پاکستانی کھلاڑیوں نے کھیلوں کی دنیا میں
کئی مقابلوں میں فتح کے جھنڈے گاڑھے اور ملک کا نام روشن کیا ایک وقت تھا
جب پاکستان ہاکی کے میدانوں کا بادشاہ تھا اولمپک ، ورلڈکپ ، ایشین چمپئین
،ورلڈ چمپئین اور دوسرے تمام ٹائٹل اس کے نام تھے۔ سکواش کا نام آتے ہی
پاکستان ، جہانگیر خان اور جان شیر خان ان سے پہلے اعظم خان، روشن خان،
ہاشم خان جیسے عظیم کھلاڑیوں کے نام ذہن میں آتے تھے جو اس کھیل کے تا جدار
تھے ۔ اسی طرح باکسنگ، ریسلنگ، شطرنج، سنوکر اور کئی دوسرے کھیل پاکستان کے
نام رہے پاکستان کے کھلاڑی دنیا بھر کے میدانوں میں فتح کے پرچم لہراتے رہے
۔ پاکستان کے اندر بھی کھیل کے میدان آباد رہے ،کرکٹ اور ہاکی میچوں کے ٹکٹ
ختم ہو جاتے تھے گراونڈوں کے باہر مکانوں کی چھتوں اور درختوں تک پر
تماشائی موجود ہوتے تھے، بین الاقوامی ٹیمیں مسلسل پاکستان آتی تھیں لیکن
جب بین الاقوامی اور پڑوسیوں کی سازشوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کو مضبوط
کیا، اُن کی پشت پنا ہی کی اور اِن دہشت گردوں نے جہاں ملک کے معصوم لوگوں
کا بے دریغ خون بہایا، انہیں شہید کیا، اس کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا،
اس کی تجارت کو شدید خسارے سے دو چار ہونا پڑا معاشی ترقی بری طرح متا ثر
ہوئی وہیں اس کے کھیلوں پر بھی شب خون مارا گیا۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر
لاہور میں حملہ کر کے یہاں بین الاقوامی ٹیموں کی آمد کو ختم کر دیا گیا
اور یوں پاکستانی اپنے پسندیدہ ترین کھیلوں کے مقابلے اپنے میدانوں میں
دیکھنے سے محروم ہو گئے ہمارے میدان ختم ہونے لگے قذافی سٹیڈیم لاہور،
نیشنل ہاکی سٹیڈیم کراچی، ارباب نیاز سٹیڈیم پشاور، نیاز سٹیڈیم حیدر آباد،
ایوب سٹیڈ یم کوئٹہ جو کبھی بین الاقوامی مقابلوں میں نعروں سے گونجتے تھے
خاموش ہونے لگے، دشمن خوش ہوتا رہا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکا ہے
اور ایسا ہوا بھی لیکن اس کے اس کامیابی کے دعوے میں اُس وقت دراڑ پڑی جب
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مختلف ملکوں کی افواج کے درمیانS PACE کے
مقابلے پاکستان میں منعقد ہوئے جس میں فوجی تربیت کے دوران ہونے والی
جسمانی مشقوں کے مقابلے ہوئے ۔ خوش آئندبات یہ ہے کہ ان مقابلوں میں پندرہ
ممالک نے شرکت کی۔ 18 سے 22 اکتوبر تک ہونے والے اِن مقابلوں میں برطانیہ،
چین، نیپال، سری لنکا، ترکی، بنگلہ دیش، قطر، آسٹریلیا، انڈونیشیا اور
مالدیپ کی ٹیمیں شریک ہوئیں مزید خوشی کی بات یہ تھی کہ عظیم دوست چین اور
دوست اور برادر اسلامی ملک ترکی کی ٹیموں نے مارچ پاسٹ کے دوران اپنے ملک
کے ساتھ ساتھ پاکستان کا پرچم بھی اٹھایا۔ اس سے بالکل غرض نہیں کہ کون سا
ملک کون سا مقابلہ جیتا یا پاکستان نے کتنے تمغے حاصل کیے بلکہ بات یہ ہے
کہ بھارت کے اس دعوے کی قلعی کھل گئی کہ اُس نے پاکستان کو بین الاقوامی
طور پر تنہا کر دیا ہے ۔ اس سے پہلے روسی فوج کے دستے کا پاکستان آکر
مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینا اور مختلف چھاونیوں کا دورہ کرنا بھی بھارت
کے لیے خاصا تکلیف دہ تھا۔ ایک تو اس لیے کہ وہ پاکستان کو اپنے دعوے کے
مطابق تنہا نہ کر سکا اور دوسرا اس لیے کہ یہ سب کچھ پاکستانی فوج کی اعلیٰ
تربیت کا ایک بین ثبوت ہے۔ PACES کے مقابلوں میں بڑی تعداد میں ٹیموں کے
شریک ہونے سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب دوسری ٹیمیں بھی پاکستان آسکیں
گی بلکہ حکومت کو اس کے لیے اپنی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تمام تر
وسائل کو بروئے کار بھی لانا چاہیے اس سلسلے کو بحال کرنے کے لیے سفارتی
سطح پر بھی کوششوں کو تیز کر کے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا لیکن
لگتا ہے کہ ہماری حکومت نے بین الاقوامی کھیلوں کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا
ہے ورنہ 2009 میں رُکنے والے اس سلسلے کو کسی نہ کسی حد تک دوبارہ شروع کیا
جا چکا ہوتا لیکن ایک تو اگر کچھ کیا بھی گیا تو وہ صرف کر کٹ کے لیے تھا
جس میں بھی خاص کر بھارت پر توجہ دی گئی ،ہمارے کرکٹ بورڈ کے’’ مایہ ناز‘‘
سربراہ شہر یار خان صاحب بھارت میں اپنے ساتھ توہین آمیز سلوک کے باوجود
بار بار وہاں گئے اور اُن سے درخواستیں کرتے رہے کہ پاک بھارت کرکٹ بحال کی
جائے بھارت اپنی ٹیم پاکستان بھیجے یا کہیں بھی پاکستان سے کھیل لے اگر
اتنی ہی محنت دوسرے ممالک پر کی جاتی تو کامیابی ملنے کی اُمید تھی لیکن
ایسا نہیں کیا گیا جب کہ دوسرے کھیلوں کو لگتا ہے کسی الماری کے ایک خانے
میں بند کرکے تالا لگا دیا گیا ہے۔ اگر کمرشل نکتہ ء نظر سے دیکھا جائے تو
پاک بھارت کرکٹ میچ بلاشبہ سب سے زیادہ منافع بخش ہے لیکن یہ رویہ صرف کرکٹ
تک اس لیے محدود ہو گیا کہ توجہ صرف اس طرف دی گئی ورنہ ہاکی کے میچ میں
بھی یہی صورت حال ہوتی ہے بلکہ تماشائیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے
کیونکہ دورانیہ مختصر ہوتا ہے اور تماشائی اس کے لیے وقت بھی نکال لیتے ہیں
لیکن اس قومی کھیل کو مجرمانہ حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے بلکہ یوں
سمجھئے کہ اگر پاکستان میں کچھ لوگ ابھی یہ کھیل کھیل رہے ہیں تو یہ اُن کی
اس کھیل سے خاص محبت ہے اور وہ اسے اپنے سہارے اور بل بوتے پر کھیل رہے ہیں۔
یہی حال دوسرے کھیلوں کا ہے ہماری گلیوں اور میدانوں کھلیانوں میں فٹ بال
اور والی بال بڑے شوق سے کھیلے جاتے ہیں حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی
چاہیے اور جس کھیل کے جتنے بھی مقابلے ملتے ہیں ایک ابتدا توکرے۔ فوج کو
دہشت گردوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے بلکہ وہ آپس میں مدمقابل ہیں اگر وہ
پندرہ ملکوں کی ٹیموں کو بلانے کی ہمت کر رہی ہے تو حکومت بھی آگے بڑھے اور
کم از کم پی ایس ایل کو پاکستان لائے۔ اس بار فائنل لاہور میں کھلانے فیصلہ
خوش آئند ہے لیکن کچھ مقابلے بھی پاکستان لانے چاہیے تھے اور دیگر ملکوں کے
کھلاڑیوں کو سیکیورٹی کی یقین دہانی کرائی جانی چاہیے۔پچھلے سال مجھے بھی
دبئی میں پی ایس ایل کے کچھ مقابلے دیکھنے کا اتفاق ہوا کچھا کھچ بھرے ہوئے
سٹیڈیم میں اکثریت پاکستانیوں ہی کی تھی اور یہ صرف وہاں کام کرنے والے
پاکستانی نہیں تھے بلکہ اس میں پاکستان سے گئے ہوئے لوگ بھی تھے اور ہر ایک
کو چیک کرنے کے بعد سٹیڈیم میں داخلے کی اجازت ملی پولیس پوری طرح مستعد
تھی اور ایک تماشائی نے جب جوتا سٹیڈیم میں پھینکا تو اسے گرفتار کر کے
باہر لے جایا گیاتو ایسے ہی انتظامات یہاں بھی کیے جا سکتے ہیں۔ بہر حال
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشکلات ضرور ہوں گی لیکن کوشش ضروری ہے اور اس لیے
بھی بہت ضروری ہے کہ جیسے پاک فوج نے بھارت کو یہ احساس دلایا کہ ہم فوجی
لحاظ سے عالمی سطح پر تنہا نہیں اسی طرح کھیلوں کے میدانوں میں بھی دنیا
ہمارے ساتھ ہے اور بھارت کے ہمارے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنے کا مطلب ہر گز ہماری
تنہائی نہیں نہ ہی ہمیں دنیا نے مسترد کیا ہوا ہے ۔ اس کے لیے سپورٹس بورڈز
کو بھی مستعد ہونا پڑے گا اور یہ ماننا ہوگا کہ اُن کی بڑی بڑی تنخواہیں
صرف اس لیے نہیں کہ وہ دفتروں میں آکر بیٹھیں کاغذی منصوبے بنائیں اور یہ
اُمید دوسرے سے لگا کر رکھیں کہ وہ دوسرے ممالک کی ٹیموں کو ان کے پاس لائے
گا اور تب وہ ان کے ساتھ مقابلوں کا انعقاد کریں گے پاک فوج کو بھی آگے بڑھ
کر اپنے تجربے کی بنیاد پر حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔ مختصراََ یہ کہ اب اس
معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور دشمنوں کے اس تاثر کوزائل کرنے کے لیے
خاص کر کام کرنا ہوگا کہ ہم بین الاقوامی سطح پر کسی معاملے میں تنہاہیں۔
|