شہروزؔ خاور…مالیگاؤں کی ابھرتی ہوئی دل کش شعری آواز
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
اِدھر گذشتہ چند برسوں سے شہر ادب
مالیگاؤں کے ادبی منظر نامےپر نئی نسل اپنی فکر و نظر سے جو لہلہاتی فصلِ
بہاراں اگارہی ہے وہ متاثر کن دکھائی دیتی ہے۔ اپنی قوتِ متخیلہ سے نت نئی
معانی و مفاہیم کو اُجالتے ہوئے نوتراشیدہ لفظیات کا نگار خانہ سجانے والوں
میں شہروزؔ خاور کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ شہروزؔ کو لفظ و بیان کی دولت،
شعر و سخن کی ثروت اور فکر و نظر کی وسعت اپنے اجداد سے ورثے میں ملی ہے ،
اور وہ اِس ورثے کی حفاظت ہی نہیں بلکہ ترسیل و ابلاغ میں بھی بے طرح
کامیاب نظر آتے ہیں۔
روایت ، کلاسیکیت اور ادب کی مختلف تحریکات کی شعری کائنات کا بالغ مطالعہ
رکھنے والے شہروزؔ خاور نے ماضی کے شعری در و بست سے انحراف بھی نہیں کیا
اور نہ ہی کورانہ تقلید ان کےاشعار سے جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے
افکار کو نت نئے انداز سے جب شعری پیکروں میں ڈھالتے ہیں تو کچھ یوں نغمہ
سرا ہوتے ہیں
محبت کوکھ سے غم کی ، جنی ہے
خوشی سے عاشقوں کی کب بنی ہے
پنکھڑی سے جو ترے ہونٹ تھے، آرے ، نکلے
ہم جو ’کیا جی‘ تھے کبھی ، آج ہیں ’کیارے‘نکلے
بازو کا بھی احسان گوارا نہیں اس بار
پَر باندھ کے پرواز کا فن سیکھ رہے ہیں
تری گلی ہے ہیں پتھر یہ بد تمیز بہت
مگر ہے میرے لیے تیری یہ بھی چیز بہت
موت سے محظوظ ہونے کے لیے عاشق بنے
ورنہ پی کر زہر کیا مشکل تھا مرجانا ہمیں
شہروزؔ خاور کی شعری ریاضتوں میں جو بات متاثر کن دکھائی دیتی ہے وہ اُن کی
بَلا کی شوخی ، فکری جدت و ندرت اور الفاظ کا مناسب رکھ رکھاؤ ہے۔ وہ
تازگی و طرفگی کے گل بوٹے بکھیرتے ہوئے اپنے شعروں میں کہیں کہیں ایسی
معنیٰ آفرینی اورنکتہ سنجی پِرو دیتے ہیں کہ بے ساختہ دل سے داد نکل جاتی
ہے۔ اُن کی شعری خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مکمل غزلوں کے جلو
میں’’ فرد نگاری‘‘ ( ایک شعر) میں بھی اپنا جواب آپ نظر آتے ہیں۔ اُن کی
فردیات میں بہ ظاہر سادہ لفظوں کا انسلاک نظر آتا ہے لیکن معانی و مفاہیم
میں جو اچھوتا اور البیلا پن اُن کے لہجے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ براہِ
راست دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے ۔ بہ طورِ نمونہ چند فردیات نشانِ خاطر
ہوں
ہم نظر کے زاویوں کا کررہے تھے تجربہ
عشق نے مرگِ مسلسل بخت فیصل کردیا
اندھیرا نام جس کا پڑ گیا ہے
اجالوں کی عدم موجودگی ہے
جھگڑا کیا ہے آج بہت میں نے غم کے ساتھ
ہنستا رہا ہوں شام تلک چشمِ نم کے ساتھ
ٹہل رہا ہے فلک بڑی نزاکت سے
مگر یہ دن میں تو چھت پر دکھائی دیتا ہے
دل پہ تکیہ نہ کرنا جینے کا
کچھ بھروسہ نہیں کمینے کا
عشق ہوتا ہے ایک لمحے میں
درد صدیوں سنائی دیتا ہے
ہوا ہے کوئی مشقت میں نیند کی ناکام
تھکا تھکا سا جو بستر دکھائی دیتا ہے
شہروزؔ خاور کے شعری رویوں میں زود گوئی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے ۔ لیکن
کچھ عرصہ سے اک خاموشی طاری ہے۔ باوجود ان شعری محاسن کے شہروزؔ کے شعروں
میں عجلت پسندی کا آہنگ در آیا ہے ۔ جوان کے فکری نگار خانے کو ضرور
متاثر کرتاہے لیکن یہ شاذ و نادر ہے۔ میں مالیگاؤں کے عصری ادبی منظر نامے
پر ابھرنے والی چند دل کش اور دل نشین آوازوں میں شہروزؔ خاور کو بھی
مالیگاآن کے مستقبل کا ایک روشن اور خوش آیند اثاثہ سمجھتا ہوں ۔
|
|