امید کی علامت

وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کا استعفی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔یہ ایسا دھماکہ ہے جس نے حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیاہے۔پوری حکومت اس فیصلے سے سکتے میں ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔پرویز رشید حکومت کے موقف کو جس زور دار انداز میں پیش کرتے تھے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔پرویز رشید عمران خان کے بیانات پر جس طرح کھل کر اظہارِ خیال کرتے تھے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ان کے اندازِ سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نواز حکومت کے اہم وزراء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ہر پاکستانی کو علم ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے فوج اور حکومت کے درمیان ایک اہم حکومتی اجلاس کی کاروائی کا ڈان اخبار میں چھپ جانا تنازع کا باعث بنا ہو ا تھا۔ڈان کے رپورٹر المیڈا نے قومی سلامتی پر منعقدہ اجلاس کی کاروائی کو ڈان اخبار کی زینت بنا ڈالا جو انتہائی خفیہ تھی۔ ستم یہ ہوا کہ وہ خبر قومی سلامتی سے تعلق رکھتی تھی ور انتہائی حساس تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ کون تھا جس نے یہ خبر ڈان اخبار کے رپورٹر تک پہنچائی تھی؟وہ میٹنگ جس میں ملکی سلامتی کے حوالے سے گفتگو ہوئی تھی اس میں حکومت،فوج اور سیکورٹی اداروں کے انتہائی ذمہ دار افراد شریک تھے جن سے اس طرح کے کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ خبر کو لیک کرکے دشمن کو خوش ہونے کا موقعہ دیں گے ۔بہر حال ملکی سلامتی کی خبر اخبار ی رپورٹر کے حوالے کی گئی جس پرعسکری قیادت کا بر انگیختہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔دو دن قبل پنجاب کے وزیرِ اعلی میاں شہباز شریف،وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد نے جنرل راحیل شریف سے ان کی رہائش گاہ پرملاقات کی اور اس مسئلہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا عندیہ دیا۔حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے وزیرِ دفاع جنرل راحیل شرف کے گھر نہیں گئے حالانکہ وزیرِ دفاع ہونے کے ناطے ان کا اس ملاقات میں ہو نا انتہائی ضروری تھا ۔ان کی غیر حاضری اس بات کا عندیہ دے رہی تھی کہ ان کے عسکری قیادت سے تعلقات کشیدہ ہیں۔اس بات کا رونا تو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اکثر روتے رہتے ہیں کہ وزیرِ دفاع جی ایچ کیو نہیں جا سکتے لیکن جب جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں انھیں غیرحا ضر پایا توعوام سمجھ گے کہ شیخ رشید کی بات میں دم خم ہے۔در اصل وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کئی سال پہلے قومی اسمبلی میں جو دھواں دھار تقریر کی تھی اس تقریر نے فوجی قیادت کے دل میں ان کے بارے میں نفرت کو جگہ دے رکھی ہے۔وہ تقریر واقعی انتہائی ناقص،گھٹیا اور بے سرو پا تھی۔اپنی ہی فوجی قیادت پر جس بھونڈے انداز میں الزامات کی بوچھاڑ کی گئی تھی وہ قابلِ مذمت تھی ۔اس تقریر نے خواجہ محمد آصف کے لئے جی ایچ کیو کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کر دئے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ جی ایچ کیو میں وزیرِ دفاع کا داخلہ ممنوع ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ کیسا وزیرِ دفاع ہے جو جی ایچ کیو نہیں جا سکتا اور اپنی فوجی قیادت کے سامنے بیٹھ کر بات نہیں کر سکتا؟اگر چہ کئی دنوں سے چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ قومی سلامتی کے اس ایشو پر کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا تا کہ عسکری قیادت کو مطمئن کیا جا سکے اور پرویز رشید کاا ستعفی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیایہ آخری استعفی ہے یا کئی دوسرے استعفی بھی اس کی پیروی کریں گئے۔وزیرِ داخلہ نے بھی استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ خواجہ محمد آصف کا استعفے بھی خارج از امکان نہیں ہے۔شائد اسی تناظر میں خواجہ آصف دبئی روانہ ہو گئے ہیں تا کہ انھیں خفگی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔،۔

پانامہ لیکس میں میاں محمد نواز شریف کے خا ندان کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے عمران خان نے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے۔اس سلسلے میں دو نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے تا کہ حکومت کے خلاف عوامی قوت سے میاں محمد نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ہر جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں کسی بھی اہم ایشو پر عوام کی حمائت سے حکومت ٹف ٹائم دیتی ہیں تا کہ حکومت قومی دولت کا بے دریغ استعمال نہ کر سکے۔اس سلسلے میں ۲۸ اکتوبر کو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے لال حویلی میں ایک جلسے کا اعلان کر رکھا تھا جس میں عمران خان کی شرکت متوقع تھی۔حکومت نے اس جلسے کو روکنے کیلئے انتہائی سخت اقدامات اٹھا ئے اور پورا ملک کنٹینروں سے بند کر دیا جس سے پورے ملک میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔سیکورٹی فورسز نے لال حویلی پر قبضہ کر لیا گیا اور اس کے باہر کنٹینر لگا کر اسے پورے ملک سے کاٹ دیا تا کہ عوامی مسلم لیگ کے جلسہ کا انعقاد نا ممکن ہو جائے ۔جلسہ تو نہ ہوا لیکن اس سے یہ ضرور ہوا کہ را و الپنڈی کنٹینروں سے بند ہو گیا جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔شیخ رشید کسی نہ کسی طرح سے پولیس کو چکمہ دے کر جلسہ گاہ پہنچنے میں کامیاب ہو گے حالانکہ وہاں نہ تو سامعین تھے اور نہ ہی کوئی جلسہ تھا کیونکہ لال حویلی کے سارے راستے بند تھے۔اس جلسے میں عمران خان کی شمولیت کو روکنے کے جس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گے وہ انتہائی شرمناک تھے۔ ہزاروں پولیس والوں کی تعیناتی سے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ کو سیل کر دیا گیا جس سے حکومت کی نیک نامی پر سوالات اٹھنے شروع ہو گے۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لہذا وہ توڑ پھوڑ اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے پر یقین نہیں رکھتے۔اس بات کوتحریکِ انصاف کے ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنونی پر امن اور جمہوری جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں اور ناچ گانے سے دل بہلاتے ہیں ۔ جلسوں میں خواتین کی شرکت اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے کہ تحریکِ انصاف ف کے جلسے بڑے رنگین ہوتے ہیں۔میک اپ میں لشکی پشکی خواتین جلسے کی رونق کو دوبالا کر دیتی ہیں اور پھر ان کی موجودگی میں توڑ پھور کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔جنونی ہلہ گلا ضرور کرتے ہیں لیکن توڑ پھوڑسے دور رہتے ہیں کیونکہ وہ تو جلسوں میں لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں۔عمران خان کی کرشماتی شخصیت انھیں جلسے میں تو لے آتی ہے لیکن اس شرکت سے ان کا مدعا کسی بھی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں ہوتا۔جب ایسی صورتِ حال ہو تو پھر یہ بات فہم و ادراک سے بالا تر ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے کنٹینرز سے پورا ملک بند کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟۔پچھی دفعہ۱۲۶ دنوں کے تاریخ ساز دھرنے میں بھی تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے قومی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ جہاں تک دھرنے یا لانگ مارچ کا تعلق ہے تو یہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔پی پی پی ہو ،جماعت اسلامی ہو یا مسلم لیگ (ن) ہو سب نے اپنے اپنے وقت میں حکومت کو گرانے کے لئے لانگ مارچ اور دھرنوں کا استعمال کیا تھا ۔یہ الگ بات کہ ان کے دھرنوں سے نہ تو حکومت تبدیل ہو ئی اور نہ ہی کوئی سیاسی تبدیلی رونمائی ہوئی۔تازہ ترین دھرنا میاں محمد نواز شریف کا تھا جس میں انھوں نے اسلام آباد کی جانب چڑھائی کی تھی اور ججز کو بحال کروا کے دم لیا تھا۔چوہدری افتخار محمد چوہدری اسی لانگ مارچ سے بحال ہو ئے تھے اور پھر انھوں نے پی پی پی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا تھا وہ پی پی پی کبھی فراموش نہیں سکتی۔سید یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمی سے چھٹی بھی اسی لانگ مارچ سے بحال ہونے والے افتحار محمد چوہدری کے فیصلے سے ممکن ہو ئی تھی۔۲۸ اکتوبر کو پکر دھکڑ اور کنٹینرز سے راستوں کی بندش سے حکومت کوجو نقصان پہنچا ہے وہ اس جلسے کے انعقاد سے کہیں زیادہ ہے جسے حکومت روکنا چاہتی تھی۔وہ جلسہ تو نہیں ہوا لیکن حکومت کی جو بدنامی ہو گئی ہے اس سے وہ کیسے سنبھلے گی؟عمران خان اب بھی بنی گالہ میں زیرِ حراست ہیں اور بنی گالہ جانے واے سارے راستے بند ہیں لیکن اس کے باوجود عوام پہاڑوں کا سینہ چیر کر بنی گالہ پہنچ رہے ہیں ۔ایک طرف پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانیں ہیں،ایک طرف مسلح پولیس کا پہرہ ہے،ایک طرف آنسو گس کے شیل ہیں،ا یک طرف لاٹھی چارچ ہے لیکن ان ساری مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود عوام کا حوصلہ بلند ہے لہذا حکومت کو سمجھ جانا چائیے کہ عوام کا موڈ بدل چکا ہے۔عوام عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ کر اس سے کرپشن کے خا تمے کی امیدیں وابستہ کر چکے ہیں۔ امید جاگ جائے تو پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔عمران خان اس وقت امید کی علامت ہیں اور نھیں روکنا حکومت کے کے بس کی بات نہیں ہے۔،۔،۔،۔،۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.