پاکستان مسلم لیگ کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے
ہمیشہ ایسا طرز سیاست اپنایاہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کی نظر
میں قانون، آئین اور پارلیمنٹ کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ ان کی
تمام فیصلے آئین و قانون سے بالا تر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزراء یہاں تک
کے ارکان پارلیمنٹ قومی و صوبائی اسمبلیوں و سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہ
ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ جب مسلم لیگ ن اقتدار میں ہوتی ہے تو وہ ہر معاملے
میں طاقت کا استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں۔اپنے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کو
ریاستی مشینری کے ذریعے ختم کردینا چاہتے ہیں ۔ لیکن جب مسلم لیگ ن اقتدار
کے ایوانوں سے باہر ہوتی ہے تو وہ ساری دنیا کو آئین و قانون کے معنی اور
اہمیت سمجھاتے نظر آتے ہیں۔ جب مسلم لیگ ن حزب اختلاف میں ہوتی ہے تو ان کو
اچھی طرح جمہوریت میں عوامی حقوق یار رہتے ہیں۔ ان کو یہ یاد ہوتا ہے کہ
جمہوریت میں احتجاج کرنا عوام کا حق ہوتا ہے۔ اس وقت اگر کوئی عوامی احتجاج
کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے تو وہ انھیں ڈکٹیٹر نظرآنے لگتا ہے۔ گزشتہ
دو روز سے جو کچھ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہو رہا ہے وہ مسلم لیگ کی
اسی طرز سیاست اور طرز حکومت کا غماز ہے۔ مسلم لیگ ن اس بات میں بھی ملکہ
رکھتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی خبر کو بہت بڑی خبر بنا دے اور اپنے معمولی سے
حریف کو بہت بڑا لیڈر بنا کر پیش کر دے۔ مسلم لیگ ن نے گزشتہ دو دن میں جو
کچھ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کیاوہ کسی ڈکٹیٹر کی حکومت میں بھی نہیں
ہوتا۔ دوروز قبل تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن میں لاٹھی چارج کرنے کی کیا
ضرورت تھی؟ ایک چھوٹی سی خبر کو اتنی بڑی خبر بنانے کے لئے جو حکمت عملی
اختیار کی گئی وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے اورکسی جمہوری حکومت اور
جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ روز جو حکومت نے شیخ رشید
کے جلسے کو روکنے کے لئے کیا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن
کسی بھی چھوٹے سے اپنے حریف کو بہت بڑا مخالف بنا کر پیش کرنے میں بھی کمال
مہارت رکھتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ اب اسے
کہاں جانا ہے۔ حکومتی طرز عمل سے لگتا ہے کہ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ
اپنے خلاف ہونے والے ہر احتجاج کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال کرے گی۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ احتجاجیوں کے خلاف سخت ترین
کریک ڈاؤن کیا جائے گا اور اس نے یہ بات گزشتہ دو روز میں ثابت بھی کی
ہے۔یہ طے شدہ امر ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا یہ معلوم ہے
کہ اب یہ بات کہاں جا کر ٹھہرے گی۔ جس طرح دو روز سے راولپنڈی اسلام آبا د
نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا کا فوکس رہا ہے اور جس طرح سے تمام نیوز چینلوں
پر مسلم لیگ ن کے حکومت کے طرز عمل کے خلاف ٹاک شوز ہو رہے ہیں وہ کسی اور
ہی بات کا پتہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب کے وزیراعلی میاں شہبازشریف ،
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آرمی چیف
جنرل راحیل شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔ ملاقات کی تفصیلات تو سامنے نہیں آ
سکیں تاہم یہ قیاس کیا جا رہا ہے مسلم لیگ ن نے اپنے مخالفین کے احتجاج کے
حوالے سے اپنے اقدامات پر فوج کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے لیکن اس
حوالے سے کوئی حتمی رائے موجود نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے حکمراں جماعت کے
اقدامات کی تائید کی یا نہیں۔پی ایم ایل این کے وزراء اور منتخب نمائندوں
کے طرز عمل کو دیکھ کر یہ تاثر مضبوطی سے ابھرتا ہے کہ اب مسلم لیگ ن خو
دیہ چاہتی ہے کہ اس کی حکومت قبل از وقت ختم کر دی جائے تاکہ اگلے الیکشن
کے لئے وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکے اور اپنی حکومت کے بقیہ ایک سال کی
قربانی دیکر ہمدردیوں کی بنیاد پر اگلے پانچ سال کے لئے دوبارہ حکومت لے
سکے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے حکومت نے بڑے بڑے وعدے کر لئے ہیں اب
حکومت کو خود وہ وعدے 2018تک پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ خود میاں نواز
شریف کو بھی یہ وعدے پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ لہذا اس صورت حال میں اگر ن
لیگ کی حکومت ختم ہو جائے اور انھیں سیاسی شہادت مل جائے تو میاں نواز شریف
با آسانی دوبارہ اگلے الیکشن میں جا سکتے ہیں اور عوام کے سامنے یہ بات رکھ
سکتے ہیں کہ چونکہ ان کی حکومت قبل از وقت ختم کر دی گئی لہذا انھیں عوامی
خدمت اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے۔ جو کچھ گزشتہ دو روز
سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہوا اور جو کچھ 2نومبر اور اس کے بعد ہو گا
ان حالات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن کو سیاسی خود کشی کرنے کا بھر پور موقع
مل جائے گا۔ خدشہ صرف یہ ہے کہ اس صورت حال کا فائدہ کوئی تیسری قوت نہ
اٹھا لے اور ملک میں جمہوریت کی گاڑی پھر وہیں نہ آ جائے جہاں سے ستر سال
پہلے چلی تھی۔ |