طاقت نہیں ہوش سے کام لیں

جمہوری حکومتیں اپنی کرپشن، بد بودار رویوں، عوام پر مہنگائی کے مظالم اور دیگر زیادتیوں کی بدولت سول مارشل لاء کے گرداب میں پھنس جاتی ہیں اوراپوزیشن میں ہوتے ہوئے الزام تراشیوں پر اتر آتی ہیں کہ ہمیں تو پوری طرح کام نہیں کرنے دیا گیا۔ جب یہی بھولے بھالے معصوم قانون کے دشمن اپنی حکومت نما آمریت کو بچانا چاہتے ہیں تو طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ مختلف دفعات اور تعزیرات کے ذریعے پکڑ دھکڑاور پابند سلاسل کر کے انتقام کی سیاست کو ہوا دیتے ہیں۔مسلم لیگ (ن)اپنی حکومت میں رول آف لاء اور مارل اتھارٹی کا استعمال خوب جانتی ہے ۔ عدلیہ اور اسکی چادر چار دیواری سے لیگی حکومت کا گہرا رشتہ ہے۔اسی لیے خوف زدہ ہو کر کورٹ آرڈرز کوجارحانہ انداز سے ہوا میں اڑا دیے جس سے عدلیہ کے وقار کی دھجیاں اڑگئیں۔بہرحال عدالتی حکم کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت نے سیکشن 144 کی آڑ میں ایف سی اور اسلام آباد پولیس لگا کر نہ صرف پی ٹی آئی ورکرز کنونش کا تیا پانچا کیا بلکہ کارکنوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھیجا گیا۔ خواتین کارکنوں سے انتہائی بد تمیزی کی گئی اورانہیں یہ بتانے پر مجبورکیاگیا کہــ’’ میں ایک فوجی کی بیٹی ہوں میں تمہیں دیکھ لوں گی‘‘ ۔ وزیر داخلہ کے اس اقدام سے نہ صرف اسلام آباد کا سیاسی پارہ چڑھا بلکہ انکی ہم خیال و ہم آہنگ پیپلزپارٹی نے بھی اسے حکومتی دہشتگردی اور ناسمجھی قرار دیا۔ بلاول بھٹو اورسراج الحق جو اس وقت حکومت کو کسی حد تک’’ سیف سائیڈ ‘‘دے رہے ہیں ،انہوں نے بھی سخت غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ریاستی جبر، انتقامی سیاست اور جمہوریت کے منافی قرار دیا۔یہ بات گوش گزار رہے کہ جب جب کسی حکومت نے آمر کی مخالفت کر کے اپنی حکومت میں حسنی مبارک، قذافی ماڈل یا سیلف سٹائل کو نافذ کرنے کی کوشش کی تووہ حکومتیں نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی کیساتھ رخصت ہوئیں اور موجودہ حکومت تو انتقامی سیاست کے حوالے سے مشہور و معروف ہے جوکہ اچھا وطیرہ نہیں ہے اور نہ ہی فی الوقت ہٹ دھرمیوں کا متحمل ہو سکتا ہے۔
پانامہ لیکس اور کرپشن کی راگ الاپنے والی اور خودکو کسی دیوتا کے منصب پر فائز سمجھنے والی پاکستان تحریک انصااف 2 نومبر کو بڑ ا سیاسی اکٹھ کرنے جارہی ہے۔اسکا خیال ہے کہ شہراقتدار پر قبضہ کر کے حکومت کے ایوانوں میں بیٹھا جا سکتاہے ۔ سوچ پرانی ہے یعنی عمران خان کے پچھلے دھرنے میں بھی طاقت کے بل بوتے حکومت کو کچلنے کو کوشش کی گئی اور دعوے کیے گئے کہ حکومتی مشینری کو نیست و بابود کر دیا گیا ہے اور اب بہت جلد عوام کرپشن سے چھٹکار اپائیں گے ۔ لیکن عمران خان کی نا سمجھی اور کم فہم و فراست کی بدولت مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر عوام کے سامنے سرخرو ہوئی۔ کم و بیش دو سال بعد اب خان صاحب پھر سے لاک ڈاؤن اور قادری صاحب ناک ڈاؤن کا واویلا کر کے حکومت کی کرپشن کی قلعی کھولنا چاہتے ہیں لیکن اپنے پچھلے دھرنے کی طرح اس بار عمران خان کی نہ تو کوئی واضح پالیسی ہے،نہ ہی کوئی عوام سطح کا پروگرام ہے اور نہ عوام کو اعتماد میں لیا گیا ۔عمران خان کی پوزیشن کچھ کلئیر نہیں ہے کہ وہ آکر کیا کرنا چاہتے ہیں کس آلہ دین کے چراغ سے عوام کو خوشحال کرینگے؟حقیت حال یہ ہے کہ 28 اٹھائیس اکتوبر کو ہمیں عمران خان سے زیادہ ’’ورتھ‘‘ شیخ رشید کی لگی کہ جیسے بڑے لیڈرز حکمومتی اداروں کو چکمے دیکر اپنے دیے ہوئے وقت پر کسی طرح بھی پہنچ جاتے ہیں ۔شیخ رشید نے بھی ثابت کر دیا کہ وہ کم از کم عمران خان سے بڑ الیڈر ہے ، عوامی مقبولیت بھی رکھتا ہے اور اپنے کارکنوں کے لیے جان بھی دے سکتا ہے ۔کھلاڑی ،حقیقی کھلاری اور سپورٹس مین سپرٹ کا دعویدار ہوتے ہوئے بھی نہ تو کمیٹی چوک پہنچ سکا اور نہ اپنی قیادت میں سے کسی کو وہاں بھیج سکا۔ دو نومبر کو پی ٹی آئی کے جلسے میں شیخ رشید پہنچ کے دیکھائے گا۔پی ٹی آئی کے ورکز کنونشن کے موقع پر بھی وہاں پر موجود برگر سٹائل فیملی اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے وہاں سے دم دبا کر بنی گالا بھاگنے میں عافیت گردانی۔

صرف تقریروں اور چرب زبانی سے عوام کے جذبات ابھارنے سے ملک و قوم کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں بلکہ خودریلی اور دھرنے میں کارکنوں ساتھ سیاسی جدوجہد کامقابلہ کر کے ہی کچھ حاصل حصول ہوتا ہے۔ لگتا ہے جیسے پاکستان تحریک انصاف ٹریلر میں ہی بری طرح فلاپ ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی ہنگامی اور احتجاجی تحریک اورپولیٹکل سٹریٹ جی تو کمال کی ہے کہ جس دن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرتے ہیں توپی ٹی آئی کی ساری سینئر قیادت خود کو صلاح مشورو ں کے لیے خان کی قید میں بنی گالہ جمع ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی سیاسی جماعت کم جوشیلا گروپ زیادہ لگتی ہے جسکا واضح مطلب پی ٹی آئی کا سیاسی محازوں پر خودکو ایکسپوز کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کورول آف لاء، اصلاحات ، ظلم سے چھٹکار ا، کرپشن کے خلاف حقیقی آوازاور تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل کے حل کو اپنی تمام تر تحریکوں کا مرکز و محور بنانا چاہیے کیونکہ اگلے ڈیڑھ سال میں حکومت کا تختہ الٹنا ممکن ہی نہیں ناممکن ہے ۔ پی ٹی آئی کبھی بھی جماعت اسلامی ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)جیسی احتجاجی سیاست کرسکتی ہے اور نہ ہی اسکی متحمل ہو سکتی ہے۔تحریک انصاف کو قومی و ملکی معاملات پر حکومت کو دباؤ میں ڈالنا چاہیے نہ کے اپنی کرسی کے لیے حالات کو قابو سے باہر کرنے کے لیے زور لگانا چاہیے۔حکومتی طرز عمل اور پالیسیوں پر اعتراض اور احتجاج درست امر ہے مگر ایسے میں فرعونی سوچ دماغ میں لاکر بہرصورت حکومت کو ڈاما ڈول کرنا غلط سوچ ، غلط رویہ اور غلط حکمت عملی ہے۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ احتجاج کے راستے میں کوئی رخنہ و رکاوٹ نہ ڈالے اور اپنی گردن سے سریا نکال کراور اپنے چیلوں کو بیان بازی سے روک کر عدالتی فیصلوں کا احترام بھی کرے اور کرپشن کے خلاف ایک جانداز کمیشن بنا کر جمہوری عمل اور جمہوریت کی بقاء کے لیے کوشاں رہے۔ دفعہ 144، مٹی کی پہاڑیوں کے ذریعے موٹروے کو بند کرنا، کینٹینرز لگا کر شہر سیل ڈاؤن کرنا وغیرہ سے حکومت کے ڈی ریل ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں اورپولیٹیکل موومنٹ کو کرش کرنے کی سوچ بھی خطر ے سے خالی نہیں ہے۔
 
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.