’’جیو‘‘سم،نیٹ کی دیوانگی اور سوشل میڈیاپر وقت گذاری:ایک لمحۂ فکریہ

انسان حیوان ناطق ہے۔انسان علوم ،جذبات،احساسات،تصورات ، نظریات ،افکار اور خیالات کے اظہار کے لیے زبان کا سہارالیتاہے ۔ابتدائی زمانے میں اپنے آراء و نظریات کی محافظت کے لیے انسان مختلف علوم کو جانوروں کی بڑی بڑی ہڈیوں یعنی،رِبس،ریڈیس اوراَلناپر پتھروں کے ذریعے کندہ کرتا تھا۔رفتہ رفتہ کاغذوقلم ایجاد ہوئے اور انبیائے کرام کی میراث یعنی علم کی تبلیغ وترسیل کے لیے کاغذ وقلم کااستعمال کیاجانے لگا۔سب سے پہلے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے محکمۂ ڈاک قائم کیااور سرکاری فرامین اورخطوط وغیرہ کوصوبائی گورنروں اور دیگر افسران تک پہنچایاجانے لگا۔صدیاں بیتیں،حکومتیں تبدیل ہوئیں اور زمانے میں نت نئے انکشافات ہوئے۔ٹیلی گراف میسیج کے بعدجنوری ۱۹۱۵ء میں گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کیااور ٹیلی فون دنیابھر میں ابلاغ وترسیل کا ذریعہ بنا۔کمپیوٹر کی ایجاد نے دنیاکو گلوبل ولیج بنادیااور ۱۹۵۰ء میں انٹرنیٹ کی ایجاد نے دنیابھر میں تہلکہ مچادیا۔دوردراز کا سفر طے کیے بغیر مختلف ممالک کے سربراہان پل بھرمیں آن لائن میٹنگ کے ذریعے اپنے مسائل کا تشفیہ کرلیتے ہیں اور نئے نئے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر مختلف کالجوں کی معلومات ، نصاب کی تفصیلات، داخلے کا طریقۂ کار و فارم، درسیات کی تفصیل اور اسکالرشپ کی معلومات وغیرہ موجود ہیں۔ مریضوں کی تشخیص اور علاج ومعالجہ کرنا۔ حتی کہ جنگ کے زمانے میں سینکڑوں میل دور بیٹھے سرجن کی مدد سے میدان جنگ میں ابتدائی طبی امداد دے کر کئی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ بہت ساری کتابیں ، ڈکشنریاں ، انسائیکلوپیڈیا اور ریسرچ جرائد بھی انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں جن کی مجموعی تعداد ایک بہت بڑی لائبریری سے بھی زیادہ ہے،کچھ ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر لاکھوں کی تعدادمیں گوناگوں علوم وفنون پر مختلف زبانوں میں کتابیں موجودہیں۔مارکیٹ جانے کے بجائے اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری ، سفر کا پروگرام ، روٹ کا انتخاب ،ہوٹل بُک کرانا اور ٹکٹ بھی کنفرم کرواسکتے ہیں۔ امریکہ میں ایک نئے دفتری نظام کے تحت ملازمین کو آفس میں آنے کی ضرورت ہی نہیں رہی، یہ ملازمین اپنا کام گھر بیٹھے انجام دیتے ہیں اور پھر آفس کے کمپیوٹر پر منتقل کردیتے ہیں۔ اس سے کمپنی کو بہت بڑا دفتر بنانے ، دیکھ بھال پر اخراجات کرنے کی بچت ہوئی، ساتھ ہی ملازمین کا دفتر پہنچنے کا وقت بھی بچا ہے، ٹرانسپورٹ کی تکلیف ، ٹریفک کی بد نظمی اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ بین الاقوامی مددگاروں کا ایک گروپ ہے جو دنیا کے ہر موضوع پر آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔پیشہ ور ماہرین کے لیے یہ سونے کی کان ہے جس کے ذریعے مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے اپنے پیشے کے متعلق انٹرنیٹ ہی پر خرید وفروخت کرتے ہیں۔

اسی طرح موبائل فون اور اس میں موجود مختلف سسٹم جیسے باڈا اور اینڈرائیڈ نے ہر کس وناکس کو موبائل کا گرویدہ اور انٹرنیٹ کا شوقین بنادیاہے۔آج تعلیم یافتہ طبقہ ہویا غیر تعلیم یافتہ،امیر ہویاغریب،کام سے منسلک ہویانہ ہو،ہر کوئی زیادہ تروقت سوشل میڈیاپر گذارناچاہتاہے۔۴؍فروری ۲۰۰۴ء کو مارک زکربرگ نے فیس بُک لانچ کیااور انڈیا میں فیس بُک ۲۰۰۷ء میں لانچ ہوا۔درحقیقت مارک زکربرگ ایک باتونی لڑکاتھاجس کی وجہ سے ہارورڈ یونی ورسٹی میں اساتذہ اسے بطورسزا کلاس روم سے باہر کر دیاکرتے تھے،مگر زیادہ گفتگوکرنااس کی فطرت میں شامل تھااس لیے اس نے ایسا سافت ویئر تیار کیاجس کے ذریعے سے وہ ہر وقت اپنے دوستوں سے رابطے میں رہنے لگااور اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر ہارورڈ یونی ورسٹی نے فیس بُک کا استعمال امتحانی امور کی اطلاعات،اہم لیکچرز کے اعلانات،اہم مضامین کی نوٹس فراہمی اور بیک وقت تمام اسٹوڈنٹس کو یونی ورسٹی کے اہم کاموں سے آگاہی کے لیے شروع کردیا۔اس عمل کو دیکھتے ہوئے نیویارک یونی ورسٹی،اسٹینڈفورڈ یونی ورسٹی اور کئی تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کا استعمال کیاجانے لگا۔مارک زکربرگ نے فیس بُک آئیکون کا کلر بلیواس لیے رکھاہے کہ اسے آنکھوں سے بلیوکلرنظرنہیں آتاہے۔۱۹۸۴ء میں نیویارک میں جنم لینے والے مارک کی زندگی سے یہ درس ملاکہ ایک ایسا لڑکا جو بہت زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہے،کلاس سے زیادہ بات کرنے کی وجہ سے باہر نکالاجاتارہاہے،اس نے آج پوری دنیاسے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے بلکہ دنیاکے بلینریز(ارب پتی) میں اس کا شمار ہوتاہے۔

فیس بُک،واٹس ایپ ،ٹوئیٹر،گوگل پلس،لنکڈاِن،یوٹیوب،انسٹاگرام،ٹمبلر،فلِکر،پنٹرسٹ،ریڈٹ اور دوسرے بہت سے عوامی رابطے کی ویب سائٹس کا استعمال ان کے مؤ جدین نے علم کی ترویج واشاعت کے لیے شروع کیاتھا(یہ اور بات ہے کہ بعد میں روپیوں کی چمک دمک نے انہوں نے اپنے مقاصد میں بہت کچھ شامل کرلیاہیں)،آج قوم مسلم بھی انٹرنیٹ اور موبائیل کی خرافات میں مگن ہے۔ کوئی بھی سائنسی ایجاد بذات خود جائز یا ناجائز نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال کی نوعیت اس کو جائز وناجائز بناتی ہے۔مگر آج مسلمانوں کی اکثریت محض تفریح طبع کے لیے اور اﷲ کی امانت کردہ وقت کویوں ہی پاس کرنے کے لیے موبائیل اور نیٹ کا استعمال کررہی ہے۔جون ۲۰۱۶ء سے ریلائنس کی جانب سے ’’جیوسم‘‘کی سہولیات نے لوگوں کو انٹرنیٹ کا دیوانہ بنادیاہے۔رات رات بھر چوک چوراہوں پر دوستوں کے ساتھ فری میں ملنے والے تین سو ٹی وی چینل دیکھنا،یوٹیوب پر فلمیں دیکھنا،گانے سُننا ، فحش ویب سائٹس پر گندے مناظرکا نظارہ کرنا،ہوٹلوں پر بیٹھ کر موبائیل پر شرطیہ گیمز کھیلنا ، لڑکوں کالڑکیوں کے نام سے فرضی آئی ڈی بناکر دن رات چیٹنگ کرنا،مذہبی منافرت پھیلانا،لوگوں کے جذبات مجروح کرنا ، اشتعال انگیز تقریریں اور ویڈیوز شیئر کرنا ، نام وَرلوگوں کے خلاف بیان بازی کرنا وغیرہ۔حالت یہ ہوگئی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہم اپنی موجودگی کااحساس دلانے کے لیے پاگل پن کی حد تک جا چکے ہیں۔ایسے بھی پوسٹ دیکھنے میں آتی ہے کہ باپ سکرات کے عالم میں ہے،ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے اور بیٹاسیلفی کے ساتھ سوشل میڈیاپرکمنٹ لکھتاہے ’’آئے لو مائے ڈیڈ‘‘ ۔ کوئی پانی میں بہہ رہاہو،کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے،کوئی آفات ارضی وسماوی کا شکار ہوجائے، ایسے میں اس کی مدد کی بجائے ایم ایم ایس بناکرسوشل میڈیاپر اپلوڈ کیا جاتا ہے ۔نہ جانے کتنے لوگوں کی جانیں اب تک سیلفی کے جنون میں جا چکی ہیں۔ یارانِ مجلس میں باپ فخریہ انداز میں دوستوں سے کہتاہے ’’میراپانچ سال کا بیٹاخود سے گانا سنتاہے اور گیمز کھیلتاہے ۔‘‘نادان جس بات پر تجھے بیٹے کو تنبیہ کرناچاہیے،تم نے تربیت کے ابتدائی مراحل میں اسے موسیقی کے سُراور تال پر تھرکتے ہوئے نیم عریاں لباس پہنے ہوئے ناچنے والیوں کا شوقین بنادیاہے اور اس پر تمہیں فخر ہے؟ذراسوچو تو سہی آپ اپنے نونہالوں کوکس کاگُرویدہ بنارہے ہو،ایک فاحشہ عورت بھی اپناجسم بیچتی ہے تو پردے پر نہیں بلکہ پردے میں اور تم نے اپنی پوری نسل کو تعلیم سے دور کرکے محض تفریح طبع اور رقص وسرور کی جانب مائل کردیاہے۔خداراخدارا!اپنی روش کو بدلیں اور ٹیکنالوجی کا استعمال وقت گذاری کی بجائے تعلیمی،معاشی،تجارتی اور مذہبی امور میں کرنے کی کوشش کریں۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 671991 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More