ایک اور سانحہ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے کئی
بار کہا کہ پاکستان سے 90 فیصد سے زائد دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔حقیقت
بھی یہی ہے کہ اب کونوں کھدروں میں چھپے چند ’’چوہے‘‘ باقی ہیں جو کسی نہ
کسی بِل سے سَر نکال بیٹھتے ہیں ۔ اقوامِ عالم بھی جنرل صاحب کی اِن کوششوں
اور کاوشوں کا بَرملا اظہار کرتی ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کے
جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کوئی دقیقہ
فروگزاشت نہیں کر رہے اِس کے باوجود بھی دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو
نہیں پایا جا سکا۔ گزشتہ تین سالوں میں 1223 دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں
لگ بھگ 9 ہزار افراد شہید ہوئے۔ اِن شہداء میں سویلین کے علاوہ پولیس ،سکیورٹی
اداروں اور پاک فوج کے جوان بھی شامل تھے۔ گویا ہم ہر سال لَگ بھگ 3 ہزار
جنازے اٹھا رہے ہیں اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کمزور ضرور ہوئے
لیکن مکمل طور پر ختم نہیں۔
دہشت گردی کا تازہ ترین سانحہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ میں ہوا جس میں پاک
فوج کے ایک کیپٹن سمیت 61 افراد شہید ہوئے اور 100 سے زائد شدید زخمی۔ 250
ایکڑوں پر محیط پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ سریاب روڈ پر واقع ہے۔ یہ وہی روڈ
ہے جس سے پہلے بھی بلوچی بھائی بہت سی لاشیں اٹھا چکے ہیں۔ پولیس ٹریننگ
سنٹر کے ہاسٹل میں پیر کی شب 11 بجے 3 خودکش بمبار داخل ہوئے اور اندھا
دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے 60 زیرِ تربیت اہلکار اور پاک فوج کے کیپٹن
روح اﷲ شہید ہوگئے۔ 2 خودکش بمباروں نے اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیا اور
ایک سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے واصلِ جہنم ہوا۔ زیرِ تربیت اہلکار کہتے
ہیں کہ اُن کے پاس اسلحہ ہی نہیں تھا ،اگر ہوتا تو وہ ڈَٹ کر مقابلہ کرتے۔
اب اِس سانحے پر دھڑادھڑ مذمتی اور تعزیتی بیانات داغے جا رہے اور ذمہ
داروں کے تعین کے دعوے بھی ۔ ہم کہتے ہیں کہ مذمتی بیان چھوڑو اور ذمہ
داروں کو کٹہرے میں لاؤ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ دہشت گرد حملے
تو بہت ہوئے ،ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا۔
اسی پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ پر 2006ء میں بھی دہشت گردوں نے حملہ کرکے 13
افراد کو شہید کردیا تھا، تب بھی ٹرننگ کالج کے حفاظتی انتظامات سخت کرنے
کے دعوے کیے گئے تھے لیکن 10 سال گزرنے کے باوجود اِن پر عمل درآمد نہ
ہوسکا۔ صورتِ حال یہ کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کی چاردیواری کچی اور اتنی
چھوٹی ہے کہ اُسے کوئی بھی پھلانگ سکتا ہے۔ وہاں پولیس کے حفاظتی دستے
تعینات ہیں نہ دیگر حفاظتی انتظامات۔ وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے ستمبر 16ء میں
پختہ اور اونچی چاردیواری تعمیر کرنے کی منظوری تو دے دی لیکن تاحال اُس پر
عمل درآمد نہ ہو سکا اور یہ سانحہ ہو گیا۔ اِس کالج پر تین ہفتے پہلے دہشت
گردحملے کی خبر بلوچستان کی حکومت کو دی جا چکی تھی ، پھر بھی حفاظتی
اقدامات نہ کیے گئے۔ اِن حالات میں ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا اور کیسے
کرے گا؟۔ اِس سانحے کے بعد اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سَر جوڑ کر کوئٹہ میں
بیٹھی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف مؤثر اور غیرمعمولی اقدامات کا فیصلہ کیا
گیا ۔ اِس کے علاوہ بھارت اور افغانستان سے بلوچستان میں مداخلت پر بات
کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ یہ سب کچھ تو ہر سانحے کے بعد ہوتا ہے لیکن اِس کا
فائدہ ؟۔ کیا بھارت اپنی شَرپسندی سے باز آ جائے گایا افغانستان بھارت سے
اپنی دوستی نبھانے سے؟۔ ہمیں اپنے آپ کو اندونی طور پر مضبوط کرنا ہوگا
لیکن اِس کی طرف حکمرانوں کی مطلق توجہ نہیں کیونکہ وہ تو عمران خاں سے
اپنی ’’کُرسی‘‘ بچانے کی تگ ودَو میں ہیں۔ اُدھر خاں صاحب کو ملک کی پرواہ
نہ قوم کی ،وہ تو اونچے ایوانوں کے باسی بننا چاہتے ہیں، کسی بھی طرح سے ،
کسی بھی ذریعے سے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا یہ نہ رُکنے والا سلسلہ تب تک جاری رہے گا
جب تک ہم اپنی انٹیلی جینس کو مضبوط کرتے ہوئے اپنے اندر چھپے ہوئے دشمنوں
کو ڈھونڈ نہیں نکالتے۔یہ کہنا محض وقت کا زیاں ہے کہ یہ حملے بھارت کروا
رہا ہے یا افغانستان کی طرف سے ہو رہے ہیں کیونکہ دشمن توبہرحال دشمن ہی
ہوتا ہے جس سے خیر کی توقع عبث۔ اُسے تو جب بھی موقع ملے گا وہ وار کرے گا
۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہم اپنے حفاظتی انتظامات کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟۔
اگر حکمران یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ سب کچھ پاک فوج پر چھوڑ کر اپنی ذمہ
داریوں سے عہدہ برآ ہو گئے تو یہ اُن کی بہت بڑی بھول ہے ۔ فوج تو اپنا کام
بطریقِ احسن سَرانجام دے ہی رہی ہے لیکن اب دلیرانہ سیاسی فیصلے بھی کرنے
ہوں گے۔ سب سے پہلے تو اُن 30 لاکھ زبردستی کے مہمان افغانیوں کا بندوبست
کرنا ہوگا جو پاکستان کے لیے ناسور بنتے جا رہے ہیں۔ اِن کے گھر دہشت گردوں
کی پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آخر ہم کب تک اِن کی مہمانداری کریں
گے اور کیوں کریں گے؟۔اِنہیں واپس افغانستان کیوں نہیں بھیجا جاتا؟۔
دوسرا ضروری قدم اپنی سرحدوں کی کَڑی نگرانی ہے ۔ وزیرِدفاع خواجہ آصف نے
یہ تو کہہ دیا کہ حملے کے تانے بانے مشرقی ہمسائے سے ملتے ہیں ۔ بہتر ہوتا
کہ وہ اِن حملوں کو روکنے کا حل بھی بتا دیتے لیکن اُن کی سوئی تو عمران
خاں پر اٹکی ہوئی ہے ۔ وہ تو بھارت کے سرحد اور عمران خاں کے اسلام آباد پر
حملے میں مماثلتیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اِس سانحے پر بجائے اِس کے کہ خواجہ آصف
قوم کو یکجہتی کی اپیل کرتے ،اُنہوں نے ایسا شرمناک بیان دے کر بہت سے دِل
دُکھی کیے ہیں۔ بلاول زرداری نے خواجہ آصف کے ٹویٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے بالکل
درست کہا کہ اِس سانحے پر سیاست کرنا انتہائی شرمناک ہے ۔عین اُس موقعے پر
جب 61 گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی ،گھر گھر میں ماتم اور دَر دَر پہ
نوحہ خوانی جاری تھی ۔ ایسے میں ہمارے رہنمائی کے دعویداروں کا رویہ
انتہائی شرمناک اور قابلِ مذمت تھا۔ ایسے سانحات پر توقو میں متحد ہو جاتی
ہیں لیکن اقتدار کے پجاریوں کو بھلا اِس سے کیا غرض کہ کوئی جیئے یا مرے ۔
اُنہیں تو لاشوں پر اور لاشوں کی سیاست کرنے میں مزہ ہی بہت آتا ہے ۔ کپتان
صاحب نے کہا ’’ ہم جب بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں توکچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے ۔
کرپشن اور دہشت گردی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے ۔ وزیرِاعظم سکیورٹی رِِسک ہیں۔
جو مرضی ہو جائے 2 نومبر کو دھرنا ہو کر رہے گا‘‘۔ ۔۔۔۔ وہ شوق سے دھرنا
دیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اِس دھرنے کا انجام اگست 2014ء کے دھرنے سے بھی
بُرا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ یہ دھرنا اُن کی سیاست کے خاتمے کا باعث بن
جائے اور وہ اصغر خاں کی طرح ماضی کا حصّہ بن جائیں۔
دراصل عمران خاں کو ’’نواز فوبیا‘‘ ہو گیا ہے اسی لیے اُنہیں ہر شے میں
میاں نوازشریف ہی نظر آتے ہی۔ جاوید ہاشمی نے بالکل درست کہا کہ اگر
وزیرِاعظم سکیورٹی رِسک ہیں تو پھر پاکستان کی جنگ کون لڑ رہا ہے ۔ اُنہوں
نے کہا کہ صفِ ماتم بچھی ہے ، پوری قوم سوگوار اور دِل زخمی ہیں لیکن عمران
خاں ذاتی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک پاکستان پیچھے اور اُن کا اقتدار
آگے ہے ۔وہ دھرنا ملتوی نہیں کریں گے ، اپنی پارٹی قربان کر دیں گے ۔
|
|