اے دل ہے مشکل: جمہوریت شکنی کی زدمیں

دنیاکی سب سے بڑ ی جمہوریت ہونے کے مدعی ہندوستان میں گزشتہ ڈھائی سالوں سے مسلسل جوواقعات وحادثات رونماہورہے ہیں،ان سے ساری دنیاوالوں کوپتاچل گیاہے کہ ہندوستانی جمہوریت کس درجے کی ہے اورہندوستانی عوام کا شعور،فہم وادراک کی قوت اور حقائق بینی ومعروضیت سے کتناناطہ ہے،افسوس ہے کہ جمہوری قدروں کوپامال کرنے والے سنگین وہلاکت ناک حالات کادائرہ ملک کے کسی ایک خطے تک محدودنہیں ہے؛بلکہ چاروں سمتوں میں پھیل چکاہے،اس سے بھی زیادہ افسوس کامقام یہ ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت میں ننگِ جمہوریت حادثات سے نہ توعوامی طبقہ محفوظ رہاہے اورناہی جواہرلال نہرویونیورسٹی جیسی دانش گاہ،جس کی شناخت عالمی سطح پر اس کے لبرل شبیہ کی وجہ سے ہے۔دائیں بازوں کے طلبہ یونین کے غنڈوں کے ذریعے ایک طالب علم کوبغیرکسی جرم وگناہ کے محض اس وجہ سے ماراپیٹاجاتاہے کہ وہ مسلمان ہے اورپھر اسے غائب کردیاجاتاہے،جس کا دس دن گزرنے،طلبہ کی ایک جماعت کے احتجاجات کرنے اوراس گم شدہ طالب کی ماں اور بہن کی ہزارفریادوں کے باوجودکچھ پتہ نہیں لگ پاتا،اسی ضمن میں جھارکھنڈکا واقعہ بھی ہے،جس میں ایک مسلم نوجوان کوواٹس ایپ پر قابلِ اعتراض تصویر شیئرکرنے کے جرم میں پہلے شدت پسندہندووں کی ایک بھیڑپیٹتی ہے اوراس کے بعدپولیس والے اسے اپنی کسٹڈی میں لے جاکرماردیتے ہیں۔اس پرتعجب یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ہمارے ملک کی حکومت اوروزیر اعظم کوکوئی فرق نہیں پڑتا،آج کل تووہ اپنے ہرجلسے اورہر ریلی میں بس سرجیکل اسٹرائک کا راگ الاپتے اوراپنی پیٹھ تھپتھپاتے نظرآرہے ہیں،ملک کی اندرونی صورتِ حال کی خطرناکی سے انھیں کوئی لینادینانہیں ہے۔

اسی سلسلے کاایک اورواقعہ بھی کم افسوس ناک نہیں ہے،یہ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ مہینے اڑی پر دہشت گردانہ حملے کے بعدسے جوہندوپاک کے باہمی تعلقات میں بگاڑآیاہے ،اس کے آثار مختلف سطحوں پر نمایاں ہوئے ہیں اوراب تک سامنے آرہے ہیں؛چنانچہ جہاں دونوں ملکوں کے مابین آمدورفت کے سلسلوں پر روک لگ چکی ہے،وہیں تجارتی تعلقات بھی سردپڑگئے ہیں اورسب سے زیادہ اورنمایاں اثر فلم انڈسٹری پر پڑاہے،پہلے ہندوستان میں پاکستانی اداکاروں کے کام کرنے پر روک لگانے کامطالبہ کیاگیا،خودپاکستان میں بھی تمام ہندوستانی چینلوں،فلمی نشریات پر پابندی لگادی گئی،دونوں ملکوں کے بہت سے اداکارچیخ چیخ کرپوچھتے رہے کہ بھئی ہماراقصورکیاہے؟مگردیش بھگتوں کے پاس صرف ایک جواب تھاکہ ہم یہ مطالبہ دیش بھگتی میں کررہے ہیں،ماضی میں بھی ایسے دسیوں واقعات رونماہوچکے ہیں جب کسی خاص وجہ سے کسی خاص فلم یا سرحدپارکے فلم اسٹارز کی مخالفت کی گئی، فلم کے پوسٹرجلائے گئے، ڈائریکٹر اور پروڈیوسرکی ایسی کی تیسی کردینے کی دھمکیاں دی گئیں۔مجموعی طورپرپاکستانی اداکاروں پربین لگانے کافیصلہ پروڈیوسرزگلڈنے پہلے ہی لے لیاہے،البتہ کئی فلمیں ایسی تھیں ،جن کی شوٹنگ پہلے سے چل رہی تھی،مثلاً شاہ رخ اورماہرہ خان کی ’’رئیس‘‘،علی ظفر،شاہ رخ اورعالیہ بھٹ کی ’’ڈیئرزندگی‘‘ اورکرن جوہرکی ہدایت کاری میں رنبیرکپور،فوادخان،ایشوریہ رائے اورانوشکاشرماکی اداکاری والی فلم’’ اے دل ہے مشکل‘‘۔ابھی ’’رئیس‘‘ اور’’ڈیئرزندگی‘‘ کی ریلیزڈیٹ کچھ دورہے،البتہ اے دل ہے مشکل کواسی ماہ کی28؍تاریخ کوریلیزہوناتھا،سواس کے خلاف پورے مہاراشٹرمیں ہنگامۂ رستاخیزبرپاکردیاگیا،اِسی ماہ کے شروع میں کرن جوہراس وقت سرخیوں میں آئے تھے،جب انھوں نے پاکستانی اداکاروں پربین لگانے کے مطالبوں پر ردِعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ فنکاروں پربین لگانامسئلے کاحل نہیں ہے اورپاکستانی فنکارمحض فنکارہیں،وہ دہشت گردنہیں ہیں،اس پر شدت پسندہندووں کی جماعتوں نے ان کوجی بھرکربرابھلاکہاتھا،حتی کہ بہت سے دیش بھگت چینل والوں نے بھی ان کے بیان کامطلب یہ نکالاکہ وہ اڑی حملے میں مارے جانے والے فوجیوں کا’اپمان‘کررہے ہیں،اسی کے بعدسے ان کی آنے والی فلم’ ’اے دل ہے مشکل‘‘مشکل میں پھنس گئی اوراس کے خلاف مہاراشٹرنونرمان سیناکی طرف سے ہنگامہ آرائیاں شروع کردی گئیں،جوتیزہوتی گئیں،خودپارٹی سربراہ راج ٹھاکرے نے فلم کے خلاف احتجاج کرنے اورریلیزرکوانے کی دھمکی دی،تھیٹروالوں کوبھی ڈرایاجانے لگا،حالات ہنگامہ خیزہونے کا خطرہ بڑھنے لگا،اسی دوران ایک پروگرام میں شرکت کے لیے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ممبئی کا دورہ کیاتوفلم کے پروڈیوسرنے ان سے ملاقات کرکے صورتِ حال سے آگاہ کیا،جس پر وزیر داخلہ انھیں اطمینان دلایا اور لااینڈ آرڈرپرقابورکھنے کی یقین دہانی کرائی،مہاراشٹرکے وزیر اعلیٰ دیوندرفڑنویس نے بھی اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ فلم کے ریلیزہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی جائے گی اورفسادپھیلانے والے عناصرکوبخشانہیں جائے گا،اس ضمن میں ایم این ایس کے کچھ شرپسندممبران کوپکڑکرجیل رسیدبھی کیاگیا۔

اس سب کے باوجود راج ٹھاکرے اینڈکمپنی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھی؛چنانچہ’’اے دل ہے مشکل‘‘کے ڈائریکٹر، پروڈیوسرزگلڈکے ذمے داران اور راج ٹھاکرے اوران کی پارٹی کے’فلمی ونگ‘کے مابین مذاکرات پراتفاق ہوااوراس میں ثالث وزیر اعلیٰ فڑنویس کوبنایاگیا، مذاکرات کی یہ مجلس ہفتہ کے دن وزیراعلیٰ کی رہایش گاہ پربرپاکی گئی،جس میں یہ طے پایاکہ فلم کے پروڈیوسرپاکستانی اداکارکوکاسٹ کرنے کے گناہ کے کفارے کے طورپرآرمی ویلفیئر فنڈ میں پانچ کروڑروپے جمع کرائیں گے،فلم شروع ہونے سے پہلے ایک سلائڈچلائی جائے گی،جس میں اڑی اٹیک میں مارے جانے والے فوجیوں کوخراجِ عقیدت پیش کیاجائے گااورساتھ ہی یہ لوگ یہ طے کریں کہ آیندہ اپنی کسی بھی فلم میں کسی بھی پاکستانی اداکاریااداکارہ سے کام نہ کروائیں۔’’اے دل ہے مشکل‘‘کے ڈائریکٹر،پروڈیوسرنے مشکل سے نکلنے کے لیے ان تمام شرطوں سے اتفاق کیاہے اوروہ پانچ کروڑروپے بھی جمع کریں گے،خراجِ عقیدت والی سلائڈبھی چلائیں گے اورساتھ ہی انھوں نے آیندہ پاکستانی اداکاروں کواپنی فلم میں شامل کرنے سے بھی توبہ کرلیاہے۔

یہ سب ہوجانے کے بعدراج ٹھاکرے بغلیں بجارہے ہیں،ان کوایسا لگتاہے کہ یہ ان کی فتح ہے،بی جے پی والے نہ جانے کس منہ سے اپنی پارٹی اور فڑنویس کو’شاباشیاں‘دے رہے ہیں،مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک دیوندرفڑنویس ایک نہایت ہی دوراندیش اور صاحبِ حکمت حکمراں ہے،جس نے صوبے میں لااینڈآرڈرکوکنٹرول میں رکھنے کے لیے اتنادانش مندانہ فیصلہ کیااوردونوں فریقوں کے مابین صلح صفائی ہوگئی؛حالاں کہ اپوزیشن والے کچھ اورکہہ رہے ہیں،کانگریس کاکہناہے کہ جب ایک فلم سینسربورڈ(جوکہ فلموں کی نگرانی اورریلیزنگ کے سلسلے میں بنایاگیاایک سرکاری ادارہ ہے)کے ذریعے سے پاس کردی گئی،تواب اسٹیٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے ریلیزکرنے میں پیش آنے والی خارجی مشکلات کودورکرے اورپرامن طریقے سے اس کی ریلیزکویقینی بنائے ،مگر’’اے دل ہے مشکل‘‘کے سلسلے میں بی جے پی سرکارنے جوکام کیاہے،وہ نہایت ہی غیر ذمے دارانہ اورصوبے میں غنڈہ گردی کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے،کانگریس نے توفڑنویس کے استعفاکابھی مطالبہ کیاہے،پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجے والانے ٹوئٹ کیاکہ یہ آنے والے بی ایم سی الیکشن کے سلسلے میں بی جے پی-ایم این ایس کے درمیان ایک ڈیل ہے۔سی پی آئی اسے’’ہفتہ وصولی‘‘قراردے رہی ہے،دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال نے بھی اس معاملے میں بی جے پی پر نشانہ سادھاہے،خودشیوسینانے بھی اس’’سیٹلمینٹ‘‘کی مخالفت کی ہے،اودھوٹھاکرے کاکہناہے کہ ہم ہمیشہ اور بلاشرط پاکستانی اداکاروں کی مخالفت کرتے ہیں،پانچ کروڑکے عوض پاکستانی اداکاروں کوموقع دینادیش بھگتی کے خلاف ہے اورمیں اس کی مذمت کرتاہوں۔

سیاسی دھماچوکڑیوں سے قطعِ نظرمعروضیت کے ساتھ اگراس معاملے کودیکھیں توایسالگتاہے کہ گویامہاراشٹرمیں حکومت دراصل سیاسی غنڈہ گردی کی ہے اور مذکورہ مذاکرہ یابات چیت اور اس میں وزیر اعلیٰ کی ثالثی بالکل بے معنیٰ ہے،راج ٹھاکرے کے سامنے وزیر اعلیٰ کی سبکی یابے بسی اور خودسپردگی کوبی جے پی والے دانش مندی اور حکمت کانام دے رہے ہیں،ان کے اس عمل سے معاملہ ٹھنڈانہیں ہواہے؛بلکہ سیاسی لپاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے،جووہ ابھی کررہے تھے،آیندہ اس سے بڑھ کر کریں گے،یہ مجموعی طورپرملک کی جمہور ی شناخت پرپڑنے والاایک نیادھبہ ہے،پہلے سے ہی کئی ایسے شرمناک واقعات رونماہوچکے ہیں،جن میں یہ واقعہ ایک اندوہ ناک اضافے سے کم نہیں ہے۔مرکزی وزیر داخلہ اور مہاراشٹرکے وزیر اعلیٰ نے فلم کی نشریات میں پیش آنے والے ممکنہ موانع کودورکرنے کی یقین دہانی کرائی تھی،توکیایہی طریقہ ان کے ذہن میں تھا؟اگرایساتھا،توخودفلم کے ہدایت کاروپروڈیوسربھی راج ٹھاکرے سے مل کراس قسم کاحل نکال سکتے تھے۔جاں بحق ہونے والے فوجیوں کے ورثاکی امدادایک قابلِ تحسین عمل ہے؛لیکن کیااس فنڈکے لیے اسی طرح پیسے اکٹھے کیے جائیں گے؟خودفوج کی طرف سے غیرت وخودداری اوراعلیٰ اخلاقی قدرکاثبوت دیتے ہوئے اس قسم کی وصولیوں کے ذریعے سے حاصل کی گئی رقم نہ لینے کی کی بات کہی گئی ہے۔کہاجاتاہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ادب،فن،آرٹ،ثقافت اور کلچرکاکوئی خاص ملک اور سرحدنہیں ہوتی،تہذیبی تبادلوں،اعلیٰ انسانی صلاحیتوں سے استفادوں سے ملکوں اور قوموں کی مجموعی تہذیبی شناخت،اخلاقی و فکری پیکرمیں حسن پیداہوتاہے،اگرسرحدپارکی دہشت گردی ہمارے ملکی امن میں خلل اندازہوتی ہے،تواس کے سدِباب کے لیے وہاں کے قابل انسان دوست فن کاروں،فن پاروں یاوہاں کی مفیدمصنوعات وغیرہ پربین کرنے کاحربہ اختیارکرناکہاں کی عقل مندی ہے،اس کے لیے تووہ مؤثراورسنجیدہ اقدامات کیے جانے چاہئیں،جوضروری ہیں اورجن کے ذریعے سے واقعتاً حالات بہترہوسکتے ہیں،اپنی سیاست چمکانے کے لیے غیر سیاسی شعبوں کوہتھکنڈے کے طورپراستعمال کرناہندوستان اورپاکستان دونوں ملکوں کے اربابِ سیاست کی دیرینہ روایت ہے،عوام کابھولاپن اورحدسے زیادہ سادگی بھی ایسے عناصرکوبڑھاوادیتی ہے،وہ اسی قسم کے اقدامات کو ملک کے تحفظ کاضامن سمجھ لیتے ہیں۔ویسے فلم’’اے دل ہے مشکل‘‘کی اصل اسکرپٹ جوبھی ہو،اس کے نام کے معنی خیزہونے کااحساس کرن جوہرکوبخوبی ہوگیا ہوگا۔
Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 25087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.