بھارت میں انتہا پسند ہندو مسلم دشمنی میں پاگل ہو گئے۔۔۔!!

مودی سرکار دنیا بھرمیں امن و آشتی کا پرچارکرتے پھر رہے ہیں لیکن بھارت میں موجود انتہا پسند مسلمانوں کو دھمکا کر بھارت کا بھیانک چہرہ خود ہی بے نقاب کر رہے ہیں۔ پراچی سادھوی نامی خاتون نے بھارت سے مسلمانوں کے خاتمے کا عزم ظاہر کر دیا۔انتہا پسند ہندوتنظیم کی رہنما پراچی سادھوی مسلم دشمنی میں اندھی ہوگئیں۔ پراچی کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ بھارت کو مسلمانوں سے پاک کردیاجائے۔ ہمیں اس پر کام کرنا چاہیئے اور ہم کام کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان پرشدت پسندوں کیخلاف کارروائی کیلئے زور دینے والے بھارت میں وشیواہندوپریشد جیسی خطرناک تنظیمیں جہاں چاہیں مسلمانوں کا استحصال کرتی ہیں اورپراچی سادھوی جیسے تنگ نظر لوگ آزادی سے معاشرے میں گھوم پھررہےہیں مگر بھارت کا کوئی حلقہ انکے کیخلاف ایکشن کا مطالبہ نہیں کرتا۔بھارتی وزیراعظم نے امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی بھارت کے پروس میں پروان چڑھ رہی ہے۔بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمان دشمنی پاگل پن میں بدلنے لگی، انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد خواتین کومسلح تربیت دے رہی ہے تا کہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں انھیں بھی استعمال کیا جا سکے۔بھارتی وزیراعظم کے پارلیمانی انتخابی حلقے وارانسی، بنارس میں ہندو تنظیم خواتین کو مسلح تربیت دے رہی ہے جس میں مسلمانوں کوبطوردشمن پیش کیا جا رہا ہے۔ تربیتی کیمپ میںگیارہ اضلاع کی سوسے زائد لڑکیوں کو جسمانی لڑائی، بندوق اور لاٹھی چلانے سمیت دیگرہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جا رہی ہے،لڑکیوں کوتربیت دینے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، انتہاپسندہندوؤں کی جانب سے عام مردوخواتین کو مسلح تربیت نے پہلے سے مظالم کا شکار بھارتی مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ۔بھارت میں مودی سرکار کے آشیرباد سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف امریکی سینٹرز پھر سراپا احتجاج ہیں۔ مودی کے کانگریس میں خطاب پر اراکین کانگرس نے احتجاجی خط تھما دیا،بھارت میں انتہا پسندی مودی سرکار کے آشیرباد سے بے لگام ہوچکی ہے، انتہا پسند ہندو وحشی جانوروں کی طرح مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف حملے کررہےہیں اور رہی سہی کسر مودی سرکار قانون سازی کے زریعے نکال رہی ہے،مودی سرکار نے بیشتر ریاستوں میں مسلمانوں کی کئی مذہبی رسومات پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے۔۔!!بھارت میں ہندو انتہاپسندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کو قتل وغارت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،مقبوضہ کشمیر میں بھی حالات بدستور خراب ہورہے ہیںواضح رہے کہ امریکی سینیٹرز اور اراکین کانگریس رواں برس فروری میں بھی بھارتی انتہا پسندی کے خلاف مودی سرکار کو خط لکھ چکے ہیں۔۔ ۔!!بی جے پی نے برسراقتدار آ کر گویا ہندو انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے یہی وجہ ہے وہ معاشرے میں اقلیتوں کو جینا حرام کر رہے ہیں کبھی مسلمانوں پر مذہبی پابندیاں تو کبھی عیسائی کو جینا دو بھر یہاں تک کہ نچلی ذات دلت کے ہندو بھی اب انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں، معاشرے میں انتہا پسندی رواج دینے والی بھارتی انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس نےاب یونیورسٹیوں کا رخ کر لیا ہے، آر ایس ایس کا ساتھ اس کی ذیلی طلبہ تنظیم اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد بھی بھر پور ساتھ دے رہی ہے، دونوں تنظیمیں یونیورسٹیوں میں اپنی پسند کا تدریسی و غیر تدریسی عملہ تعینات کرانے کیلئے متحرک ہو چکی ہیں، بی جے پی جب بھی برسراقتدار آتی ہے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کیلئے کوشش کرتی ہے، آر ایس ایس اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیمیں اس کوشش میں بی جے پی کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں، یونیورسٹیز میں انتہا پسندوں کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر کئی طلبا خود کشی کر چکے ہیں،بیرونی دنیا میں یوں تو اس بات کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی شعبہ پر مذہبی انتہا پسند قابض ہیں مگر اس ضمن میں بھارت کی صورتحال تب عیاں ہوئی۔۔۔!!بھارت کی اکثر یونیورسٹیوں کی مانند بنارس کی ہندو یورنیورسٹی پر بھی آر ایس ایس غلبہ پا چکی ہے اور یہ لوگ معمولی سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے ،بی جے پی کی گورنمنٹ میں یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آر ایس ایس نے جہاں زندگی کے دوسروں شعبوں میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، اسی طرح سے تعلیم و تربیت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اپنے نظریات کے فروغ کے لئے اکھل بھارتیہ شکھشا سنستھان قائم کر رکھی ہے جسے مختصر طور پر ودیا بھارتی کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کے تحت بھارت کے اندر ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی ادارے چلائے جاتے ہیں ۔ اس کا رجسٹرڈ دفتر یو پی کی راجدھانی لکھنؤ میں جبکہ فنکشنل ہیڈ کوارٹر دہلی میں اور ذیلی مرکز کورو کھشیتر ( ہریانہ ) میں واقع ہے ۔اعداد و شمار کے مطابق اس کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں کی تعداد پچیس ہزار ہو چکی ہے جہاں تیس لاکھ سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں جس میں بہت سی یونیورسٹیاں اور ہزاروں کی تعداد میں کالج ، درجنوں ووکیشنل اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹویٹس شامل ہیں اور انھی کے ذریعے ہندو انتہا پسند نظریات کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دیا جا رہا ہےاس کے علاوہ نصابی کتابوں میں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کے لئے نصاب ترتیب دینے والے سرکاری اداروں پر بھی گرفت مضبوط کر لی گئی ہے۔ آر ایس ایس نے بھارت کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے بی جے پی کے تحت چلنے والی طلباء تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی ) کے ذریعے اکثر طلباء یونینز پر قبضہ کر رکھا ہے اوریوں ہندو ستان کے طول و عرض میں اپنے من پسند نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ جب سے نریند ر مودی نے اقتدارسنبھالا ہے، بھارت کے سیکولر ازم کی رہی سہی کسریں بھی نکل گئی ہے۔حیرت اس امر پر ہے کہ مودی کے اقتدار میں آنے سے قبل اقلیتوں کے متعلق جو خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے وہ اس قلیل مدت میں ہی درست ثابت ہونے لگے ہیں، تنگ نظر ہندو ازم کا زہر پوری ریاست میں پھیل چکا ہے اور اقلیتوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کو یہ کہہ کر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں چلے جائیں کیونکہ بھارت صرف ہندوؤں کی سرز مین ہے، یہاں کسی اور گروہ ، فرقے یا مذہب کی جگہ نہیں یوں اپنی مذموم اور گھٹیا حرکات سے سیکولر بھارت کے منہ پر کالک مل دی گئی اوسیکولر ریاست اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔۔!! وی ایچ پی (ویشوا ہندو پریشد) ، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) ، آر ایس ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ)، بجرنگ دَل اور ڈی جے ایس (دھرم جاگرن سمیتی)جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلسل طاقت پکڑ چکی ہیں اور ان شدت پسند تنظیموں نے ہندو نوجوانوں کو سنگھ پریوار کے نام پر متحد کرنے کی تحریک شروع کر رکھی ہے، تقریباً سات دہائیوں بعد بھی زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے،ان پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا کہ ان کے لئے سانس لینا بھی مشکل ثابت ہو رہا ہے، ہندوؤں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں ‘عیسائیوں اور سکھوں کو تعلیم‘ روزگار‘ تجارت ‘غرض ہر شعبے میں پسماندہ رکھا جائے تاکہ بالآخر یہ ریاست چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ ، امتیازی اور شرمناک سلوک کے بے شمار واقعات چپے چپے پر بکھرے پڑے ہیں۔۔۔!! بھارت میں مسیحی برادری بھی ایک بڑی اقلیت ہے جو ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہےان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا، جلانا ، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی اور انہیں زبردستی ہندو دھرم میں شامل کرنا جیسے واقعات عام ہیں اور خوف و ہراس پر مشتمل تحریری مواد مسیحی آبادیوں میں تقسیم کرکے انہیں ہراساں کیاجاتا ہے،ہندوؤں کا خیال ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عیسائیوں کو ختم نہ کر دیا جائے یوں بھارت میں عیسائیوں کا خاتمہ بھی سنگھ پریوارکے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔دو ہزار چودہ کے اواخر میں دہلی کے بڑے گرجا گھر سینٹ سیستان چرچ میں آگ لگاکر اس کی بے حرمتی کی گئی اور دو ہزار پندرہ کے اوائل میں دلی کے ایک اور چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی ‘ مجسموں کو توڑا گیا۔ چر چ میں لگے خفیہ کیمرے کی آنکھ نے حملہ آوروں کا ریکارڈ محفوظ کر لیا مگر ریاستی اداروں نے پھر بھی مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا۔ دلی میں مسیحی ا سکول ہولی چائلڈ پر بھی حملے ہوئے اور پولیس و دیگر ادارے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں رہے اس سے قبل ریاست کیرالہ ، آندھرا پردیش کے واقعات کسے یاد نہیں جن میں درجنوں گرجا گھروں پر بم برسائے گئے اور مسیحی قبرستانوں کو اکھاڑ دیا گیاایسے واقعات کے خلاف جب بھی مسیحی برادری نے پرامن احتجاجی جلو س نکالا اور نفرت آمیز رویوں کے خلاف سراپا احتجا ج ہوئے ان پر ریاستی اداروں نے چڑھائی کر کے ان پرتشدد کیااور گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ ہم اس امر سے یقینی طور پر آگاہ ہیں کہ بھارت میں اجتماعی طو ر پر لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یوں تو گزشتہ سرسٹھ سالوں سے بھارت میں اقلیتوں کا استحصال کیا جا رہا ہے تاہم جب سے نریندر مودی نے زمام اقتدار سنبھالی، اقلیتوں کا مستقبل مزید داؤ پر لگا دیا گیااور ان پر سرزمین ہند تنگ کر دی گئی ان تمام مذاہب کے خلاف ہندوؤں کی متعصبانہ کارروائیوں اور نفرت آمیز رویوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو اہے انہی حالات کے پیش نظرخطے کے تجزیہ کار مودی سرکار کو سیکولر ازم کے لئے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ان کے اقدامات کوسیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے،انتہا پسند ہندو تنظیموں راشٹر یہ سیوک سوئم اور دشوا ہندوپریشد نے بھاررت کو سو فیصد ہندو اکثریتی ملک میں بدلنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔تقسیم ہند سے قبل انیس سو بیس میں متعب ہندو سوامی دیانند سرسوتی نے شدھی تحریک شروع کی تاکہ مسلمانوں کو زبردستی ہندو دھرم اپنانے پر مجبور کیا جائے یعنی انہیں شدھی کیا جائے کہاگیاکہ مسلمان اور ان سے پہلے عیسائی اس خطے میں آئے اس سے قبل سارے لوگ ہند ہی تھے لہٰذا ان سب کو ہندو بنانا ضروری ہے حالانکہ ہندوستان پر گیا رہ سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی لیکن ہندووں نے کبھی اس زمین پر مسلمانوں کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیااور ان کی نفرت اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد کھل کر باہر آگئی۔ ہندوستان کو مکمل طورپر ہندوبنانے اور مسلمانوں کویہاں سے نکالنے کیلئے سنگھٹن جیسی پر تشدد تحریک کا آغاز بھی ہوا پہلے مسلمانوں کو ہندو (شدھی) بنانااگر وہ نہ مانے توا نہیں سنگھٹن یعنی قتل کر دیا جائے، اس حوالے سے میو آبادی کا علاقہ میوات شردھانند نے بھارتیہ ہندو مہاسبھا نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندو مذہب میں داخل کرنا تھاجسےتئیس دسمبرانیس سو چھبیس کو عبدالرشید نامی ایک غیرت مند مسلم نوجوان نے واصل جہنم کر ڈالا تھا۔ اسی ملعون سوامی کا شمار آج بھارت کے قومی ہیروز میں ہوتا ہے، ہدنو مہاسبھا تنظیم کا مقصد وہی تھا جو شدھی تحریک کا تھا، ا س کے مطابق مسلمان غیر ملکی ہیں اور ان کا ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں ہے اگر مسلمان ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ہندومعاشرے میں جذب ہونا پڑے گا،سنگھٹن تحریک کا بانی انتہا پسند پنڈت مدہن مالویہ کھلم کھلا ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں سے لڑنے کی ترغیب دیتا تھا اور وہ ہندووٴں سے کہتا تھا کہ تمہیں اپنے دشمن مسلمانوں سے لڑنا ہے ان سے مقابلہ کرنا ہے اور آج بی جے پی کے دور حکومت میں ہندوسوامی شردھا نند اور دیانند کے چیلوں نے ایک بار پھر شدھی تحریک کا آغاز کر دیا ہے، زبردستی نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کو بھی ہندودھرم اپنانے پر مجبور کیا جا رہاہے اور یہ کھم کھلا ہورہا ہے۔ ایک سیکولر ریاست میں صرف ہندو مقاصد کیلئے اور صرف ہندووں کی تعلیم ، صحت ،قانونی معاونت، ہندوتہذیب اور دیگر ہندو مسائل کے حل کے لئے اور ہندو مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے ریاستی کل پرزوں کا استعمال سیکولر ام کے منہ پرطمانچہ ہے ۔ ۔۔!!پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ۔۔۔!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 244821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.