سید الشعراء محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی کا’’ قصیدۂ معراج ‘‘
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
قصیدے کی ابتدا عربی شاعری سے ہوئی ۔ عربی
سے یہ صنفِ سخن فارسی شاعری میں پہونچی اور فارسی کے اثرسے اردو شاعری میں
اس صنفِ سخن کو فروغ حاصل ہوا ۔قصیدہ ایک’’ موضوعی صنفِ سخن ‘‘ہے ۔جس میں
کسی کی مدح یا ہجو کی جاتی ہے لیکن زیادہ تر قصائد مدح و توصیف ہی کی غرض
سے لکھے گئے ہیں ۔اس کے علاوہ مناظرِ قدرت ، پند و نصائح، معاشی بدحالی اور
سیاسی انتشار وغیرہ جیسے موضوعات بھی قصیدے میں بیان کیے جاتے ہیں، قصیدے
کے اجزاے ترکیبی یہ ہیں۔ (1)تشبیب(2)گریز(3)مدح(4) دعا یا حُسنِ طلب ۔
پہلا شعر قصیدے کا مطلع کہلا تا ہے یہاں سے قصیدے کا پہلا جز تشبیب شروع
ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تعلق سے فخر وامتنا ن پر مشتمل اشعار کہتا ہے ۔
دوسرا جزگریز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاعر اپنی تعریف ترک کرکے ممدوح کی
مدح و توصیف کی سمت رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد مدح کا مرحلہ آتا ہے جو تشبیب
سے طویل تر ہوتا ہے اگرچہ ذوقؔ و غالبؔ کے قصیدوں میں مدح کے اشعار کم
تعداد میں ملتے ہیں۔حُسنِ طلب اس کے بعد کی منزل ہے جس میں قصیدہ خواں اپنے
ممدوح کی جانب سے لطف واکرام کی توقع ظاہر کرتا ہے ،پھر ممدوح کے لیے دعا
پر قصیدہ ختم ہوجاتا ہے ۔جس قصیدے میں اس کے تمام اجزاے ترکیبی موجود ہوں
اور جس میں راست ممدوح سے خطاب کیا گیا ہو اسے ’’خطابیہ قصیدہ ‘‘کہتے
ہیں۔قصیدے میں یوں تو صرف مدح خوانی مقصود ہوتی ہے لیکن اکثر قصائد میں
ہجویہ ، واعظانہ،اور دوسرے بیانیہ مضامین بھی نظم کیے گئے ملتے ہیں۔اس
اعتبار سے انھیں’’ مدحیہ ،ہجویہ، واعظانہ‘‘ وغیرہ بھی کہا جاتاہے ۔اردو میں
سوداؔ، انشاءؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے قصائد معروف ہیں۔مدح و توصیف کے مقصد سے
بعض شعرا نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ،خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم
، اور دیگر اکابرِ دین کے بھی قصیدے لکھے ہیں جن میں مومنؔ ، محسن ؔکاکوروی
، رضاؔ بریلوی، عبدالعزیز خالدؔ او ر بہت سے دوسرے نئے شعرا کے نام آتے
ہیں۔
نعتیہ قصیدہ گوئی کے میدان میں باکمال نام حضرت محسنؔ کاکوروی کا ہے ۔ جن
کا شناخت نامہ ہی ’’نعتیہ قصیدہ ‘‘بن چکاہے۔ اُن کے نعتیہ قصائد ’’مدیح
خیرالمرسلینﷺ‘‘ -’’گلدستۂ رحمت‘‘-’’ابیاتِ نعت‘‘- ’’نظمِ دل
افروز‘‘اور’’انیٖسِ آخرت اپنی منفرد تشبیب، حُسنِ شعری ، شوکتِ ادا، طرزِ
اظہار اورجدت طرازی کی حسین مثالیں ہیں۔ علاوہ ازیں نعتیہ قصیدہ گوئی کے
میدان کا ایک روشن نام امامِ نعت گویاں امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
کا بھی ہے۔ آپ کے نعتیہ قصائد کی تشابیب مکمل نعتیہ رنگ و آہنگ میں ڈھلی
ہوئی ہیں۔ آپ کا ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ مضامین کی وسعت، خیالات کے تقدس سے
آراستہ اور شعری و فنّی محاسن سے لبریز ایک ایسے منفرد طرزِ بیان سے سجا
سنورا ہے جسے جدت و جدیدیت کی ایک اعلیٰ مثال کہنا بے جا نہ ہوگا۔ مخدوم
الملت حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے لکھنؤ کے سرآمد شعرا کی محفل
میںجب اس قصیدے کو اپنے مخصوص انداز میں گنگنایا تو اُن شعرا نے کہا کہ اس
قصیدے کی زبان توکوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ نعتیہ قصیدہ
نگاری کی یہ پاکیزہ روش آگے بڑھتے ہوئے میدانِ شعر و ادب میں نئی نئی فصلِ
بہاری لہلہارہی ہے۔
اِس مضمون میں سید الشعراء مخدوم الملت محدثِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا
ابوالمحامد سید محمد اشرفی جیلانی سیدؔ کچھوچھوی قدس سرہٗ کے مرقومہ شاہ
کار ’’قصیدۂ معراج‘‘ پر کچھ خامہ فرسائی مقصود ہے۔حضور محدثِ اعظمِ ہند
سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی علیہ الرحمہ دلِ درد مند رکھنے والے، ملت کے سچے
بہی خواہ و ہمدرد اورتحریک آفریں قائد تھے۔ حق پسند و حق جو اور حق شناس
طبیعت کے حامل حضرت سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی بہ یک وقت کئی خوبیوں اور
محاسن کا حسین سنگم تھے۔ محدث و مفسر، مترجم و شارح، مفکر و مدبر، خطیب و
ادیب، بے باک صحافی اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ کردار و گفتار میں آپ
اپنے اسلاف کے پر تَو تھے۔ سیاسیات اور سماجیات کا بھی گہرا شعور رکھتے تھے
۔ شریعت و طریقت اور تصوف و معرفت کے بھی کوہِ گراں تھے۔ امام احمدرضا
محدثِ بریلوی (م ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) کے چمنستانِ علمی کے اِک خوشہ چین اور آپ
کے شاگردِ رشید اور خلیفۂ اجل تھے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند درس و تدریس ، خطابت و نظامت اور تبلیغ و ارشاد کے
ساتھ ساتھ میدانِ شعر و ادب کے بھی شہ سوار تھے ۔ آپ کے والد حکیم سید نذر
اشرف بھی ایک عمدہ شاعرتھے ۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند کو شاعری ورثے میں ملی ،
بچپن ہی سے شعر و سخن سے لگاو اور شغف تھا۔ گھریلو ماحول کی برکتیں اس پر
مستزاد… آپ کا قلم نثر و نظم دونوں ہی میں یک ساں چلتا تھا ۔ کئی نثری
کتابیں آپ کی علمی یادگاریں ہیں۔ آپ نے بہاریہ شاعری بھی کی اور تقدیسی
شاعری بھی… حمد و نعت ، مناقب و سلام اور غزلیات و رباعیات پر مشتمل آپ کا
خوب صورت او رد ل کش دیوان ’’فرش پر عرش‘‘ کے نام سے رضوی کتاب گھر دہلی سے
شائع ہوکر داد و تحسین کی خراج وصول کرچکا ہے۔
آپ کے خامۂ مُشک بارنے کئی نعتیہ قصیدے بھی قلم بند کیے۔ جس میں ایک
معرکہ آرا قصیدہ ’’قصیدہ معراج‘‘ ہے جو پہلی بار ۱۹۵۶ءمیں شائع ہوا۔ حضور
محدثِ اعظمِ ہند سیدؔمحمد اشرفی کچھوچھوی کی شعری کائنات میں آپ کے مرقومہ
’’قصیدۂ معراج ‘‘ کو ان کے کلام میں ایک شاہ کار کلام قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ قصیدہ ’’گل زارِ ادب کچھوچھہ‘‘ کی جانب سے دئیے گئے طرحی مصرع’’شبِ
معراج محبوبِ خدا ہے‘‘ پر ۱۹۵۶ء میں منعقدہ ایک مشاعرے کے لیے آپ نے تحریر
فرمایا تھا۔ ۵۲۷؍ اشعار کو محیط اس طویل قصیدے میں تین تشابیب ہیں :
(۱) تشبیبِ اوّل ’’نیچرل سنیری ‘‘ کے عنوان سے موسوم ’’معراج النبی ﷺ‘‘ کے
بیان پر مشتمل ہے۔ مسلسل چھیاسٹھ/۶۶؍ اشعار میں شبِ اسرا کے دولہا حضور
نبیِ کریم ﷺ کی شانِ معراج اور شبِ معراج آسمان سے کعبۃ اللہ میں فرشتوں
کی آمد آمد ، فرشتوں کے جھرمٹ میں معراج کے دولہا ﷺ کی بارات کے مناظر
اور اسی سے مربوط دیگر واقعاتِ اسرا و معراج کوحضرت سیدؔ محمد اشرفی
کچھوچھوی کے زرنگار قلم نے بڑے سہل اور آسان پیرایۂ بیان میں پیش کیا ہے۔
اس تشبیب میں مناظرِ فطرت کی عکاسی کا گہرا رچاؤ پا یا جاتا ہے۔ جس کا
آغاز یوں ہوتا ہے ؎
یہ کیسی موج میں بادِ صبا ہے
خمار آلود جھونکوں میں ہوا ہے
یہ کیوں ابرِ بہاری چھا گیا ہے
کہ جو ہے مست ہے آخر یہ کیا ہے
یہ رنگیں گل ہیں کیوں شبنم بداماں
نگاریٖں جام ، صہبا سے بھرا ہے
سجا گل ہاے رنگیں سے ہے کہسار
سمندر کیف میں ڈوبا ہوا ہے
کچھ ایسا مست ہے جوے خراماں
کہ ہر ہر موج میں نغمہ رچا ہے
بلا کی سلاست و روانی اور ترنم و نغمگی سے معمور ،منظر کشی کا حُسن سمیٹے
ہوئے تشبیبِ اوّل کے یہ اشعار کیف آگیں جذبات سے ہمکنار کرتے ہیں ۔فارسی
کے ساتھ آسان اور سہل لفظیات کے انسلاک نے اس قصیدے کو سہلِ ممتنع کا
اعلیٰ ترین نمونہ بنادیا ہے ۔جس کو کم تعلیم یافتہ طبقہ اور معمولی علم
رکھنے والے افراد بھی مزے لے لے کر پڑھ اور بآسانی سمجھ سکتے ہیں ؎
خزاں پھولوں کی چادر میں ہے سوئی
ابد تک اب بہارِ جاں فزا ہے
نہ سورج ہے نہ سورج کی ہے گرمی
جہاں سے بادِ صر صر تک ہَوا ہے
سروں پر شامیانہ بادلوں کا
تو مَے ، فرشِ زمیں پر زیرِ پا ہے
حضور محدثِ اعظمِ ہند سید ؔ محمد کچھوچھوی نے اپنے اس شاہ کار قصیدے کی
تشبیبِ اوّل میں جہاں منظر کشی کے جلوے اور تصویریت کے جمال کی گہری عکاسی
کی ہے وہیں آپ نے عشق و محبت اور خمریات کے موضوع کو بھی بڑی چابکدستی سے
برتا ہے۔ مَے وحدت کے نشّے میں سرشار اور تصوف و معرفت کے دُرِّ شاہوار
سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی کے قلم نے عشق و محبت اورمَے اور مَے خانے کا جو
تصور پیش کیا ہے وہ مستحکم اور توانا ہونے کے ساتھ ساتھ طہارت و پاکیزگی کا
آئینہ دار بھی ہے ؎
کسی کی مَے کدہ بردوش نظریں
کوئی بھر بھر کے ساغر پی رہا ہے
سروں پر شامیانہ بادلوں کا
تو مَے ، فرشِ زمیں پر زیرِ پا ہے
اگر وہ مَے نہیں مَے نوش ہوگا
فرازِ کوہ سے جو گِر رہا ہے
یہ وہ مَے ہے جسے دن رات پینا
روا ہے ہاں روا ہے ہاں روا ہے
یہی وہ کیف ہے جس کا ازل سے
تمنّائی ہے ہمارا اتّقا ہے
جنیدؔ و شبلیؔ و عطّارؔ ہیں مست
یہ مَے ہے ، جو حیاتِ اولیا ہے
اِدھر دیکھو تو جلوہ ریز ہے حُسن
اُدھر دیکھو تو نغمہ عشق کا ہے
سراپا عشق ہے ہر جلوۂ حُسن
وفورِ عشق میں حُسن آگیا ہے
مزید سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی کا خامۂ زرنگار نیچرل سینری کو بروے کار
لاتے ہوئے شگفتگی و شیفتگی کے ساتھ شبِ معراج؛- حرم ، اقصیٰ، مقامِ
ابراہیم، چاہِ زمزم، آغوشِ حطیم، بابِ اُمِّ ہانی، زمیں سے آسماں تک
قدسیوں کی قطاریں ،بُراقِ برقِ دم ،ملائکہ اربعہ حضرات میکائیل ، اسرافیل ،
عزرائیل ، جبرئیل علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے شبِ اسرا کے دولہا
مصطفیٰ جانِ رحمت کی قدسیوں کے جھرمٹ میں بارات کا بیان جس حُسنِ ادا اور
شوکتِ ادا سے کیا ہے وہ آپ کے ایک قادرالکلام شاعر ہونے پر دلالت تو کرتا
ہی ہے ساتھ ہی ساتھ آپ کے ایک سچّے عاشقِ رسول(ﷺ) ہونے کا اعلانیہ بھی
ہے،روح و قلب کو وجد آفریں جذبات سے سرشار کرنے والے ذیل کے اشعار نشانِ
خاطر فرمائیں ؎
صلاے عام ہے سارے جہاں میں
شفا ہے اب شفا ہے اب شفا ہے
حرم کے گوشہ گوشہ میں چراغاں
تو اقصیٰ ، انتہا کو سج گیا ہے
مقام ، اللہ رے! شانِ خلیلی
عبادت کا مصلیٰ بن گیا ہے
کس آب و تاب سے زمزم کا پانی
کسی کی چاہ میں ڈوبا ہوا ہے
تو آغوشِ حطیمِ پاک میں وہ
گہر کی شکل میں بکھرا ہوا ہے
وہ بارونق ہے بابِ اُمِّ ہانی
کہ جو ہے وہ اسی کو تَک رہا ہے
زمیں سے آسماں تک قدسیوں کا
عجب سج دھج سے نورانی پَرا ہے
یہ کس دولہا کی ہے بارات آئی
نہ چلنے کی نہ تِل رکھنے کی جا ہے
یہاں سے لامکاں تک نور ہی نور
یہ کس کی جوت سے سب پُرضیا ہے
کھلا لو اب تو بابِ اُمِّ ہانی
کوئی نورِ مجسم آرہا ہے
چلے آتے ہیں پیچھے پیچھے جبریل
چھتر اک ہاتھ میں اک میں عصا ہے
ادب سے جس نے پوچھا ان سے جاکر
بتادیجے کہ آخر آج کیا ہے
بتایا اس کو یہ روح الامیں نے
شبِ معراج محبوبِ خدا ہے
(۲)تشبیبِ دوم ’’تاریخی و علمی ‘‘ کے عنوان سے موسوم ہے۔ جس میں تاریخ و
سیرت کے حوالے سے بعثتِ مبارکہ سے قبل عرب کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا
ہے۔کفار و مشرکین کی جانب سے نبیِ کریم رؤف و رحیم ﷺ کو طرح طرح سے آزار
پہنچانے اور حق کی آواز کو دبانے کا بیان کرتے ہوئے نبیِ کریم داعیِ حق و
صداقتﷺ کی دعوتی کامیابی و کامرانی کا شعری اظہار چار سو تینتیس /۴۳۳؍اشعار
کو محیط اس تشبیب میں کیا گیا ہے۔ تشبیبِ دوم کا آغاز یوں ہوتاہے کہ ؎
یہ تیرہ سو برس کا واقعہ ہے
زبانِ وحی ، سے جس کو سُنا ہے
ابھی اسلام کی بس ابتدا ہے
خدا کا گھر ابھی تک بت کدہ ہے
بہت کم ہیں سعادت مند روحیں
جہاں پر کفر کی کالی گھٹا ہے
پیامِ امن پر سارے عرب میں
لگی ہے آگ اک فتنہ بپا ہے
جو اُن میں نوجواں ہے وہ ہے شیطاں
جواں جو ہے درندہ ہے بَلا ہے
ضعیف العمر گرگ بارانِ دیدہ
ہر اک بچہ جہالت کا جَنا ہے
تدبیرِ منزل، تہذیبِ اَخلاق اور سیاستِ مُدن سے عاری ، بیت اللہ شریف میں
بت رکھنے والے عرب کے اس معاشرے میں اللہ جل شانہٗ اپنی شانِ کریمی سےرحمت
کا نزول فرماتے ہوئے نبیِ کریم رؤف و رحیمﷺ کو مبعوث کرتا ہے۔جب رحمۃ
للعالمین ﷺ نے کوہِ فاراں سے اسلام و ایمان کی دعوت دی تو بہت کم سعید
روحوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا ۔ جب کہ جن لوگوں نے انکار کیا وہ خاموش
نہ بیٹھے بلکہ ضد ، ہٹ دھرمی اور انانیت کے خول میں مقید بتوں کی پرستش
کرنے والے مکّہ کے کفار و مشرکین نے آقاے کائنات ﷺ کو طرح طرح سے ستایا
لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ نے ان کے لیے دعاے ہدایت فرمائی ۔محدثِ اعظمِ ہند
حضرت سید ؔ محمد اشرفی کچھوچھوی نے تشبیبِ دوم میں ’’تاریخی و علمی‘‘
اعتبار سے نبیِ کریم ﷺ کی مختصر اور جامع منظوم سیرت بیان کردی ہے۔ جس کی
زیریں رَو میںشعری و فنّی محاسن کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ آپ کی نبیِ
کریم ﷺ سے محتاط محبت و وارفتگی کاخوب صورت اظہاریہ مکمل طور پر دکھائی
دیتا ہے ،اس تشبیب کے چند منتخب اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
مگر اُس کی کریمی پر تصدق
بجاے قہر ، رحمت کررہا ہے
رسولِ ہاشمی محبوبِ داور
قدم اُن کا عرب میں آگیا ہے
جو اُن میں عقل ہوتی ، دیکھتے ہم
کہ ہر ہر فرد ، آقا پر فدا ہے
مگر اُلٹی سمجھ پر لاکھ لعنت
عنادِ حق ہر اک کا مشغلہ ہے
وہ اپنی آنکھ سے یہ دیکھتے تھے
مدد پر حق کے خود دستِ خدا ہے
کہیں ڈوبا ہوا سورج پلٹ آئے
کہیں شق القمر کا معجزہ ہے
اس کے بعد شبِ اسرا کے دولہا ﷺ کے کئی معجزات کو نظم کرنے کے بعد عرب کے
کفار و مشرکین کے پیہم انکار کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدؔمحمد اشرفی
کچھوچھوی نے نبیِ کریم ﷺ پر کیے گئے مظالم اور تشدد کا درد انگیز بیان کیا
ہے جو ہمیں بھی کربیہ آہنگ سے ہمکنار کردیتا ہے ؎
مگر اللہ رے! ضدّ و شرارت
عرب سب دیکھ کر اندھا بنا ہے
تشدد پر اتر آیا ہے کوئی
کوئی کیّادیوں میں مبتلا ہے
خدا کا نام مٹ جائے جہاں سے
یہی ہر ایک کا اک مدعا ہے
کفار و مشرکین کی جانب سے نبیِ پاک ﷺ کو طرح طرح سے ستانے کا یہ سلسلہ جاری
ہی تھا کہ ابلیسِ لعین شیخ نجدی کی صورت میں چھبیس رجب المرجب کو آیا اور
دشمنانِ اسلام کو یہ ناپاک مشورہ دیا کہ شمعِ رسالت(ﷺ) کو ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے گُل کردینے میں ہی لات و منات اور ہبل و عُزیٰ کی بقا ہے ، ورنہ اسلام
کے سیلِ رواں کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا ۔ اِدھر دارالندوہ میں رحمۃ
للعالمین ﷺ کو معاذ اللہ قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ کیا گیا تو اُدھر عرشِ
معلی پر آپ ﷺکی رفعت و منزلت کو دنیا والوں کے سامنے مزید دکھانے کے لیے
معراج کی تیاریاں شروع ہوگئیں ۔ محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی
کا حُسنِ تخیل اور آپ کی شعری پرواز جس سہل اور اچھوتے انداز میں واقعۂ
معراج کا بیا ن کرتی ہےدل سے بے ساختہ سبحان اللہ کی داد نکلنے لگتی ہے ؎
رجب کی آگئی چھبیسویں آج
گلی میں مکّہ کے اک جمگھٹا ہے
خدا کا نام مٹ جائے جہاں سے
یہی ہر ایک کا اک مدعا ہے
کسی تدبیر سے اسلام مٹ جائے
یہی ندوہ میں ہر اک سوچتا ہے
کہا یہ شیخ نجدی نے کہ بس ایک
ہمارا اور تمہارا مدعا ہے
کہ کردو ختم تم ختم الرسل کو
تو بس اسلام کا بھی خاتمہ ہے
یہاں کفار میں ہوتا ہے یہ طَے
وہاں عرشِ معلی ہِل رہا ہے
یہ ہے موسیٰ ، یدِ عیسی نہ داؤد
مرا پیارا محمد مصطفیٰ ہے
سنو جبریل! سدرہ چھوڑ دو تم
کہ وقتِ کارِ سرکار آگیا ہے
مرے محبوب سے جاکر یہ کہہ دو
بُلاتا عرش پر تم کو خدا ہے
سواری کو بُراقِ برق رفتار
وہ لینا جس میں کو میں نے چُن رکھا ہے
لباسِ نور لے کر ساتھ جانا
ازل میں منتخب جو ہو چکا ہے
بجھادو مشعلِ خورشید فوراً
کہ اس دم اوج پر شمس الضحیٰ ہے
گھٹا کر چاند بادل میں چھپادو
کہو بدرالدجیٰ صل علیٰ ہے
بدن پر خلد کا نورانی حُلّہ
کمر کا پٹکا اک نوری ردا ہے
ہیں زلفیں لیلۃ القدر اور واللیل
تو رخ والشمس والفجر و ضحی ہے
خدا کا نور ہے نورٌ علیٰ نور
تجلی ہے ظہورِ پُر ضیا ہے
اسی حالت میں آئے آپ کعبہ
ہے سر سجدہ میں اور لب پر دعا ہے
بعد ازاں سید الشعراء سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی نے شبِ اسرا و معراج کے
دولہا ﷺ کے مکمل سفرِ اسراو معراج کا خوب صورت منظوم نقشہ کھینچا ہے ۔ جس
میں جذبات کی صداقت ، خیالات کا تقدس، تشبیہات و استعارات ، زبان و بیان کی
شیرینی، الفاظ کی جدت و ندرت، صنائع کے نجوم اور بدائع کے مہر و ماہ چمکتے
چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۴۳۳؍ اشعار پر پھیلی ہو ئی تشبیبِ دوم میں آپ نے
واقعۂ معراج کے منکرین کا ردِ بلیغ بھی فرمایا ہے۔ محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ
محمد کچھوچھوی نے اس مقام پر اپنے تبحرِ علمی اور فکری بصیرت کو بروے کار
لاتے ہوئے معترضین کے بے جا اعتراضات کے تار و پَود بکھیر کر رکھ
دئیےہیں۔تشبیبِ دوم کا یہ حصہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین اور قابلِ مطالعہ
ہے۔
(۳) تشبیبِ سوم ’’تمہیدِ ذکرِ میلاد شریف‘‘ عنوان سے موسوم ہے۔ جس میں
میلاد النبی ﷺ کا محبت آمیز بیان کیا ہے۔ اسی سے منسلک آخر میں سلام بہ
حضور خیرالانام ﷺ بھی پیش کیا گیا ہے ۔ یہ تشبیب اٹھائیس/ ۲۸؍ اشعار کو
محیط ہے۔ اس طرح یہ قصیدہ پانچ سو ستائیس/ ۵۲۷؍ اشعار پر پھیلا ہوا ہے۔سید
الشعراء سید ؔ محمداشرفی کچھوچھوی کے ’’قصیدۂ معراج ‘‘کی مرقومہ ’’تمہیدِ
ذکرِ میلاد شریف‘‘ سے موسوم یہ تشبیبِ سوم ؛ قصیدے کی تشبیبِ دوم کے مضامین
سے ہمرشتہ ہے۔ بہ قول ڈاکٹر فرحت علی صدیقی مرحوم :
’’یہ حقیقتِ معراج کی وضاحت کرنے والا ایک ایسا شعری اظہار ہے کہ اس میں
معترضین کے بے جا خدشات اور منکرینِ معراج کے بے وجہ اعتراضات کے بھی
جوابات دئیے گئے ہیں۔ جس کے توسط سے معراج میں وقوع پذیر ہونے والے کئی
امور کا خلاصہ ہوجاتاہے۔ جیسے کہ بعض عقل سے عاری اور مادی نظریات کے حامل
لوگ کہا کرتے ہیں کہ جسم کثیف ہے، کثیف شَے اوپر کیسے جاسکتی ہے ؟ حضرت
سیدؔ محمد کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’معراج نامہ‘‘ کے شعری اسلوب میں
بڑی روانی ، برجستگی کے ساتھ والہانہ طرزِ اظہار سے اس خام خیالی کا
پردہ--- چاک کیا ہے‘‘ ؎
اس قصیدے کی تشبیبِ سوم کا آغاز منکرینِ معراج کے بے جا اعتراضات کے عقلی
و نقلی دلائل و براہین سے مزین جوابات کے بعد یوں ہوتاہے ؎
بیاں اوپر یہ جو کچھ ہوچکا ہے
کوئی ’’قصہ‘‘ نہیں ہے ’’واقعہ‘‘ ہے
نہیں معراج میں حیرت کا موقع
کہ مرکز اپنی ہر شَے کھینچتا ہے
کوئی ڈھیلا اُٹھا کر اونچا پھینکو
تو دیکھو گے زمیں پر گِر پڑا ہے
جھکاؤ جس طرف شعلہ کو چاہو
مگر پاؤگے اوپر جارہا ہے
ہر اک شَے اپنے مرکز کو ہے جاتی
کشش کا مسئلہ مانا ہوا ہے
گیا نورِ خدا گر عالمِ نور
تو حیرت کیا ہے استعجاب کیا ہے
تعجب ہے ، تو اِس پر ہے کہ وہ نور
زمیں پر کس طرح پیدا ہوا ہے
یدِ قدرت کی ہے تحریکِ قِسریٰ
کہ نور اللہ ہم میں آگیا ہے
تنِ بے سایہ کا سایہ نہ ہونا
اُسی نورانیت کا معجزہ ہے
دیگر معراج ناموں کے برعکس محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی کے اس
قصیدے میں ’’معراجِ النبیﷺ‘‘ کے ذکرِ جمیل کے ساتھ ساتھ ’’میلادِ النبی ﷺ‘‘
کا محبت آمیز تذکرہ اہلِ سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کی روشن
عکاسی کرتا ہے۔ ’’میلاد النبیﷺ‘‘ کا ذکرِ خیر دنیا بھر کے خوش عقیدہ
مسلمانوں کے روح کی غذاہے۔ لہٰذا نبیِ کریم ﷺ کے عاشقِ صادق سید الشعراء
محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی کے فکر و قلم سے ذکرِ میلاد کی
خوشبوئیں پھوٹنا ایک فطری عمل ہے ؛ فرماتے ہیں ؎
بیاں معراج کا میں کررہا تھا
زباں پر نامِ میلاد آگیا ہے
یہ ہے وہ ذکر جس میں یہ طریقہ
مسلمانانِ عالَم کا رہا ہے
سنا میلاد کو جس دم تو ہر اک
پَے تعظیم دیکھو گے کھڑا ہے
جو ہیں منکر ، عقیدے سے اب ان کو
انھیں اسلام سے کیا واسطہ ہے
بحمداللہ! تم ہو اہلِ سنت
تمہارا دین عزِّ مصطفیٰ ہے
بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سلامِ باقیام اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق
روایت کانام ہے۔ سیدالشعراء محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی کے
اس شاہ کار’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘ کا اختتام سلامِ باقیام پر ہوتاہے۔ ۲۸؍
اشعار کومحیط تشبیبِ سوم میں ۶؍ بند سلام پر مبنی ہیں۔۴/۴؍ مصرعوں پر مشتمل
ان بندوں کے بعد ’’یانبی سلام علیک‘‘ کی تکرار نے عقیدت و محبت کے حُسن کو
دوبالا کردیاہے ؎
تخت والے تاج والے
حکم والے راج والے
بیکس و محتاج والے
اے مرے معراج والے
یَا نَبِی سَلام عَلَیکَ
اے مدینہ کے بسیّا
لامکاں کے تم جَویّا
ہے بھنور میں موری نیّا
کون ہے تم بِن کھویّا
یَا نَبِی سَلام عَلَیکَ
تم ہو بحر و بر کے آقا
خشک کے ہر تر کے آقا
کہتر و مہتر کے آقا
سیدِؔ مضطر کے آقا
یَا نَبِی سَلام عَلَیکَ
حضور محدثِ اعظمِ ہند سید ؔ محمد اشرفی کچھوچھوی کے خامۂ مُشک بار سے نکلا
ہوا یہ قصیدہ سلاست و روانی ، جدت و ندرت ، حُسنِ بیان، جذبہ و تخیل، صنائع
و بدائع ، تصویریت کے حُسن ، منظر کشی کے جمال ، تشبیہات و استعارات
،وارفتگی و شیفتگی، لسانیاتی تعمل ، تراکیب ،امیجری، پیکرتراشی ، قرآنیات
و احادیث کے رچاؤ کا ایک حسین و جمیل نگار خانۂ رقصاں ہے۔ اس قصیدے میں
واقعۂ معراج و اسراکو حضور محدثِ اعظم ہند سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی نے جس
سلیس اور شگفتہ پیرایۂ بیان میں پیش کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ
طرز رکھتا ہے۔ بڑے ہی سہل اور آسان انداز میں آپ نے شبِ اسرا کے دولہا
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے اس اہم گوشے کو’’قصیدۂ
معراج‘‘ میں اجاگر کیا ہے۔ فنّی اعتبار سے اس قصیدے کا مقام بڑا بلند و
بالا ہے۔ حضرت محسنؔ کاکوروی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے قصائد
کے ساتھ ساتھ حضرت سید ؔ محمداشرفی کچھوچھوی کےاس قصیدے کو نعتیہ قصیدہ
نگاری میں یقیناً بڑی و قدر منزلت سے دیکھا جانا چاہیے ۔
سید الشعراء سید ؔ محمد اشرفی کچھوچھوی کے اس شاہ کار قصیدے میں تشبیہات و
استعارات کے رنگا رنگ جلوے بکھیرتے ہوئےجہاں آپ نے نت نئی اور نادر
تشبیہات و استعارات سے اس قصیدے کوآراستہ کرکے شعری و فنّی محاسن کے لحاظ
سے جدت و جدیدیت آئینہ دار بنایا ہے، وہیں بُراق کی شانِ رفتار کو لفٹ
،تار ، ٹیلی فون اور ریڈیو کی صدا سے جو تشبیہ دی ہے وہ مجھ ایسے مذہب اور
ادب کے ادنیٰ طالب علم کو ذرا عجیب وغریب سا محسوس ہوتاہے، آپ بھی اُن
اشعار کو دیکھیں ؎
براق اِس شان سے جاتا ہے اوپر
کہ جیسے لفٹ چھت پر چڑھ رہا ہے
ہے جاتا تار و ٹیلی فون جیسے
رواں جیسے کہ ریڈیو کی صدا ہے
حضور محدثِ اعظم ہند سیدؔ محمد اشرفی کچھوچھوی کے اس ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ کا
مکمل تجزیہ کرتے ہوئے معروف علمی شخصیت ڈاکٹر عبدالمجید بیدارؔ (سابق
پروفیسر و صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونی ورسٹی ، حیدرآباد) اپنے ایک مضمون
’’محدث کچھوچھوی کے منظوم معراج نامہ کی امتیازی خصوصیات ‘‘ میں یوں راقم
ہیں :
’’ معراج نامے کی یہ خصوصیت ہے کہ اس شعری اظہار کے توسط سے حضرت علامہ نے
جہاں منظر نگاری کو جگہ دی ہے وہیں ہر مصرعہ کو خیال کی بلندی تک پہنچادیا
ہے۔ چناں چہ ’’ معراج نامہ‘‘ کی تشبیبِ اوّل ’’نیچرل سنیری ‘‘ پر مرکوز ہے
۔ جس کے توسط سے مسلسل پینسٹھ اشعار حضرت علامہ نے فطری منظر کو پیش کرتے
ہوئے جہاں موجِ صبا، بادِ بہاری ، ابرِ کرم اور بزمِ ہستی کا ذکر کیا
ہےوہیں گل ہاے رنگیں، فرازِ کوہ ، شب کے ستاروں اور سیاہی کے علاوہ حرم ،
حجرے ، پھول اور مستی کے حوالے سے ایسی دل فریب منظر کشی کی ہے کہ جس کو
پڑھ کر تحسین کے ساتھ ساتھ شاعر کی زبان و بیان اور شعر فہمی پر دسترس کا
ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ جہاں تشبیبِ اوّل کو فطری منظر نگاری سے وابستہ کیا
گیا ہے وہیں شاعر کے فن کا کمال ہے کہ اس نے علمی بصیرت اور فکری فضیلت کو
کام میں لاتے ہوئے ’’معراج نامہ‘‘ کی تشبیبِ دوم کو تاریخی علمی پس منظر
میں نمایاں کیا ہے ۔ تشبیب کے اس دوسرے حصے میں بھی تاریخی واقعات اور علمی
احساسات کوبیان کرنے کے دوران جہاں شعری حُسن اپنے جلوے دکھاتا ہے وہیں
واقعات کی پیش کشی مرحلہ وار شعری حُسن میں ڈھل کر یہ ثابت کرتی ہے کہ شاعر
نےمنظوم پیش کشی کے دوران حُسن کارانہ دلائل اور فن کارانہ اظہار کے ذریعہ
شاعری کو کرامت کے درجہ میں داخل کردیاہے۔ تشبیبِ دوم کے زیادہ تر اشعار
میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی معراج کی روانگی سے لے کر واپسی
تک کے احوال کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ ہر شعر پر دل کی گہرائیوں سے
داد و تحسین کے نعرے بلند ہوتے ہیں ۔ ‘‘
سید الشعرا ءحضور محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی کے گوناگوں شعری
و فنّی محاسن سے آراستہ دل آویز’ قصیدۂ معراج‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ اس
خیال کو تقویت پہنچاتاہے کہ ’’ واقعات کی پیش کشی مرحلہ وار شعری حُسن میں
ڈھل کر یہ ثابت کرتی ہے کہ شاعر نےمنظوم پیش کشی کے دوران حُسن کارانہ
دلائل اور فن کارانہ اظہار کے ذریعہ شاعری کو کرامت کے درجہ میں داخل
کردیاہے۔‘‘ آپ کی شعری و فنّی ریاضت، جذبۂ تخیل کی بلندی ، علم و فضل کی
گہرائی و گیرائی، تاریخ و سیرت کے گہرے مطالعہ ، تہذیب و اَخلاق سے واقفیت
اور زبان و بیان پر استادانہ مہارت و قدرت نے اس قصیدے کو ہر اعتبار سے دو
آتشہ بنادیا ہے جو ہر اعتبار سے لائقِ تحسین و آفرین ہے۔ واقعۂ معراج کے
رموز و اَسرار کو سہلِ ممتنع کا آئینہ دار بناتے ہوئے جن نادر تشبیہات و
استعارات کا برملا استعمال کیا ہے وہ عام قاری کو بھی بوجھل محسوس نہیں
ہوتا۔ قصیدے کا ایک ایک شعر شبِ معراج کا خوب صورت عکس ابھارتے ہوئے
پیرایۂ بیان کی مٹھاس ، الفاظ و تراکیب کی ندرت ،تصویریت کے حسین تصورات،
پیکریت اور امیجری کی نادرہ کاری کے نت نئے تازہ کار گل بوٹے کھلاتاہے۔ اس
قصیدے کی ان ہی خصوصیات کے مدِ نظر اسے جدت و ندرت کا ایک دل کش نمونہ قرار
دینا غیر مناسب نہ ہوگا۔
ڈاکٹر فرحت علی صدیقی مرحوم و مغفور نے حضور محدثِ اعظمِ ہند سیدؔ
محمداشرفی کچھوچھوی کے ’’ قصیدۂ معراج‘‘ کا جدید ہیئت اور فنی لحاظ سے
جائزہ لیتے ہوئے اپنے مضمون ’’حضرت سیدؔ محمد کچھوچھوی کا قصیدۂ معراج ،
مشمولہ : جہانِ نعت جنوری تا جون ۲۰۱۵ء میں درج ذیل خصوصیات اور محاسن کو
بیان کیاہے:
’’اوّل : یہ قصیدہ اپنی ہیئت میں نظم، قصیدہ اور غزل جیسی خصوصیات کا
مجموعہ معلوم ہوتاہے۔
دوم: یہ کہ اس کی طبع آزمائی طرحی مصرعہ پر ہوئی ہے جب کہ اردو قصیدوں میں
ایسی روایت عموماً مستعمل نہیں۔
سوم: یہ کہ سیدؔ محمد کچھوچھوی کا یہ پورا قصیدہ قافیہ ردیف سے آراستہ اور
فنّی خوبیوں سے سجا ہوا ہے اس کے برخلاف دیگر قصیدے صرف قافیہ کی پابندی سے
موزوں کیے گئے ہیں۔
چہارم : یہ کہ اردو ادب کا شہ کار قصیدہ’’ المدیح المرسلینﷺ‘‘ کی تشبیب کی
ابتدا شرک یا کفرستان سے ہوئی ہے جب کہ سیدؔ محمد کچھوچھوی کے ’’قصیدۂ
معراج‘‘ کی ابتدا عربستان سے کی گئی ہے ۔
پنجم: یہ کہ محسنؔ کاکوروی نے ذاتِ رسالت مآب ﷺ کو مرکز بناکر قصیدہ نظم
کیا ہے۔ برخلاف اس کے سیدؔ کچھوچھوی نے واقعۂ معراج کے حوالے سے صفات و
عظمتِ نبوی ﷺ کو کلام کا محور بنایاہے۔
ششم: یہ کہ دیگر قصیدوں کی بہ نسبت’’ معراج نامہ‘‘ میں نادر تشبیہات و
استعارات کو بروے کار لایا گیا ہے۔ غرض ایسی بہت سی خوبیاں اور بھی ہیں جو
محققین و ناقدینِ شعر و سخن اگر اس طرف توجہ فرمائیں تو ان کا قلم آپ کے
اس قصیدہ کو دوسرے قصیدوں سے ممتاز و ممیّز کرسکتا ہے۔
ہفتم: یہ کہ طرحی مصرعہ پر ردیف و قافیہ کی پابندی کے ساتھ ۵۲۷؍ اشعار پر
پھیلا ہوا یہ قصیدہ ’’معراج نامہ ‘‘ بہ لحاظِ ہیئت و نوع اپنی طرز کا ایک
منفرد کلام کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے۔ ان ندرتوں سے بلاشبہ قصیدہ نگاری کی
شان اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حضرت سید محمد اشرفی جیلانی علیہ
الرحمہ نے سادہ اور سلیس انداز میں واقعہ کی حُسن کاری کو نمایاں کرتے ہوئے
شبِ معراج و اسراکی روحانی و نورانی کیفیات ، شام و سحر کی عکاسی اور منظر
نگاری کی مدد سے تاثرات کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے حقیقتِ معراج کا
بیان شاعری کی معراج تک پہنچ گیا ہے۔ ‘‘
حقیقتِ معراج کا بیان شاعری کی معراج تک پہنچانے والے سید الشعراء محدثِ
اعظمِ ہند سیدؔ محمداشرفی کچھوچھوی نور اللہ مرقدہٗ کا شاعری کو کرامت کے
درجے میں داخل کرنے والا یہ خوب صورت اور دل آویز ’’قصیدۂ معراج‘‘ مختلف
النوع شعری محاسن سے سجا سنورا اپنی نوعیت کی ایک منفرد ’’قصیدہ نمانظم‘‘
یقیناً مطالعہ کے لائق ہے ۔ اہلِ نقد و نظر اور اربابِ شعر و ادب کو چاہیے
کہ اپنے طرز و انداز کے لحاظ سےجدت و ندرت کے آئینہ دار اس قصیدے کو اپنی
نقد و نظر کا محور بناکر اس کے محاسن کو دنیاے ادب میں پیش کریں ۔ میں اس
قصیدے کی اشاعت کرنے پر محبِ گرامی جناب غلام ربانی فداؔ صاحب کو ہدیۂ
تبریک و تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے مضمون کا اختتام حضرت ڈاکٹر فرحت علی
صدیقی مرحوم و مغفور کے ان جملوں پر کرتا ہوں : ’’ معراج نامہ ایک ’قصیدہ
نما نظم‘ ہے جس میں ایک جانب تو مثنوی کے تسلسل کو تجرنے کے طور پر استعمال
کیا گیا ہے تو دوسری طرف قصیدہ کے دوسرے جز یعنی گریز سے اجتناب برتتے ہوئے
ایک ایسی شعری ہیئت کو تجربے کےتوسط سے استعمال کیا ہے جس میں قصیدے کے
تشبیب میں پیش ہونے والی بے راہ روی کا کوئی دخل نہیں----عام طور پر اردوکے
شاعروںنے ہیئت کے تجربوں اور اصناف کی تبدیلیوں کے دوران دو اصناف کو ملا
کر ایک نئی صنف کی بنیاد رکھی جیسےقصیدہ نما نظم، قصیدہ نما مثنوی، یا پھر
نثری نظم وغیرہ لیکن حضرت سید ؔ محمد کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کی خوبی یہ
ہے کہ انھوں نے مثنوی ، قصیدہ اورنظم کے انداز کو ایک شعری رویے میں پیش
کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف ’’معراج نامہ‘‘ کی تخلیق انجام دے رہے
ہیںبلکہ تین شعری ہیئتوں کے خوب صورت سنگم کے ذریعہ ایسا کامیاب تجربہ
انجام دئیے ہیں جس سے ہر قسم کی شعری ہیئت ان کے سوچ کا محور بن جاتی ہے ۔
اس طرح طویل نظم’’ معراج نامہ‘‘ بیک وقت قصیدہ اور مثنوی کی روایتوں کو
ساتھ لے کر حضرت علامہ کچھوچھوی کی شعری تخلیق تجربے کی ایک ایسی دلیل بن
جاتی ہے جس کے بانی اور روایت گزار حضرت سید ؔ محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی
ہی قرار پائے ہیں۔ ‘‘
(۲۲؍ شوال المکرم ۱۴۳۶ھ/۸؍ اگست ۲۰۱۵ء بروز سنیچر)
{……} |
|