یہ مضمون جب تک آپ تک پہنچے گا نہ جانے ملک
کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہوں گے۔ تبدیلی آتی ہے یا نہیں آتی، یہ تو وقت
ہی بتائے گا۔ عمران خان صاحب اپنے ایجنڈے پر کس حد تک کام یاب ہوتے ہیں یا
نہیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو میں نے اُس وقت لکھے تھے جب عمران خان صاحب نے آخری
دفعہ دھرنا دیا تھا۔ چوں کہ میڈیا نے اس دھرنے کو بہت زیادہ کوریج دی تھی
اور پہلی بار ملک کی تاریخ میں ہونے والے سیاسی تصادم اور عوامی طاقت کو
براہ راست ٹی وہ کے ذریعے گھر بیٹھے عوام بھی دیکھ رہے تھے، تو ایک عجب
کیفیت تھی کہ نہ جانے کیا ہوگا۔ بہرحال تصادم بھی ہوا۔ بیانات دیے گئے۔
سیاسی جماعتوں کے راہ نما قومی لیڈر اور سیاسی قیادت کی سی بردباری کا
مظاہرہ کرنے کے بہ جائے گلی محلے کی ناخواندہ عورتوں کی طرح لڑتے ہوئے نظر
آئے۔ بیانا ت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ تبدیلی کی صدائیں گونج رہی
تھیں۔ گھر بیٹھا فرد بھی اپنے اندر ایک ہلچل محسوس کر رہا تھا اور جو لوگ
خان صاحب کے حامی نہیں تھے وہ بھی کہیں نہ کہیں اُس وقت عمران خان صاحب کی
کنٹینر کی سیاست کے حامی نظر آتے تھے۔ اُس وقت اہم بات یہ تھی کہ طاہر
القادری صاحب کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد بھی دھرنے میں موجود اور پیش پیش
تھی۔ لہٰذا حقیقی معنی میں عوام کی بہت بڑی تعداد اس دھرنے میں شامل تھی۔
اتنی بڑی تعداد جس کی سرگرمی یا رکاوٹ بن جانے سے حکومت کا نظام درہم برہم
ہوسکتا تھا۔ لیکن پھر اچانک ملکی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ رونما ہوا، جب
دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ یوں ملک کے
وسیع ترین مفاد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس وقت عمران خان صاحب اپنی منزل (جو کہ بقول ان کے ان کی نہیں پاکستان کی
منزل ہے۔ چلیں یہ بھی مان ہی لیتے ہیں) کے نہایت قریب تھے۔ خان صاحب اس
دھرنے کو اپنا کام یاب دھرنا سمجھتے ہیں! یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن خان صاحب یہ
بھول گئے ہیں کہ اس دھرنے میں طاہر القادری صاحب کے ساتھ آیا ہوا عوام کا
جمِ غفیر بھی تھا اور اس وقت کام یابی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اُس
وقت عمران خان صاحب کی بہت سی ایسی پالیسیاں اور بیانات عام لوگوں کے سامنے
نہیں آئے تھے جنھیں پی ٹی آئی کے ڈیزاسٹرز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پارٹی
کے اندر اور باہر بہت سے ایسے معاملات تھے جو کہ ناپسندیدہ قرار پائے۔ اب
چاہے وہ عمران خان صاحب کا ذاتی رویہ ہو یا جلسہ میں ہونے والی بے ضابطگیاں۔
بہرحال عوامی سطح پر پارٹی امیج کو بہت نقصان پہنچا۔ ایک عرصہ تک ٹی وی اور
اخبارات لفظ دھرنے کی سیاست کی جگالی کرتے رہے۔
اب ایک اور دھرنا ہمارے سامنے ہے، لیکن اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نہ جانے
حالات کیا رہتے ہیں اور حکومت کا کیا ہوتا ہے، کیوں کہ اس دفعہ سب لوگ آرام
سے بیٹھ جائیں۔ صاحب کچھ نہیں ہونا۔ اب خان صاحب کے پاس اتنی عوامی حمایت
اور طاقت نہیں ہے جیسی پہلے تھی۔ عمران خان کی مقبولیت میں اُس وقت سے لے
کر اب تک خاصی کمی آچکی ہے۔
دھرنے سے کچھ نہیں ہونا اور نہ ہی دس لاکھ لوگوں کو آنا ہے۔ ایک خطرہ ہے تو
فقط تصادم کا اور دعا ہے کہ تصادم نہ ہو۔کیوں کہ تصادم کے نتیجہ میں نہ ہی
حکمرانوں کا کوئی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی پارٹی لیڈرکا نقصان ہوتا ہے تو
فقط نہتے عوام کا جو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔
مسلم لیگ کی حکومت نے ایک غلطی پانامہ لیکس کے حوالے سے جواب نہ دے کر کی
ہے اور دوسری غلطی اب وہ اپنی بوکھلاہٹ کے ذریعے کر رہی ہے۔
نوازشریف صاحب !دس لاکھ لوگوں کا ہجوم تو دیکھ لیتے، تسلی ہوجاتی خان صاحب
کو اور جس خوش فہمی کا وہ شکار ہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے،
اس کا بھی بھید کھل جاتا۔ نوازحکومت کا تو کچھ نہ بگڑتا البتہ خان صاحب
دھرنے کے بعد اپنی پارٹی کی پالیسیز پر نظرثانی کا ضرور سوچتے۔ نوازحکومت
کی بوکھلاہٹ اس وقت صرف اور صرف خان صاحب کے حق میں فیصلہ سنا رہی ہے۔ صورت
حال کو کسی تیسری قوت کے آنے کی طرف عمران خان تو کیا جائیں گے خود نواز
حکومت اپنی جلد بازی میں ایسے حکم جاری اور اقدامات کر رہی ہے جنہیں کسی
صورت نواز حکومت کے حق میں نہیں کہا جاسکتا۔ اب اسی کو لیجیے کہ اسلام آباد
میں دفعہ 144 کا نفاذ ہوچکا ہے۔ ماضی میں جمہوری حقوق کو سلب کرنے کے لیے
دفعہ 144 کو استعما ل کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھیے کے آئین کے
مطابق پُرامن جلسوں اور احتجاج کی اجازت دی گئی ہے اور اس سے روکنا
غیرآئینی ہے، جہاں تک دفعہ 144 کی بات ہے تو یہ دفعہ ہمیں انگریزوں سے ورثے
میں ملی ہے، جس کا استعمال حکومتیں فقط اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کرتی
آئی ہیں۔ جب ہمارا آئین، جو ہماری مقدس قومی دستاویز ہے کسی بھی پاکستانی
کو پُرامن احتجاج اور اجتماع کا حق دیتا ہے تو اس حق سے روکنا ایک غیرآئینی
اقدام ہی قرار پائے گا۔ یہ جمہوری حکومتوں کے غیرآئینی فیصلے اور اقدامات
ہی ہیں جو حزب اختلاف سے اداروں تک آئین اور قانون کی پامالی کا سبب بنتے
ہیں۔ حکم راں جس آئین کے تحت مدت اقتدار پوری کرنے اور جمہوریت برقرار رہنے
کو حق سمجھتے ہیں اسی آئین کی رو سے انھیں دوسروں کا احتجاج کا حق بھی
تسلیم کرنا ہوگا۔ |