں،سوال یہ ہے کہ جولوگ آئین کی مذہبی آزادی کی بنیادی دفعات کے خلاف ہیں،انہیں کیاکہاجاناچاہئے۔آئین ہندکی کاپیاں جلانے والوں کے ساتھ سرکارچلانے والوں کوپھرکیانام دیاجائے؟۔یونیفارم سول کوڈکی دفعہ کی حیثیت بس مشورہ کی ہے جبکہ مذہبی آزادی کی متعدددفعات آئین ہندکا بنیادی حصہ ہیں جوجمہوریت کی روح ہیں۔

2010کی مردم شماری کی سرکاری رپورٹ کے مطابق طلاق اورایک سے زائدبیوی رکھنے کی شرح سب سے زیادہ ہندوؤں میں ہے باوجودیکہ تعددازدواج پرہندومیرج ایکٹ میں پابندی عائدہے۔مسلمانوں کانمبرساری کمیونیٹیوں کے بعدآتاہے۔طلاق ثلاثہ کے واقعات تواور کم ہیں۔یہ حقیقت ہے آج بھی مسلم معاشرہ میں بہن،بیٹوں،ماؤں اوربیویوں کواہم مقام حاصل ہے۔اسلام نے بیوی کووجہ سکون بتایا،لباس سے تشبیہ دی ،اس کے حقوق متعین کئے ،ماں کے قدموں میں جنت بتائی،بہن اوربیٹی کونہ صرف وراثت میں حصہ دیا،انہیں جینے کا حق دیا یہاں تک کہ بیٹی کی پرورش پربشارت سنائی ۔جبکہ ملکی قانون کے مطابق عورت کوجائیدادمیں حصہ نہیں ہے۔یہ انتہائی گھنوناکھیل ہے کہ ہندوکوڈجس میں عورتوں کی مختلف طریقوں سے حق تلفی ہوتی ہے ،سے صرف نظرکرکے سارازورمسلم پرسنل لاء کے تئیں منفی پیروپیگنڈوں پرصرف کیاجائے اوردو نوں کے تئیں الگ الگ رویہ اپنایاجائے ۔وزیراعظم نے ملک کی تمام خواتین کوانصاف دلانے کا’جملہ ‘کہاہے۔ہونایہ چاہئے کہ جس ہندوکمیونٹی کے یہاں ’بیوی کوچھوڑدینے‘کاتناسب سب سے زیادہ ہے،وہاں کی عورتوں کی فکرکی جائے اوراس سے قبل’گجرات کی مظلومہ‘کوانصاف دلایاجائے،ذکیہ جعفری اورگجرات کی معصوم شہیدعورتوں کے ساتھ انصاف کی با ت کرنی چاہئے۔اگرمسلم خواتین سے ہمدردی ہے توپندرہ پندرہ لاکھ روپئے اکاؤنٹ میں ڈالنے کاجوانتخابی وعدہ انہوں نے کیاتھا،کم ازکم تمام مسلم خواتین کے اکاؤنٹ میں وہ پیسے ڈلوادیں۔حکومت کواگرہمدردی ہوتی تواسے جے این یوسے غائب نجیب کی ماں کے آنسو نظرآتے ۔ظاہرہے کہ یہ خواتین سے ہمدردی نہیں،ہمدردی کی آڑمیں مذہبی آزادی نشانہ ہے۔

ایک بات بنیادی طورپرسمجھ لینی چاہئے کہ زیربحث مسئلہ میں کسی مسلک کے درمیان یہاں تک کہ اہل حدیث طبقہ سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ حکومت کاموقف یہ ہے کہ اگرکسی نے تین طلاق ایک بارمیں دی توغیرموثرہوگی اورطلاق ہوگی ہی نہیں جبکہ اہل حدیث حضرات تین کوایک مانتے ہیں اورعلمائے احنا ف وشوافع وحنابلہ ومالکیہ تین مانتے ہیں۔لیکن مانتے دونوں ہیں۔جبکہ حکومت کے حلف نامہ میں طلاق ثلاثہ کے اثرکوختم کرناہے اوریہ کسی مسلک کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے جوقرآن واحادیث اورمسلم پرسنل لاء سے متصادم ہے ۔ظاہرہے کہ اس سے ایک حرام ہوگئی چیزکوحلال کرنالازم آئے گا۔لیکن اس پرگول مول بحث میڈیامیں ہورہی ہے۔حلف نامہ میں سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ ’’تین طلاق کاتعلق شریعت سے نہیں ہے اورنہ اس کی بنیادقرآن واحادیث میں ہے‘‘۔اسے ایک اجتہادی اوراختلافی مسئلہ بتاکرنظرثانی اورقیاس کامشورہ دے کر الجھن پیداکی جارہی ہے۔ قیاس وہاں درست ہوتاہے جہاں کتاب وسنت میں کوئی واضح حکم نہ ہو۔ قیاس حکم کوظاہرکرتاہے،ثابت نہیں کرتا۔جس طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں نص صریح موجودہے وہاں قیاس اوراجتہادکامشورہ نہیں دیاجاسکتاہے۔یوں بھی کہاگیاکہ’ چودہ سوسال کے پرانے قوانین آج کے معاشرہ سے ہم آہنگ نہیں ہیں،اکیسویں صدی ترقی یافتہ صدی ہے ‘‘ ۔ہماراایمان ہے کہ جس طرح قرآن ساتویں صدی عیسوی میں راہِ ہدایت تھا،اس کے احکام اکیسویں صدی میں بھی وہی رہیں گے۔صدیاں بدلتی رہیں گی،خالق کائنات کاقانون تاقیامت جاری رہے گاجس میں تغیروتبدل کی کسی ملک وحالات میں ہرگزگنجائش نہیں ہے۔لاتبدیل لکلمات اللہ کاقرآنی اصول مسلم ہے۔لہٰذااسلا می احکام کودوسرے مذاہب کے احکام اورریت ورواج پرقیاس نہ کیاجائے۔ یہ خواتین کے حقوق کی لڑائی نہیں ہے ، ورنہ دوسرے مذاہب کی خواتین کی بھی فکرکی جاتی۔ یہ جنگ دین بیزاروں اوردین پسندوں کی جنگ ہے۔اگردین بیزاروں کومسلم پرسنل لاء پرعمل نہیں کرناہے تواسپیشل میرج ایکٹ اورہندوکوڈکے ذریعہ اپنامعاملہ حل کرنے سے انہیں کون روکتاہے۔ شادی سات پھیرے لگاکرکریں،وہ آزادہیں۔حیرت ہے کہ اتنے حساس ماحول میں مسلم بہی خواہی میں چھپ کر بعض’چہرے‘ بے تکی باتیں کررہے ہیں ۔

طلاق ثلاثہ کوآنکھ بندکرکے غیرقرآنی اوربے بنیادبتاناناواقفیت یاشرارت ہے۔ احناف وشوافع ومالکیہ وحنابلہ متفق ہیں کہ تین طلاق تین ہی طلاق ہوتی ہے۔بلکہ امام بخاری کامسلک بھی یہی ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے معروف محدث علامہ ابن تیمیہ ؒ نے جب تین طلاق کوایک طلاق ماناتوخودعلامہ ابن قیمؒ نے اعتراض کیا۔عہدصحابہ اورچھٹی صدی ہجری تک محدثین وفقہاء کے سواداعظم کے نزدیک تین طلاق تین ہی ہوتی تھی۔کیایہ پورا طبقہ قرآن واحادیث کے خلاف تھا۔تین طلاق کے تین واقع ہونے پرتفصیلی دلائل بخاری شریف کے ساتھ ساتھ دیگرکتب احادیث میں موجودہیں۔عہدرسالت ﷺمیں بھی طلاق ثلاثہ نافذہوئی ہے۔حضرت عمرؓنے بھی تین طلاق کوتین مانتے ہوئے نافذفرمایاہے۔طلاق ثلاثہ نقلی وعقلی دونوں اعتبارسے ثابت ہے ۔اسی طرح علمائے اہل حدیث یااہل تشیع تین طلاق کوایک مانتے ہیں اوران کے پاس بھی دلائل ہیں۔ٹیلی ویژن سے متاثرہونے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرناچاہئے۔ جوچیز ثابت شدہ ہو،اسے غیرثابت شدہ بتانے پراصراراورنئے اجتہادکامشورہ حماقت ہے۔علمائے سعودی عرب(جس کاحوالہ بارباردیاجارہاہے )حنابلہ ہیں یامالکیہ ہیں یاشوافع ہیں لہٰذاان کے یہاں بھی تین طلاق تین ہی ہے۔حکومت سعودی عرب نے معروف علماء پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل کی تھی جس نے تمام دلائل کاجائزہ لینے کے بعدفیصلہ کیاکہ بیک وقت دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی ہوں گی۔ اصولی بات اوربہت واضح موقف ہے کہ’ مومن فقط احکام الٰہی کاہے پابند‘، ہم صرف شریعت کے پابندہیں،اسلامی ملکوں کے نہیں۔ کسی اسلامی ملک نے کوئی غیرشرعی حکم جاری کیاتواس کایہ عمل ہندوستانی مسلمانوں کیلئے نظیرنہیں ہوگا۔پھرجہاں مکمل طورپراسلامی قوانین نافذہیں، ان کے نفاذکی وکالت کیوں نہیں کی جاتی ہے۔

امریکہ میں الگ الگ علاقوں اورکلچرکیلئے الگ الگ پرسنل لاء ہیں،یونان ،سنگاپورجیسے ممالک میں مسلم پرسنل لاء پرعمل کی مکمل آزادی ہے ،ان کاحوالہ کیوں نہیں دیاجاتاہے ۔حیرت ہے کہ ہرچیزمیں توپاکستان کی مخالفت اوراس معاملہ میں میڈیااورحکومت کاپاکستانی پریم کیوں جاگ جاتاہے؟۔ یہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب ان مسلم ممالک کے نام پوچھے جاتے ہیں تودن بدن ان کی تعدادکم بتائی جارہی ہے ۔جہاں طلاق ثلاثہ پرپابندی ہوبھی تواس کامطلب یہ نہیں ہے کہ تین طلاق ہوگی ہی نہیں۔پابندی کامطلب یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ جرم ہواورسزادی جائے حضرت عمرﷺکے فیصلہ میں اس کی نظیرموجودہے لیکن تین طلاق تین مانی جائے گی۔ کسی عمل کاگناہ ہوناالگ ہے اوراس عمل کاواقع ہوجاناالگ ہے۔تین طلاق کوگناہ اوربدعت سب مانتے ہیں۔جس طرح قتل گناہ ہے،جرم ہے لیکن قتل توسرزدہوجاتاہے۔ساری بحث توعمل کے وقوع پرہے۔اگروہاں تین طلاق واقع نہ ہوتی توسزاکاکوئی جواز نہیں رہ جاتا۔سزااسی وقت ہوسکتی ہے جب جرم (طلاق ثلاثہ)سرزدہو۔اسی طرح تین کواگروہ ایک مانتے توایک طلاق پربھی ویسی ہی سزاہونی چاہئے جیسی تین طلاق پر۔وطن عزیزمیں بڑی مسلم آبادی فقہ حنفی کی ماننے والی ہے۔لہٰذایہ کہناکہ ملک کی اکثریت طلاق ثلاثہ کے خلاف ہے،سفیدجھوٹ ہے۔ واضح رہے کہ کورٹ میں معاملہ طلاق ،یونیفارم سول کوڈیامسلم خواتین کی حق تلفی کاتھاہی نہیں،بحث ہورہی تھی ایک پرکاش اورپھولاوتی جوڑے سے متعلق قانون وراثت پرلیکن جج صاحب کواچانک مسلم خواتین کی’حق تلفی‘ یادآگئی اورازخودنوٹس جاری کردیاجبکہ اس وقت تک کسی مسلم خاتون نے کوئی کیس داخل نہیں کیاتھا۔

اسلام نے نکاح کوآسان بنایااورطلاق کو ابغض المباحات قراردیا۔طلاق حکم نہیں،گنجائش ہے۔طلاق کی ضرورت کوسب تسلیم کرتے ہیں اسی لئے اسپیشل میرج ایکٹ میں اس کاپروویژن رکھاگیاہے۔ نباہ نہ ہونے کی صورت میں کبھی طلاق دونوں کیلئے ضروری ہوجاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ایک اجیرن زندگی سے آزادہوجاتے ہیں۔ساتھ ہی عورت کیلئے خلع کامتبادل رکھاگیا۔اگرزوجین علیحیدگی کافیصلہ کرلیں تو دنیاکاکوئی قانون انہیں روک نہیں سکتا۔شوہرکواگرنہیں رکھناہے توخواہ ایک طلاق دے یاتین،بات برابرہے۔ایسانہیں ہے کہ مطلقہ ہونے کے بعدعورت لاچارہوگئی ، جواس کے وارثین ہوسکتے ہیں،ان پرذمہ داری عائدہوجاتی ہے اسی طرح اسے دوسری شادی کااختیارہے۔طلاق کاتصورسب سے پہلے اسلام نے دیا۔ اگر’مسلم پرسنل لاء ‘سے اتنی نفرت ہے تو’اسپیشل میرج ایکٹ‘یہاں تک کہ’ہندومیرج ایکٹ ‘سے طلاق کوختم کردیاجائے جومسلم پرسنل لاء سے لیاگیاہے۔عدالتی طلاق طویل اورصبرآزماجنگ ہے۔کم ازکم دس دس بیس بیس برس طلاق لینے اوردینے میں لگ جاتے ہیں،جوحقوق انسانی کی خلاف ورزی ہے۔ طلاق ثلاثہ رحمت ہے جب ضرورت ہواورزحمت ہے جب اس کاغلط استعمال ہو۔قانون کے غلط استعمال سے قانون غلط نہیں ہوجاتاہے، قانون کوسمجھانے کی ضرورت ہے۔بعض اوقات عدالتی طلاق کے طویل مراحل سے بچنے کی غرض سے قتل تک کی نوبت آجاتی ہے ،ایسے صورت میں طلاق ثلاثہ بہترہوتی ہے۔اسی طرح کوئی عورت اپنے شوہرسے جلدعلیحیدگی چاہتی ہے توطلاق رجعی میں اسے وہ سہولت حاصل نہیں ہوگی ۔شایداسی لئے اسلام میں تین طلاق کاپروویژن رکھاگیاہے۔طلاق ثلاثہ کانقصان صرف نوے دن کاہے۔اس کے علاوہ باقی طلاقوں میں عورت کے نقصان کے اعتبارسے کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک سے زائدشادی کوعور ت کے حقوق کی خلاف ورزی قراردیاجارہاہے جبکہ بغیرشادی کے باہمی رضامندی کے ساتھ لڑکے اورلڑکی کے ساتھ رہنے کوقانونی جواز حاصل ہے لیکن جب یہی دوسری عورت بیوی بن جائے تویہ خواتین کی حق تلفی کہلاتی ہے حالانکہ یہ دوسری عورت بھی عور ت ہی ہے۔اسی طرح پھرمرداس رکھیل کوچھوڑبھی دیتے ہیں،وہ چھوڑی ہوئی عورت جوبیوی نہیں ہوتی ہے ،کی فکرکسی کونہیں ہے۔ اسلام نے توشرط کے ساتھ چارشادی تک کی اجازت دے کرانہیں حقوق دیئے۔ہندؤوں کے یہاں سوسوسے زائدشادیات کاتذکرہ ملتاہے ،اسلام نے چارمیں محدودکرکرکے بریک لگائی۔

حلالہ مردکیلئے سزاہے،عورت کیلئے نہیں۔حلالہ کی ضرورت اس وقت پڑسکتی ہے جب وہ عورت اس شوہرکی نکاح میں آناچاہتی ہو۔حلالہ کاکانسپیٹ یہ ہے کہ تین طلاق کوبچوں کاکھیل نہ سمجھاجائے۔اگردے دی تواب اسے نکاح کے ذریعہ بھی نہیں لوٹاسکتاہے تاآنکہ وہ عورت کسی دوسرے مردسے شادی کرے اوربائی چانس وہ دوسراشوہر طلاق دے دے یاانتقال کرجائے۔پھروہ عورت اسی مردسے شادی کرناچاہئے تب پہلاشوہراسے نکاح میں لوٹاسکتاہے ۔ یہ طریقہ کارغلط اورحرام ہے کہ وہ شوہردوسرے شخص سے صرف اس لئے نکاح کرائے کہ وہ طلاق دے تاکہ پھروہ اسے اپنے نکاح میں لوٹالے۔یہ اسلامی نظریہ نہیں ہے ۔سماج میں پھیلی خرابیاں اسلام پرانگلی اٹھانے کاموقع فراہم کرتی ہیں جس کے ازالہ کیلئے بیداری کی ضرورت ہے ۔یہ نہیں بھولناچاہئے کہ آرایس ایس نے مسلمانوں کوگمراہ کرنے کیلئے ان ہی کے درمیان تنظیمیں بنارکھی ہیں۔پہلے یہ طے کیاجارہاتھاکہ مسلمان کتنے بچے پیداکریں،اب یہ بھی حکومت طے کرنے لگی ہے کہ مسلمان کتنی شادیاں کریں گے اورطلاق کس طرح دیں گے۔ ملک کے سامنے مہنگائی،بے روزگاری ،بدعنوانی جیسے اہم چیلنجزہیں،طلاق ثلاثہ پربحث کے دوران چپ چاپ پٹرول ڈیژل کے دام بڑھائے جارہے ہیں،کسی کی توجہ اس پرنہیں گئی۔یوپی الیکشن کے پیش نظریہ پیروپیگنڈہ اسی لئے کھڑاکیاگیاہے کہ ملک کے بنیادی مسائل سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھ لے۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36981 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.