ملک بھر میں سیلاب کی تباہ
کاریاں جاری ہیں، ہر طرف تباہی و بربادی کی داستانیں بکھری ہوئی ہے، اِس
وقت ملک کے بہت سے شہر، قصبے اور دیہات زیر آب آچکے ہیں،رابطہ پل اور سڑکیں
تباہ ہوچکی ہیں، ہزاروں گھر بہہ چکے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں قیمتی جانور
اور کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، کاروبار اجڑ گئے ہیں، لاکھوں متاثرین کھلے
آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں،اکثر متاثرہ علاقوں میں قحط کی سی کیفیت
پیدا ہوگئی ہے اور سیلاب سے ہلاک ہونے والی انسانی جانوں کی تعداد ہزاروں
میں پہنچ چکی ہے،میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈوبتے بہتے خوفناک مناظر ہر دل
کو دہلا رہے ہیں،کہیں معصوم بچوں کو سینوں سے لگائے مائیں مایوس آنکھوں سے
اپنے گھروں کو ڈوبتے دیکھ رہی ہیں تو کہیں لوگ اپنے پیاروں کو سیلاب کی
لہروں میں سوکھے پتوں کی مانند بہتے دیکھ کر بے بسی سے ہاتھ مل رہے،آہ و
بکا کررہے ہیں،وہ لوگ جو کل تک امن و آشتی کے ساتھ اپنے گھروں اور خاندانوں
کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے آج حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے
امداد کے منتظر ہیں،حقیقت یہ ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرین آج جس مشکل
میں گرفتار ہیں،انہیں لفظوں کی شکل دینا بہت ہی مشکل اور کٹھن کام ہے،ایک
محتاط اندازے کے مطابق حالیہ سیلاب اور بارش سے پورے ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے
زائد آبادی متاثر ہوئی ہے،بے گھر ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں حکومت
درست اندازہ لگانے میں ناکام ہے جبکہ
کاروبار،باغات،کھیتوں،سڑکوں،پلوں،تعلیمی اداروں،بجلی اور مواصلات کے دیگر
ذرائع کو پہنچنے والا نقصان اِس کے علاوہ ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو موجودہ تاریخ کے ایسے بدترین سیلاب
کا سامنا ہے جسے اقوام متحدہ نے حالیہ سونامیوں سے بھی زیادہ تباہ کن قرار
دیا ہے،اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرین کی تعداد بحر ہند
کی 2004 کی سونامی،2005 کے کشمیر کے تباہ کن زلزلے اور 2010 کے ہیٹی میں
آنے والے زلزلے کے سارے متاثرین سے بہت زیادہ ہے، اندازہ یہ ہے کہ اس
سیلابی آفت سے ڈیڑھ کروڑ لوگ سے زائد متاثر ہوئے ہیں،جن کی بحالی کیلئے
اربوں ڈالرز درکار ہوں گے،اس سیلاب میں اب تک ڈھائی ہزار سے زائد افراد
اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،اس کے علاوہ مویشیوں کی ہلاکت، گھروں،
پلوں اور سڑکوں کی تباہی کا اندازہ لگانا فی الحال بہت مشکل
ہے،کپاس،چاول،گنا،سبزیوں اور پھلوں کی فصلیں تباہ و برباد ہو گئی ہیں، ایک
ایسے ملک،جس میں پہلے ہی تقریباً 8 کروڑ لوگ خوراک کی کمی کا شکار
تھے،خوراک کی مزید کمی واقع ہو گئی ہے۔
لیکن اِس المناک صورتحال میں جہاں ایک طرف قوم پاکستان کی تاریخ کی بدترین
قدرتی آفت میں مبتلا بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے بیٹھے امداد کے منتظر
ہے وہیں دوسری طرف افسوسناک طرز عمل یہ ہے کہ ہمارے قومی قائدین ایک دوسرے
کو نیچا دکھانے کیلئے سیاسی بیان بازی میں مصروف اور حکمران بیرونی دوروں
پر کمر بستہ ہیں،یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس بڑی آزمائش اور مشکل میں
سیاسی جماعتوں کا کردار قومی تقاضوں کی نفی کر رہا ہے اور عوامی نمائندگی
اور حقوق کی علمبردار یہ سیاسی جماعتیں نمبر گیم میں اس بری طرح الجھی ہوئی
ہیں کہ ان کے پاس عوام کی داد رسی اور دل جوئی کے لیے وقت ہی نہیں ہے،قومی
قائدین کے اِن رویوں کی وجہ سے ابھی تک وہ قومی جوش و جذبہ سامنے نہیں آسکا
جس نے8اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں پوری قوم کو متحد و یک جان کردیا تھا اور
لوگ اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار
تھے،اِس شرمناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے امدادی ادارے کے سربراہ میجر
جنرل ندیم کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کی تباہی 2005ء کے زلزلے سے کئی گنا
زیادہ ہے،لیکن اِس کے باوجود نہ تو قوم میں وہ جذبہ بیدار ہوا ہے اور نہ ہی
ہمارے قائدین اپنی سیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سیلاب
زدگان کی مدد کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ سیلاب،زلزلے،طوفان،بارشیں اور قدرتی آفات قوموں کیلئے امتحان
ہوتی ہیں لیکن اِن امتحانوں میں وہی قومیں، معاشرے اور ملک کامیاب ہوتے ہیں
جن کے اندر اتحاد،یکجہتی اور اپنے لوگوں کا درد موجود ہوتا ہے،اگر قوم کے
اندر جذبہ انسانیت، اتحاد و یکجہتی اور قوم کے قائدین اپنے مفادات سے
بالاتر ہوکر آگے بڑھنے کا جذبہ ہو تو بڑے سے بڑے امتحان میں کامیابی حاصل
ہوسکتی ہے،لیکن ہماری بدقسمتی یہ کہ ہمارے قائدین اپنے سیاسی مفادات کے
دائروں سے باہر نہیں نکلتے،اسی وجہ سے آج اِس طوفان بلاخیز میں ہمارے قومی
قائدین سیاسی بیانات،بیرونی دوروں اور فضائی جائزوں سے نکل کر عملی طور پر
ابھی تک سیلاب زدگان کے دکھوں اور مشکلات کا مداوا کرتے نظر نہیں آرہے،وہ
تو صرف سیاسی بیانات اور لایعنی دعوﺅں کے ذریعے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں
اضافہ کرنے کے خواہشمند ہیں،حال یہ ہے کہ حکمرانوں کا حکمرانوں سے مناظرہ
چل رہا ہے اور اُن کے حواری اپنے رویوں سے ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ مورچہ
زن ہیں،اس صورتِ حال کا اثر ہر طرف نظر آ رہا ہے،وفاق میں پیپلز پارٹی ہے
اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکمرانی ہے،تخت لاہور کی لڑائی میں ان دونوں
اتحادیوں کو قطعی فکر نہیں کہ یہ وقت کیا ہے،قوم کس ابتلاء اور آزمائش سے
گزر رہی ہے اور ہمیں اِس سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہیے ۔
انہیں فکر یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ کس طرح سکور کیے جائیں،پیپلز
پارٹی کی مہم جوئی پر مامور وفاقی وزراء کہہ رہے ہیں کہ تخت لاہور سارے
وسائل لاہور پر صرف کر رہا ہے،لندن کی جائیدادیں بیچ کر پنجاب کے سیلاب
زدگان کی مدد کیوں نہیں کرتا،کوئی برطانیہ کے دوروں کا حساب رکھ رہا ہے تو
کہیں برطانیہ جانے کا معاملہ زیر بحث ہے،ق لیگ کہہ رہی ہے کہ خادم اعلیٰ
فوٹو سیشن کرا رہے ہیں،خادمِ اعلیٰ فرما رہے ہیں کہ ق لیگ کے دور کے ناقص
کاموں کی وجہ سے تباہی کا حجم بڑھ گیا ہے اور پل اور سڑکیں سیلابی ریلوں کا
سامنا نہیں کر سکے،جن وفاقی وزیروں کا میاں برادران سے مطالبہ ہے کہ لندن
کی جائیدادیں فروخت کر کے سرمایہ سیلاب زدگان پر خرچ کریں،اُن سے ہماری
گزارش ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ اور لندن کے بینکوں میں پڑے قوم کے کروڑوں ڈالر
واپس پاکستان منتقل کرادیں،قوم اُن کی احسان مند ہوگی،اصل معاملہ یہ ہے کہ
ہمارا شمار اُن قوموں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی رہنماء لاشوں پر بھی سیاست
چمکاتے ہیں اور مصیبت کی گھڑی میں بھی صرف سیاسی مفادات حاصل کرنے سے نہیں
چوکتے۔
قارئین محترم اِس تناظر میں آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام حکومتی
عہدیداروں،امدادی ٹیموں،سماجی اور تاجر تنظیموں سمیت ہر عام آدمی کو متحد و
منظم ہوکر سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور انہیں ایک نئی زندگی شروع
کرنے میں مدد دینے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا،لیکن یہ کام اُس
وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاسکتا جب تک حکومت اور عوام ملکر اِس
کام کو سرانجام نہ دیں،اِس وقت مملکت خداداد انتہائی نازک دور سے گزر رہی
ہے،یہ وقت سیاست کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے،ملک کی
اقتصادی حالت جو پہلے ہی دہشت گردی کی وجہ سے تباہ حال ہے،آنے والے سیلاب
نے مزید تباہ کرکے رکھ دی ہے،ایسی نازک حالت میں صرف ایمان اتحاد اور تنظیم
ہی ہمیں اعتماد و یقین کا راستہ دکھا کر ہمت استقامت اور ثابت قدمی کی دولت
فراہم کر سکتا ہے،آئیے اپنے قومی جوش و جذبے کو بیدار کریں، کیونکہ لاکھوں
سیلاب زدگان کو ہماری مدد اور ہمدردی کی ضرورت ہے،ہزاروں بھوکے،پیاسے اور
بے یارومددگار لوگ ہماری مدد کے منتظر ہیں،اِس نازک وقت میں ہمیں اپنے تمام
تر اختلافات کو بھلا کر اور اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر
آگے بڑھ کر اپنے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا ہوگی، اُن کے دکھوں کا مداوا
کرنا ہوگا اور زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا،یاد رکھیں اگراِس قیامت خیز گھڑی
میں ہم نے کوئی کمزوری دکھائی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ہم
کبھی بھی قدرت کی گرفت و عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ |