کرپشن سے پاک کا پاکستان
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
ملک میں جاری سیاسی گرما گرمی کا محور
کرپشن کے گرد گھومتا نظر آتا ہے جہاں تقریبا تمام جماعتیں ایک دوسرے کو یہ
الزام دے رہی ہیں کہ دوسرا سب سے بڑا کرپٹ ہے اس الزام میں کتنی سچائی ہے
اس بارے میں تو کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر یہ حقیقت سب کے سامنے
ہے کہ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ کرپشن ہی ہے جس نے پاکستان کو
زوال پذیر کیا ہواہے ماضی میں بھی پانامہ لیکس جیسے کئی بڑے کیسز سامنے آئے
مگر ان پرکیا پیش رفت ہوئی یہ فائیلیں کیوں اور کس کے کہنے پر بند ہوئی یہ
ساری قوم بخوبی جانتی ہے ملک کے وہ ادارے جنھوں نے اس کرپشن کو ختم کرنا
ہوتاہے وہ خود سیاست کا شکار ہو کر غیر فعال ہو گئے جس کی وجہ سے وہ نظام
قائم نہیں ہو سکا جس سے اس لعنت سے چھٹکارا مل سکتا پاکستانی عوام اس کرپشن
،کرپشن کی رٹ سے اس قدر اکتا چکے ہیں کہ وہ اسے اپنی ناکامی سے تعبیر کرتے
نظر آتے ہے جو حقیقت بھی ہے سوال یہ ہے کہ کیاا س کرپشن کا سد بابب ہو سکتا
ہے یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی پوچھتا نظر آتا ہے اس کا بڑا سادہ اور
واضح سا جواب ہے کہ ہاں اس کا علاج ممکن ہے اور اس کے لئے شفافیت اور
احتساب ہی سب سے معتبر علاج ہے اور ساتھ ہی دوسرا سوال پیدا ہوجا تا ہے کہ
اختساب کرئے گا کون ؟اس سوال کے بارے میں کافی ابہام ہے کیونکہ وہ ادارے جو
اس اختساب کے لئے بنائے گے تھے وہ اس طرح کا کردار ادا نہیں کر رہے جیسا ان
کو کرنا چاہے کرپشن بذات خود ناصرف ایک بیماری ہے بلکہ یہ کئی بیماریوں کی
جڑ ہے یہ لعنت اقتصادی ترقی اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری، سماجی ،
معاشرتی ترقی یا ادارہ جاتی بہتری ان میں شفافیت اور احتساب کے موثر نظام
کے بغیر کامیابیوں کی توقع نہیں کی جاسکتی'بدعنوانی کا نظام جب جڑ پکڑتا ہے
تو شہریوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے جائز کاموں کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے
بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ نظام گہری جڑیں رکھتا ہے پٹواری اور پولیس
اہلکار سے لے کر اعلیٰ بیورو کریسی تک بدعنوانی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ وفاقی محتسب سے لے کر نیب تک متعدد ادارے ہمارے ہاں موجود ہیں لیکن
ان کی کارکردگی قوم کی توقعات کے مطابق نہیں ہے یہ بدعنوانی کی جڑوں کو
نہیں ہلا سکے انہیں کمزور نہیں کر سکے بدعنوانی بھی دہشت گردی کی طرح
معاشرے کی ترقی کی دشمن ہے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہے اس لئے اس کے
خلاف عملی طور پر جنگ کرنے کی ضرورت ہے پوری پاکستانی قوم پانامہ پیپرز کے
حوالے سے سپریم کورٹ میں کارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتی ہے
پانامہ پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے
سامنے لایا جا چکا ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس معاملے کو اس وقت عدالت
میں پیش کر دیا جاتا جس وقت یہ ایشو اٹھا تھا لیکن شاید حکومت اس وقت یہ
نہیں جانتی تھی کہ یہ اس کے لئے ایسی وباء بن جائے گا جس سے وہ انتہائی
کمزور پوزیشن پر چلی جائے گی کیونکہ اب وہ ماضی والا دور نہیں رہا اب اگر
کسی نے ایک روپے کی بھی ہیرا پھیری کی ہو گی تو اس کو جواب دہ ہونا پڑے گا
اس لئے جس پر الزام لگتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وضاحت پیش کرئے اگر
وہ پاک ہے تو اس کو ڈرنے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے
پاکستانی قوم آئین کی پاسداری قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر یقین
رکھنے والی قوم ہے اس لئے بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی انتظار
کیا جاتا اب چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں جا چکا ہے اس لئے حکومت اور
اپوزیشن دونوں کو اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے اس تناظر میں کسی
احتجاجی تحریک یا دھرنے کاکوئی جواز نہیں رہتا ہنگامہ آرائی سے کچھ حاصل
نہیں ہوسکتا البتہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پانامہ پیپرز کے حوالے سے شفاف
احتساب کی جانب قوم کی رہنمائی کر سکتا ہے فیصلے کبھی سڑکوں پر نہیں ہوتے
بلکہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہوتے ہیں سڑکوں کی سیاست اور محاذ
ذرائی نے کبھی جمہوریت کو استحکام دیا نہ مملکت کے لئے مفید ثابت ہوئی
البتہ اس نے ہمیشہ ملک کے مفادات اور جمہوریت کو نقصان ضرور پہنچایا ہے
جمہوریت میں فیصلوں کا اختیار پارلیمنٹ کو ہوتا ہے یا آئینی اداروں کو کسی
فرد واحد کسی پارٹی یا دھرنوں کے ذریعے کوئی فیصلہ حاصل نہیں کیا جا سکتا
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کی مجموعی سیکیورٹی
کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور ایک
ایسے وقت میں جب سرحدوں پر ہمارے دشمن نے جنگ کی صورت حال پیدا کی ہوئی ہے
ہمیں اپنے اندر اتفاق اور اتحاد قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی اتحاد کی
بدولت ہم ایک ایسی قوم بن سکتے ہیں جو دنیا کی ناقابل تسخیر قوم ہو سکتی ہے
ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتیں چاہئے وہ ن لیگ ہو پی ٹی آئی ہو یا پی پی پی
سب کو ملکر کر اس کرپشن کے بارے میں کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانا پڑئے گا
اور اس کے مکمل سد باب کے لئے ایسی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہو گی جس سے اس
لعنت سے مکمل طور پر چھٹکارا مل سکے اور ان اداروں کو سیاست سے پاک کر کے
فری ہینڈ دینا ہوگا جو اس وباء پر قابو پانے کے ذمہ دار ہیں اس کے لئے
ضروری ہے کہ تمام سیاست دان مل کر واضح پالیسی مرتب کریں تاکہ ہماری آنے
والی نسلیں ایک مضبوط اور منظم پاکستان دیکھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|