یہ ماجرا کیا ہے،کیوں ہم سانپ گذرنے کے بعد
اسکی لکیر پر بیٹھ کر تجزیے ،تبصرے اور دعوے کرتے رہتے ہیں بھانت بھانت کی
بولیاں بولنے والے بھی اپنی بلوں سے باہر آکر کھوجی بن جاتے ہیں اور پھر یہ
سب سیانے مل جل کر اس واقعہ کو عوام کے ذہنوں سے بھلانے کی تدبیریں کرتے
ہیں ہر سانحہ کو قیامت قرار دینے والے شائد اس لفظ کی حقیقت سے واقف نہیں
ہیں کیونکہ انہیں کیا معلوم جب ایک غریب انسان اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں
کی پرورش کرتا ہے اپنی جوانی کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے قربان
کردیتا ہے اور جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے باپ کے سامنے بھر پور
جوانی کو پہنچنے والا اسکابیٹا سفید کفن میں لپٹے سامنے آتا ہے تو اس وقت
قیامت صغری برپا ہوتی ہے اور ہماری طرف سے دی جانے والی جھوٹی تسلیاں اسے
مزید اذیت سے دوچار کررہی ہوتی ہیں کیا اس وقت ہماری طرف سے کیے جانے والے
وعدے اسکے بچے کو واپس لاسکتے ہیں کیا سو دہشت گرد وں کی گردنیں اڑانے سے
اس والد کو تسلی مل سکتی ہے اور کیا حکومت کی طرف سے کیے گئے دعووں پر اس
وقت لعنت بھیجنے کو دل نہیں کرتاجب حکمرانوں کے بچے لوٹ مار کے پیسوں سے
بیرون ملک شاہانہ زندگی گذارنے میں مصروف ہوں اوراور خود حکمران سانپ گذرنے
کے بعد لکیر پر ڈنڈے برسا رہے ہوں پیر کو رات گئے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ
سینٹر پر حملہ ہوتا ہے تو 61 قیمتی جانیں شہیداور سو سے زائد زخمی ہوجاتے
ہیں سکیورٹی انٹیلی جینس ملک کے محافظ اداروں کو خبر دیتی ہے کہ دہشت گرد
ملک میں داخل ہو گئے ہیں تیاری کر لو کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ ہوسکتا ہے
اسکے بعد محافظ ادارے خبر پھیلا دیتے ہیں اور نشاندہی والی جگہوں پرہائی
الرٹ کر دیا جاتا ہے،پہرے بڑھا دئیے جاتے ہیں مگر دو تین دن کیبعد چند دہشت
گرد بھاری اسلحہ لیکر خودکش جیکٹ پہن کرتمام سیکورٹی فورسز ایجنسیز کی ناک
تلے نکل کرکسی سکول، یونیورسٹی ،پولیس ٹریننگ سینٹر ، ہسپتال ، مسجد ،امام
بارگاہ ،چرچ، یا کسی اور ہجوم میں داخل ہو کر خون کی ندیاں بہا دیتے ہین
چند منٹوں میں لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں جس کے بعد جائے وقوعہ پر لاشوں
کے ڈھیر لگ جانے کیبعد پولیس اور کمانڈو کی بھاری نفری موقعہ پر پہنچ جاتی
ہے بلڈنگ کو گھیرے میں لے لیا جاتا ہے شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایمر جنسی
نافذ کر کے ڈاکٹرز کی چھٹیاں معطل کر دی جاتی ہیں اور پھرشہر کے تمام داخلی
راستوں پر ناکے لگا کر سخت چیکنگ کے نام پر شہریوں کو تنگ کرنا شروع کردیا
جاتا ہے اس سے پہلے کہ خون کے دھبے خشک ہوجائیں قوم کو بتایا جاتا ہے کہ اس
افسوس ناک واقعے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے دہشت گرد افغانستان کے راستے سے
پاکستان میں داخل ہوئے دو تین روز شہر کے فلاں علاقے میں رکے رہے اور پھر
فلاں سہولت کار کے زریعے مطلوبہ جگہ تک پہنچے اور جب مائیں اپنے لخت جگر کے
لاشے دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہو جاتی ہیں بوڑھا باپ صدمے سے
لاچارہو جاتا ہے بچے یتیم بن جاتے ہیں اور عورتوں کے سہاگ اجڑ جاتے ہیں تب
پھر سیاسی و عسکری قیادت بیان جاری کرتی ہے ملک دشمن عناصر کے مذموم عزائم
خاک مین ملا دینگے دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے اور دہشت گرد اپنے
گھناؤنے کام سے قوم کا حوصلہ پست نہیں کر سکتے اور پھر اس واقعے کی اعلی
سطحی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور کمیٹی اگلے سانحے تک تحقیات
میں لگی رہتی ہے اور جب اگلا سانحہ رونماء ہو جاتا ہے تب پچھلی کمیٹی ختم
کرکے نئی کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے ہمارے ملک میں
آج تک ہونے والے سانحات پر جتنی بھی کمیٹیاں بنی ان سب کا مقصد بات کو ختم
کرنا ہوتا ہے یہی وجہ کے کہ کئی کئی سال گذر جاتے ہیں مگر کمیٹی کی رپورٹ
نہیں آتی اگر کمیٹی رپورٹ جاری بھی کردے تو حکمران اس رپورٹ کو جاری کرنے
سے روک دیتے ہیں عوامی خدمت کے دعویدار عوام کے کندھوں پر سوار ہوکرجب
اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو عوام کو ہی مرنے اور مارنے کے لیے
کھلا چھوڑدیتے ہیں اپنی دشمنیوں کی قربانیاں عوام سے دلواتے ہیں خود تو
اپنے معمولی سے معمولی علاج کے لیے بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں جبکہ اپنے ہی
صوبہ پنجاب جہاں بڑے بھائی وزیرخزانہ اور وزیراعلی رہے بعد میں خود
وزیراعظم بن کرچھوٹے بھائی کو عوام کی خدمت پر اس طرح معمور کردیا کہ رحیم
یار خان میں صرف لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولیات نہ ملنے پر رونا پڑیا کیا
ہمارے ہسپتالوں میں امریکہ نے آکر علاج کی سہولیات فراہم کرنی ہے یا کسی
اور کی ذمہ داری ہے ہم سے ووٹ لیتے وقت زمین آسمان کے قلابے ملانے والے بعد
میں عوام کو دہشت گردوں کے سہارے چھوڑ کرخود پولیس ،رینجر اور فوج کے
حفاظتی حصار میں پناہ گزین ہوجاتے ہیں کیا کبھی کسی ملازم نے اپنے مالک کو
دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کرخود بھاگنے کی کوشش کی ہے ؟ مگر پنجاب میں
خود کو خادم اعلی کہلانے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی
شہباز شریف اور خود وزیراعظم میاں نواز شریف نے عوام کو غربت ،مہنگائی ،لاقانونیت
،پولیس کی غنڈہ گردی ،ڈکیتوں کی بادشاہت ،دہشت گردوں کی من مرضیوں،ہسپتالوں
میں ذلت وخواری،طبقاتی نظام تعلیم،جہالت اور افسر شاہی کی فرعونیت کے
درمیان بے آسرا چھوڑ کر خود اپنے غلاموں کے ہمراہ چین کی بانسری بجا رہے
ہیں کیا مسلم لیگ ن کی حکومت نے الیکشن سے قبل جو عوام سے وعدے کیے تھے ان
میں سے کسی ایک پر بھی عمل کیا گیا مگر اسکے باوجود ابھی بھی حکومت کے پاس
موقعہ ہے کہ وہ اپنے تمام گناہوں کا ازالہ کرتے ہوئے -
کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ سانحات کا تسلسل اور لمحہ فکریہ ہے ، پاک
چین راہداری معاہدوں کے بعد منصوبہ بندی کے تحت دشمن قوتیں بلوچستان کو
نشانہ بنارہی ہیں ، کوئٹہ کے مذموم واقعے میں بھارت ملوث ہے ،دہشتگردی کا
ناسور پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہے ، دہشتگرد عناصر کا گھیرا تنگ کرکے نشان
عبرت بنایاجائے دو ماہ قبل وکلاء پر حملہ اور بم دھماکوں میں 73قیمتی جانیں
گئی اور آج پھر دہشتگردوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کیا اور 62 قیمتی
جانیں گئیں ، حکومت کو اب ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ہائی الرٹ سیکورٹی
کے باوجود دہشتگرد مذموم کاروائیوں میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں ہمیں اپنے
دشمن کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ہر واقعے کے بعد مخصوص تنظیموں کی جانب سے
اعترافی بیانات کو لیکر تحقیقات کارخ موڑاجاتاہے جس کا بھرپور فائدہ اصل
دشمن اٹھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ
سانحات کا تسلسل اور لمحہ فکریہ ہے اورکب تک ہم دشمنوں کے ہاتھوں اپنے
پیاروں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے دہشگردی کے واقعات میں بھارت ور دیگر پڑوسی
ممالک ملوث ہیں جو پاکستان میں کبھی ترقی واستحکام نہیں دیکھنا چاہتے سب سے
بڑا المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم فوٹو سیشن اور بیان باز،ی مذمت اور قراردادیں
پاس کرکے اقدامات پر توجہ نہیں دیتے۔
|