ایوان اورمیدان
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کے
پراسرار انتقال اورقائدملت نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعدپاکستان میں
کئی حکمران بدلے مگر پاکستانیوں کی حالت زار نہیں بدلی،جس حکمران سے مخلوق
راضی نہیں خالق اس پرمہربان نہیں ہوسکتا۔پاکستان کومقبول نہیں معقول حکمران
کی ضرورت ہے، جودولتمندہونہ ہوعقلمندضرورہو۔اﷲ تعالیٰ نے اقتدار کیلئے
کردار ،تقویٰ ،بردباری اورپرہیزگاری کی صورت میں ضابطہ اخلاق بنایا ہے
،دھونس دھاندلی سے اقتدارمیں آنیوالے اس ضابطہ اخلاق پرپورانہیں اترتے
لہٰذاء ایسااقتدارعزت اوراطاعت کے قابل نہیں ہوسکتا،تاہم لوگ رنجورہونے کے
باوجودخاموشی اختیارکرنے پر مجبور ہیں مگر یہ خاموشی کسی طوفان کاپیش خیمہ
بھی ہوسکتی ہے۔اقتدارتویذیدنے بھی ریاکاری اورمکاری سے چھین لیا تھامگر
حسین ؑ اورملعون یذ یدکے درمیان حق وباطل کے تاریخی معرکے میں یذیدسے اس
کاسب کچھ چھن گیا۔ایک طرف ملعون یذید کاکرداراوراقتدار ایک گالی بن کررہ
گیا جبکہ دوسری طرف دین فطرت سے والہانہ محبت،راہ حق میں صبرواستقامت
،شجاعت اورشہادت کاسنہری تاج حسین ؑ اوران کے ساتھی شہیدوں کے سروں
پرسجایاگیا ۔پاکستان میں چہروں اورکلینڈر کی تبدیلی میں کوئی فرق
نہیں۔پاکستانیوں کوزیادہ تروزرائے اعظم کے نام تک یادنہیں ہیں
مگرعبدالستارایدھی کی عظمت کی شہادت ان سے لی جاسکتی ہے ۔کئی عالم دین آئے
اورچلے گئے عوام نے انہیں فراموش کردیا مگرغازی ''علم دین '' شہید اورغازی
ملک ممتازقادری شہید ان کا نام ومقام ہماری تاریخ کاجلی عنوان ہے ۔میں
سمجھتاہوں بحیثیت مسلمان ہمارے اندر عالم دین ہونہ ہومگرعلم دین
ضرورہوناچاہئے جوناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر جان کی بازی
لگادے۔سانحہ کوئٹہ پر بھی بات کرناچاہتا ہوں ،آئی جی بلوچستان نے بار بار
وزیراعلیٰ بلوچستان سے متاثرہ پولیس ٹریننگ سنٹر کی چاردیواری تعمیر کرنے
اور دوسرے ناگزیرحفاظتی اقدامات کیلئے فنڈز مانگے جوفراہم نہیں کئے گئے ۔
میں سمجھتاہوں وزیراعلیٰ بلوچستان کوان کی مجرمانہ غفلت پر اس منصب سے
ہٹایا اور شامل تفتیش کیاجائے ۔ اہم عہدوں پربیٹھے نااہل اورنادان لوگ دہشت
گردوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔
کوئی حکمران یا ا نسان دوسرے انسانوں کاروزی رساں نہیں ہوسکتاتاہم حقوق
العبادکی پاسداری ہم پرفرض ہے۔رزا ق کے ہاں سے توسب کیلئے رزق اترتا ہے مگر
زمین پربیٹھے ''ڈان '' دوسروں کے حق پرجھپٹ پڑتے ہیں اورنتیجتاً لوگ بھوک
اورپیاس کی شدت سے مرجاتے ہیں۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا
''اگر فرات کے کنارے کتابھی پیاس سے مرگیا تومجھ سے پوچھاجائے گا''،جبکہ آج
تو بھوک انسانوں کونگل جاتی ہے مگرکسی حکمران کے کانوں پرجوں تک نہیں
رینگتی ۔ماضی میں ایک خبر پرحکمران اورادارے ہل جاتے تھے اورتنقیدکواصلاح
کے طورپرلیاجاتا تھا مگراب بیسیوں اداریے اورکالم بھی ا رباب اقتدارواختیار
کی صحت پراثراندازنہیں ہوتے ۔قلم کی قیمت لگانیوالے یادرکھیں سچائی تک
رسائی کاسفر جاری تھا،جاری ہے اورجاری رہے گا۔ہرضمیراورہرقلم بکاؤنہیں
ہوتا۔روشنائی سے روشنی کی کرنیں ضرورپھوٹیں گی ۔
پاکستان میں موروثیت پرور جمہوریت صرف حکمران اشرافیہ کوراس آئی۔ آج بھی
اقلیت کو اپنی ناجائز دولت کی بدولت اکثریت پر غلبہ حاصل ہے۔ آٹھ سے دس
فیصد''پوش'' طبقہ نوے فیصد''سفیدپوش'' پاکستانیوں پرراج کرتا ہے ۔ عوام
کوشریک اقتدارکرنے کیلئے ریاستی نظام بدلناہوگاجبکہ تبدیلی کاراستہ ایوانوں
نہیں میدانوں سے ہوکرجاتا ہے۔پاکستان میں رائج انتخابی نظام کے ہوتے ہوئے
اس ملک میں عوام کاراج کبھی نہیں آئے گا۔میں ان منتخب ایوانوں میں بیٹھے
اشرافیہ کلب کے ارکان کو عوام کانمائندہ تسلیم نہیں کرتا۔شیراورہرن میں
دوستی ہوسکتی مگر سرمایہ داروں کی مزدوردشمنی کسی صورت ختم نہیں ہوگی۔عوام
اپنے ووٹ کی پرچی سے سرمایہ دارانہ جمہوریت اورموروثی سیاست کے پرخچے
اڑاسکتے ہیں مگرانہیں اپنے ووٹ کی طاقت کاادراک تودرکناراندازہ تک نہیں
ہے۔21ویں ترمیم نے منتخب نمائندوں کواپنے اپنے پارٹی سربراہ کاوفادارغلام
بنادیا ہے،پارٹیوں کے ٹکٹ پرمنتخب ہونیوالے نمائندوں سے گویازبان چھین لی
جاتی ہے اوران کے پاس اپنے پارٹی سربراہ کے جائزناجائزاحکامات پرمہرتصدیق
ثبت کرنے کے سوادوسراکوئی آپشن نہیں ہوتا،اس قسم کی روش جمہوری
اقداراوراخلاقی روایات کے منافی ہے۔جہاں منتخب نمائندے آزاد اوربااختیار نہ
ہوں وہاں عام لوگ کس کھیت کی مولی ہیں ۔اختلاف رائے کوجمہوریت کاحسن کہا
جاتا ہے لیکن موروثی سیاست اورخوشامدی کلچر نے اس حسن کوکچرے
کاڈھیربنادیاہے۔ہمارے ہاں قابل قیادت کاقحط پڑنے سے اقتدارپرست سیاستدانوں
کاوجودتواناجبکہ ملک اورآئین کمزورہوتاگیا،افراد نے اداروں کویرغمال
بنالیا۔آج پاکستان میں بانیان پاکستان کانام رسمی طورپرلیا جاتا ہے ،جولوگ
بانیان پاکستان کوفراموش کرسکتے ہیں ان کے نزدیک ذوالفقارعلی بھٹو ،بینظیر
بھٹو اورمیاں نوازشریف کی کیا حیثیت ہے۔پاکستان میں جوبھی تخت نشین ہوااس
نے خودکوخداسمجھ لیا۔خادم کالقب اختیارکرنے اورخادم کی طرح خدمت کرنے میں
فرق ہے۔ شعبدہ بازی نہیں بلکہ ریاستی شعبہ جات کی مثالی کارکردگی سے عوام
کوریلیف ملے گا۔ریاست کیلئے قابل افراد کی اہمیت سے انکار نہیں مگرمنظم
ومتحرک اداروں کاوجود ناگزیرہوتا ہے۔پاکستان کی بے لگام اورسست اشرافیہ
کارویہ درست کرنے کیلئے ڈنڈااوردوررس ایجنڈا چاہئے۔جومراعات سے مستفیدہوتے
ہیں ان سے کام بھی لیا جائے ۔پاکستان کاہردوسراسیاستدا ن سرکاری گاڑی اوراس
پرسبزہلالی جھنڈاچاہتاہے مگرملک وقوم کوڈیلیورکرنے کیلئے ان میں سے کسی کے
پاس پروفیشنل ٹیم ممبرزاور قومی ایجنڈا نہیں۔ان میں سے ہرکسی کاوزارت عظمیٰ
سے خیالی رومانس چل رہا ہے اورپارٹیوں کے اندربھی یہ ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچتے اورایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان مسلم
لیگ (ن) اورپاکستا ن پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین تینوں بڑی پارٹیوں کے ٹاپ ٹین
لیڈرز وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں ۔کیا اقتدار اورمنصب کے بغیر ملک وقوم کی
خدمت نہیں کی جاسکتی ۔عبدالستار ایدھی مرحوم اورڈاکٹرعبدالقدیرخان نے
اقتدار کواپناہدف نہیں بنایا ،ان میں سے ایک نے انسانیت کی انتھک خدمت جبکہ
دوسرے نے مادر وطن کی حفاظت کواپنامشن بنایااوردونوں کامیاب رہے ۔ ایدھی
مرحوم وزیراعظم یاوزیراعلیٰ نہیں تھے مگرپھربھی کروڑوں ا نسانوں کے قلوب
پران کاراج تھا ،ان کی انسانیت کیلئے بھرپور خدمت ،کمٹمنٹ اور بینظیر موت
نے انہیں امرکردیا۔پاکستان میں سیاستدان بڑے ہیں مگرہمارے پاس
دوسراعبدالستارایدھی اورڈاکٹرعبدالقدیرخان کوئی نہیں ۔
ہمارے اندر سے بے یقینی اوربے چینی کس طرح ختم ہوگی ،لوگ مسلسل کئی دہائیوں
سے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں ''اب کیا ہوگا''۔ایک طرف دھرنااوردوسری طرف
رونا ہے ،دھرناختم ہوجاتا ہے مگرروناختم نہیں ہوتا۔دھرنے کے دونوں میں دہشت
گردی کاواقعہ رونماہوناغورطلب ہے۔2نومبر کے دھرنے سے چندروزقبل سانحہ کوئٹہ
ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔دہشت گرد کس کے دوست ہیں اوران کی ڈوریاں کہاں سے
ہلتی ہیں اگرغورکیا جائے توماسٹرمائنڈاورسہولت کاروں کاچہرہ باآسانی شناخت
کیا جاسکتا ۔پی ٹی آئی کے دھرنے میں کپتان کی حامی خواتین کے رقص پرانگلیاں
اٹھیں ،میں بھی رقص کیخلاف ہوں۔ مگرارباب اقتدارواختیار سے میراایک سوال ہے
کیا صرف پی ٹی آئی کی حامی خواتین کے رقص میں برائی ہے جومزاحیہ ڈراموں میں
بیہودہ رقص ہوتا ہے ،ثقافت کے نام پرنجی وسرکاری تعلیمی اداروں میں قوم کی
بیٹیوں کونچایاجاتا ہے اوراس کی پریس کوریج کابھی اہتمام کیا جاتا ہے اوراس
کی فلمیں بناکریوٹیوب پراپ لوڈکی جاتی ہیں ،پی ٹی وی سمیت تمام نجی چینل
''اشتہارات''کے نام پرجورقص پیش کررہے ہیں وہ کس زمرے میں آتا ہے ،اب
توکوئی باپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی چینل پرنیوزتک نہیں سن سکتا کیونکہ
وقفہ کے دوران جواشتہارات آتے ہیں وہ کوئی سچااور غیرتمند مسلمان نہیں دیکھ
سکتا ۔ مختلف سانحات بارے خصوصی پروگرام نشرہوتے ہیں توان کے دورا ن بھی جو
"اشتہارات '' چلتے ہیں ان میں ناچ گاناہوتا ہے ۔پیمرا نے انڈین موادنشرکرنے
پرپابندی لگادی جوخوش آئند ہے مگر انڈیامیں تیارہونیوالے اشتہارات جس میں
بھارتی خواتین اورمرد ماڈل شامل ہوتے ہیں،وہ ایڈجوایڈز سے بدترہیں انہیں
کون روکے گا۔بھارت میں پاکستان کے فنکاروں کوجس تشدداورتعصب کاسامنا
کرناپڑا شاید یہ سب کچھ ہونے کے بعد ان نام نہاد'' سفیروں'' کوہوش آجائے
جوچندکوڑیوں اوردمڑیوں کیلئے بھاگے بھاگے وہاں جاتے ہیں۔انتہاپسندہندو اپنے
ہم وطن مسلمان فنکاروں کاوجودبرداشت نہیں کرتے توپاکستان کے اداکاروں
اوراداکاراؤں کوکس طرح چھوڑسکتے ہیں ۔پیمراحکام بھارت میں تیارہونیوالے
اشتہارات کی بندش بھی یقینی بنائے۔
اب آتے ہیں دونومبرکے دھرنے کی طرف ،دونومبر کادھرنا ناکام بنانے کیلئے
دونمبر لوگ اپنے اپنے اندازسے اپنااپناکام کررہے ہیں۔حکمرانوں کے پاس نادان
مشیروں کی کمی نہیں،شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اپنے آقاؤں کی ناؤ ڈبونے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔میاں نوازشریف کوتعلقات بگاڑنے میں مہارت حاصل ہے
،وہ دوسروں کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے ۔سابق صدورغلام اسحق خان سے
سردارفاروق خان لغاری اور پرویز مشرف تک اورافواج پاکستان کے سابق سربراہان
جنرل (ر) عبدالوحید کاکڑ سے جنرل(ر) پرویز مشرف اور جنرل راحیل شریف تک سب
سے ان کے تعلقات کشیدہ رہے۔پی ٹی آئی کے قائدین اورکارکنان کیخلاف کریک
ڈاؤن کامژدابھی سنایا جارہا ہے ،اگر پرویز مشرف اپنے دورمیں 3اور16ایم پی
اوکے تحت مسلم لیگ(ن)کے کارکنان کیخلاف کریک ڈاؤن کرے تووہ آمر کہلواتا ہے
توکیا عہدحاضر کے حکمران اپنے اقتدار کی بقاء سمیت چمڑی اوردمڑی بچانے
کیلئے پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاؤن کرکے جمہوریت کانام روشن کررہے ہیں
۔اِدھرحکومت کیلئے کپتان کوسنبھالنا ایک چیلنج تھااُدھر طاہرالقادری نے بھی
دھرنے کی حمایت کردی ہے۔طاہرالقادری کی ''ہاں''سے حکمرانوں کے'' ہاں'' صف
ماتم بچھ گئی ۔پچھلے دھرنے کے بارے میں ایک طرف کہا گیاعوام نے منتخب حکومت
کیخلاف دھرنامستردکردیا ،دھرنابری طرح ناکام ہوگیا جبکہ دوسری طرف دھرنے کے
نتیجہ میں معیشت کی عمارت منہدم ہونے کاماتم بھی جاری ہے ۔آئی ایم ایف کی
حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان معاشی بحران سے باہرنکل آیا ہے لیکن آج بھی
ہزاروں خاندانوں کے چولہے ٹھنڈے ہیں ۔ایک چوک تک محدوددھرنا معاشی سرگرمیوں
پرکس طرح اثراندازہوسکتا ہے ۔معیشت متاثر ہوسکتی تھی اگرکسی ائیرپورٹ ،ریل
یاکراچی پورٹ کو بندکیاجاتا ۔حکومت نے دھرنے کے نتیجہ میں معیشت کوہونیوالے
شدید نقصان بارے اعدادوشمار بتائے مگر یہ نہیں بتایا کہ بینظیر بھٹوکی
منتخب حکومت کیخلاف میاں نوازشریف کی کال پر تحریک نجات کے دوران جوبیسیوں
بار شٹرڈاؤن اورپہیہ جام ہٹرتال ہوئی اس سے قومی معیشت کوکس قدرنقصان
برداشت کرناپڑا ۔ منتخب وزیراعظم بینظیر بھٹو کوسکیورٹی رسک قراردے کرپنجاب
بنک اورپنجاب ٹی وی کانعرہ کس نے لگایا تھا۔اگرعدلیہ کی آزادی کیلئے لانگ
مارچ جائزتھا توکرپشن کیخلاف دھرنایااحتجاج کس طرح ناجائزہوسکتا ہے ۔ کرپشن
کیخلاف آپریشن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جبکہ ایک چورسے دوسرے چور کے
احتساب کی امید نہیں کی جاسکتی ۔پاکستان کے لوگ احتساب کے حامی
ہیں۔اگرعمران خان بدعنوانی میں ملوث ہیں توحکمران انہیں گرفتارکریں اوراگر
ان سے حساب مانگا جاتا ہے تو وہ انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ |
|