ناشر : (جلداول)فرید پبلشرز، اردو بازار
کراچی ناشر : (جلددوم)حرا فاؤنڈیشن پاکستان رجسٹرڈ، کراچی
قیمت : ۲۵۰ روپے قیمت : ۱۵۰ روپے
صفحات : ۳۱۸ صفحات : ۲۲۴
مبصر—صابر عدنانی
ڈاکٹر فرمان فتح پوری استاذ الاساتذہ، علم و ادب کا روشن چراغ اور
کثیرالجہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو نظم و نثر، تحقیق و تنقید، لغت نویسی،
لسانیات، علم عروض، ادبی صحافت غرض ادب کا کون سا شعبہ تھا جہاں آپ نے اپنا
ہنر نہ دکھایا ہو۔ ۶۰سے زائد کتب لکھیں اور ترتیب دیں۔ ایم فل، پی ایچ ڈی
اور عام طالب علموں کی ہر طرح مدد کی۔ وہ فردنہیں بلکہ اپنی ذات میں خود
ایک ادارہ تھے۔
دیباچہ نگاری بھی فرمان فتح پوری کے علمی کاموں میں ایک نمایاں حیثیت کی
حامل ہے۔ انھوں نے بیش تر کتابوں پر دیباچے لکھے ہیں جسے سیّد محمداصغر
کاظمی نے بڑے سلیقے سے دو جلدوں میں یک جا کردیا ہے۔ ’’تنقید نما‘‘ کی پہلی
جلد میں دیباچوں کی تعداد ۴۶ ہے جب کہ دوسری جلد میں تعداد ۵۳ ہے۔
اصغرکاظمی اُن لوگوں میں سے ہیں جنھیں خاموشی سے بڑے بڑے کام کرنے کی عادت
ہے۔ اُن کا اختصاص یہ ہے کہ وہ حسرت شناسی پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں
اور حسرت موہانی سے متعلق آپ نے کئی اہم کتابیں مرتب کی ہیں۔ وسائل کی کمی
کے باوجود اخلاص سے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔سیّد اصغر کاظمی کا کمال یہ
ہے کہ انھوں نے جس حد تک ممکن ہوسکا، فرمان صاحب کے لکھے ہوئے زیادہ سے
زیادہ دیباچے یک جا کردیے ہیں۔یہاں پر چند نثری اور شعری کتب کے نام ملاحظہ
ہوں، ’’بیسویں صدی میں اردو غزل‘‘، ’’فرمائش‘‘، ’’حواس خستہ‘‘، ’’سخنوران
کاکوروی‘‘، ’’نساخ عبدالغفور‘‘، ’’حالاتِ حسرت موہانی‘‘، ’’تحقیق و
تنقید‘‘، ’’نیاز فتح پوری‘‘، ’’سیاحتِ ماضی‘‘، ’’حسرت موہانی کی حمد و
نعت‘‘، ’’مسدسِ نسیم‘‘، ’’رباعیات صادق‘‘، ’’رمز حسن‘‘، ’’سوچ کا سفر‘‘،
’’یادوں کے اجالے‘‘، ’’چاند میری زمیں‘‘، ’’نظمانے‘‘، ’’جرسِ گل‘‘،
’’افکارِ برق‘‘، ’’نوشۂ دیوار‘‘، ’’ذکرِارفع‘‘، ’’صلیبِ عصر۔‘‘
’’نذر نیاز فتح پوری‘‘کے دیباچے میں فرمان صاحب لکھتے ہیں:
’’ ڈاکٹر ظہور اعوان صاحبِ طرز نثرنگار ہیں۔ ان کی نثر میں زندگی کی حرارت
اور معنی کی بے شمار پرتیں ملتی ہیں۔ ان کی تحریر میں مزاح کی ہلکی سی
چاشنی کے ساتھ طنز کی بے پناہ کاٹ بھی پائی جاتی ہے۔ ’’کالم نویسی‘‘ ان کا
خاص میدان ہے۔ ان کے کالم ’’دل پشوری‘‘ اور ’’پشاورنامہ‘‘ صحافتی تحریریں
ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی چاشنی بھی رکھتی ہیں․․․‘‘
محسن بھوپالی کی کتاب ’’نظمانے‘‘ کے دیباچے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’نظمانے‘‘ ایک ایسے آئینۂ حیات کی نمائندگی کرتا ہے جو وقت کے ہاتھوں ریزہ
ریزہ ہوچکا ہے۔ ان ریزوں کو ٭ُچننا، انھیں جوڑ جوڑ کر دوبارہ آئینے کا روپ
دینا اور جو کچھ دیکھا ہے، اسے دوسروں کو دکھانا خاصا مشکل کام تھا لیکن
محسن بھوپالی اس کارِشیشہ گری سے آسانی سے گزرگئے ہیں․․․‘‘
کاظمی صاحب نے یہ دیباچے شائع کر کے فرمان صاحب سے اپنی محبت کا ثبوت دیا
ہے۔یہ ایک جہت مسلسل ہے، کیوں کہ کاظمی صاحب کا فرمان صاحب سے ایک تعلق
’’نگارپاکستان‘‘ بھی ہے، آپ نے جس طرح فرمان صاحب کی نگرانی میں’’
نگارِپاکستان‘‘ کی ادارت کی اور کئی خاص نمبرشائع کیے جویقینا لوگوں کے
علمی سرمائے میں اضافے کا باعث بنے۔ تنقید نما بھی اصغرکاظمی صاحب کا اہم
کارنامہ ہے۔ |