کوئی کچھ بھی کہے ،لیکن شیخ رشید نے یہ
ثابت کیا ہے کہ وہ عمران خان سے زیادہ سیاسی بصیرت،جراء ت اور فراست رکھنے
والا سیاست دان ہے۔مجھے یقین ہے اٹھائیس اکتوبر کوشیخ رشیدکو اپنی جوانی
یاد آگئی ہوگی ۔وہ اپنے وعدے کے مطابق پورے شہر کی پولیس کو جُل دے کر
کمیٹی چوک پہنچے ، ہیرو کی طرح ٹی وی چینل کی گاڑی پر بیٹھ کر ٹی وی
سکرینوں پر نمودار ہوئے ،سگار سے لطف اندوز ہوئے ، میڈیا پر خطاب فرمایا
اور ایک بار پھر پولیس کو جُل دے کر غائب ہوگئے ۔راولپنڈی کے کمیٹی چوک اور
لا ل حویلی کے اطراف سارا دن آنکھ مچولی جاری رہی اور شیخ رشید شہر کی تنگ
گلیوں اور سڑکوں سے ٹی وی کی سکرینوں پر نمودار ہوتے رہے۔عوامی سیاستدان
ایسا ہی ہوتا ہے ،لیکن کہیں کہیں لگتا ہے کہ پولیس بھی ایک حکمت عملی کے
تحت ان کو گرفتار کرنے کے موڈ میں نہیں تھی کیونکہ قانون نافذ کرنے والے
اداروں نے بھی پنجابی کہاوت ــ’’مارے نالوں نسایا چنگا‘‘ (مارنے سے بہتر ہے
بھگا دو)کے مصداق خودکوچھوٹی موٹی گرفتاریوں تک محدود رکھا۔لیکن اس سارے
منظر سے عمران خان بالکل غائب رہے۔ اپنی خود ساختہ نظر بندی کے دوران انہوں
نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا ۔ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق
ان کی پریس کانفرنس کے وقت بنی گالا کے محل کے آس پاس تحریک انصاف کے
تقریباََ دو سو کے قریب کارکن موجود تھے ۔لیکن ’’ہرصورت ‘‘ کی گردان کے
باوجود انہوں نے کمیٹی چوک پہنچنے کی ایک بھی سنجید ہ کوشش نہ کی ،حالانکہ
وہ چاہتے تو لانگ مارچ یا پنجاب یونیورسٹی کی طرح اچانک کسی خفیہ پویلین سے
نمودار ہو سکتے تھے۔ پکڑ دھکڑ کی خبریں تھیں یا شائدکسی پرانے دوست کا
مشورہ کہ عزت بچانی ہے تو گھر سے مت نکلنا ، وہ حقیقتاََ بنی گالا کے محل
سے باہر نہیں نکلے ۔
محترمہ نصرت بھٹو یاد آتی ہیں جنہوں نے لہو لہان ہونا گواراکیا لیکن
کارکنوں کے درمیان رہیں اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو ،اگر میں بھول نہیں رہا
تو ایک وقت میں پولیس کے ڈنڈوں سے ان کو بچانے والوں میں سابق صدر فاروق
خان لغاری بھی شامل تھے ۔محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے کل اپنے والد کی کچھ
تصویریں شیٔر کی ہیں،یہ غالباََ انیس سو چھیانوے کی تصاویر ہیں جب قاضی
حسین احمد نے پارلیمنٹ سے استعفے دیئے اوربینظیر حکومت کے خلاف سڑکو ں پر
نکل آئے ،اگر میں بھول نہیں رہا تو پاکستانی سیاست میں دھرنے کی اصطلاح سب
سے پہلے قاضی صاحب نے ہی متعارف کرائی تھی ۔اس دھرنے اور اس وقت کے وزیر
داخلہ نصیر اﷲ بابر کے کنٹینروں کے درمیان لی گئی تصاویر میں قاضی صاحب کو
پولیس ڈنڈا ڈولی کر کے لے جارہی ہے اور جماعت کے کارکن بھی ان کے ارد گرد
ہی موجودہیں ۔ احتجاج کی قیادت اگر رہنما خود نہ کرے تو وہ کبھی کامیا ب
نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات اور عمران خان کے رویے کو دیکھتے ہوئے میں یقین سے
کہہ سکتا ہوں کہ تحریک انصاف کے اس دھرنے سے حکومت کا کچھ بگڑنے والا نہیں
بلکہ ان کا یہ دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے۔ بینظیر بھٹو کی
زندگی تک توپیپلزپارٹی کے پاس تو شاہد ہ جبیں اور ساجدہ میرجیسی کارکن
خواتین موجود تھیں لیکن اس کے مقابلے میں آج تحریک انصاف کوصرف سماویہ طاہر
جیسی نازک ’’دانشور رہنما‘‘ ہی میسر ہیں جو پولیس کو پتھر مارنے کی کوشش
کرتے اور خاتون پولیس آفیسر پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے
بعد روہانسی ہو کر میڈیا والوں کوہی تبلیغ کرتی ہیں کہ ان کے گناہوں کے
کارن قوم پرایسے حکمران مسلط ہیں۔خود کو فوجی کی بیٹی بتا کر فوج کا پیغام
دینے والی بھول گئی کہ اس کی جماعت تو قانون کی حکمرانی کی علمبردار ہے اور
ملک میں رائج قانون کے تحت فوج حکومت کا حصہ ہے۔ جب کارکن بھی ایسے ہوں اور
رہنما بھی خود ساختہ نظر بند تو پھر تبدیلی کا خدا حافظ۔
عدالت اکتیس اکتوبر کو کیا فیصلہ سناتی ہے،کس کو سچا کس کو جھوٹا قراردیتی
ہے اس بارے قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں لیکن ایک فیصلہ عدالت سنا چکی کہ
اسلام آبادکی انتظامیہ کنٹینر لگا کر شہر کے باسیوں کو اذیت میں مبتلا نہ
کرے اور نہ ہی تحریک انصاف غیر قانونی طور پرحکومتی ادارے ،شہر کے راستے ،
سکول یاکاروباری مراکز بند کرانے کی کوشش کرے ۔ لیکن ایک بات واضح طو ر پر
نظر آرہی ہے کہ اسلام آبادہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو
قانون کی تابعداری پر مجبور ہونا پڑے گا،سپریم کورٹ بھی شائد تحریک انصاف
کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ عمران خان کے اعلان کے مطابق اسلام آباد کو
بند کرانے کی معمولی کوشش بھی کرے ،اس لئے شائد تحریک انصاف کو اپنا دھرنا
پریڈ گراؤنڈیا کسی اور جگہ محدود کرنا پڑے گا۔ اٹھائیس اکتوبر کے احتجا ج
میں ایک ننھی جان کا نقصان ہم کر چکے لیکن مزید لاشوں سے ہمیں پرہیز کرنا
چاہیے کہ اس قوم کے کندھے لاشوں کو اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں ۔لوگوں کو
جینے دیجئے،ان کی زندگی میں آسانیاں پید اکیجئے،ان کے چہروں پر مسکان
بکھیرنے کی کوشش کیجئے ،بند کرنا ہے تو ان کی زندگی میں بھوک،بیماری ،
جہالت اور غربت کے دروازے کو بند کیجئے۔اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ قانون
پر عمل کو یقینی بنائیے ، قانون اگر مناسب نہیں تو یہ کوئی آسمانی صحیفہ
نہیں ،قانون بدلتے رہتے ہیں اور آئین بھی، لیکن مہذب دنیا میں اس کا ایک
رائج طریقہ ہے،عوام کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ اپنے ساتھ ملائیے ،قانون کے
مطابق ووٹ لیجئے اور قانون کو بدل ڈالیے۔ یقین کیجئے اس قوم کو کوئی ایسا
رہنما میسر آگیا تو وہ موت کے دروازے اس کیلئے بند کر دے گی۔ جسمانی موت سے
تو کوئی بچ سکا ہے نہ بچے گا لیکن اس قوم نے اقبال اور قائد کو مرنے نہیں
دیا اس لئے کہ یہ قوم قانون کی حکمرانی اور جمہور کی جدوجہد میں ان کی پاک
دامنی اور اخلاص پر رتی بھر شک نہیں کرتی ۔پاکستان کو اقبال اور قائد کی
بصیرت کے مطابق ایک فلاحی ریاست بنانا ہے تو اس کا راستہ صرف اور صرف قانون
اور جمہور کی عمل داری میں ہے ۔لیکن اگر! آپ قانون کی بالادستی کے نام پر
قانون کو ہاتھ میں لینا چاہیں گے تو یقین کیجئے آپ کو عوامی حمایت میسر
نہیں آئے گی۔دوسری طرف ریاست کی عمل داری کے لئے حکومت اپنے اقدامات میں
بجا ہوگی لیکن اسے بھی سوچنا تو چاہیے کہ ایک سو چوبیس دن دھرنے کے بعد بھی
عمران خان نے اسمبلی میں ہی آنا ہے اور پھر بے شرمی اور بے حیائی کے طعنے
سننے ہیں تو کچھ دن اور کے دھرنے سے حکومت کا کیا بگڑے گا؟؟ |