’’زیست کا عنوان‘‘…اُجلے تخیلات کی تقدیسی شاعری
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
نوعمر و تازہ کارعالم و شاعر مولانا
عبداللہ سرورؔ اعظمی نجمی کی تقدیسی شاعری کا اولین مجموعہ ’’زیست کا
عنوان‘‘ پیشِ نظر ہے۔ اِس میں حمد و دعا ، نعت و مناقب اور حضور تاج
الشریعہ مفتی محمد اختر رضا قادری برکاتی ازہری میاں کی دو مشہور ِ زمانہ
نعتوں پر خوب صورت تضامین شامل ہیں ۔ یہ مجموعہ ذاتِ رسول مقبول صلی اللہ
علیہ وسلم کے عشق و محبت اور آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ
طیبہ کا ایک حسین گل دستہ ہے جس کے ایک ایک شعر سے شاعر کا والہانہ خلوص،
فداکارانہ عقیدت ، شریعتِ مطہرہ کا التزام ، الفاظ کا مناسب رکھ رکھاو اور
شعریت کے حُسن کی جھلکیاں صاف طور پر نماں نظر آتی ہیں۔ سرورؔ صاحب نے
اپنی تقدیسی شاعری کو جن لفظیات سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے ، اُس میں
دل کشی بھی ہے اور تازگی و طرفگی بھی۔ سرورؔ صاحب نے لسانی تعملات سے جن
تراکیب کو طلوع کیا ہے اُن میں پیکریت اور امیجری بھی دکھائی دیتی ہے ۔
’’زیست کا عنوان‘‘ سے چند تراکیبِ لفظی ملاحظہ کریں تاکہ شاعر کی زباں دانی
کا ایک ہلکا سا اشاریہ سامنے آجائے :
’’مالکِ کل شہ دوسرا / شہنشاہِ ارض و سما / ضیاے ہر نظر / سیدِ خوباں /
مذاقِ بندگی / ساقیِ سلسبیل/ بادۂ دید/ شبابِ فیض / زلف معنبر کا اُسارا/
محبوبِ ربِّ صمد / خوشۂ رحمت/ فزوں عرشِ معلا سے / ثریا سے فزوں مینار /
رخِ انور تجلاے خدا کا آئینہ / قدومِ ناز / نغمۂ شوق / تجلاے خدا ، جلوہ
نبی کا / رشکِ بُستاں /خزاں رسیدہ خیاباں / زیست کا عنوان / غبارِ راہِ
سرکارِ مدینہ / جامِ ولاے شاہِ بطحا / رشکِ قدس و زیبِ تاجِ قدسیاں / اے شہ
دیں شفیع الورا / مالکِ کل خاتمِ پیغمبراں / اصفیا کے رُخِ زیبا کا غازہ /
صدرِ بزمِ امکاں / ذوق افزا شہ کوثر کی شفاعت … وغیرہ وغیرہ ،
نعت گوئی کا فن کوئی معمولی حیثیت کا حامل نہیں کہ ہر کس و ناکس اسے ریاضت
کرکے سیکھ لے، یہ سعادت انھیں خوش بخت افراد کے نصیبے میں آتی ہے جن پر
فضل الٰہی اور فیضانِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی چادر
سایہ کناں ہوتی ہے۔ اردو نعت گوئی کی تاریخ میں کفایت علی کافیؔ ، محسن
کاکوروی ، امام احمد رضا بریلوی، حسن رضا بریلوی ، نوریؔ بریلوی وغیرہم نے
جو دل کش نقوش ابھارے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ علاوہ ازیں نعت گوئی کے فن
کو وسعت دینے والے حضرات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جن میں ’’زیست کا عنوان‘‘
کے مصنف محمد عبداللہ سرورؔ اعظمی نجمی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ موصوف
نے صنفِ نعت میں کافی اچھے اور خوب صورت اشعار زیب قرطاس کیے ہیں۔
سرورؔ صاحب ابھی نوعمر ہیں ۔ ایک مذہبی درس گاہ کے فارغ التحصیل عالم ہیں ۔
نیک لوگوں کی صحبت پائی ہے ۔ بچپن سے نعتیہ نغمات سنتے آئے ہیں۔ جس کی وجہ
سے ان کے نہاںخانۂ دل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن ہے۔
اسی جذبۂ عشق کے اظہار کے لیے آپ نے نعتیہ شاعری کو بہ طورِ وسیلہ
استعمال کیا اور اس میدان میں کامیابی آپ کے قدم چومتی نظر آرہی ہے۔
’’زیست کا عنوان ‘‘ آپ کے موے قلم کااولین شعری سرمایہ ہے ۔ جس میں آپ نے
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت کے گن گائے ہیں ۔ طبیعت
کی موزونی اور علمی پس منظر نے آپ سے صاف ستھرے شعر کہلوائے ہیں ۔ کہیں
کہیں آمد کے جِلو میں آورد کا اظہاریہ بھی ابھرتا ہے ۔ مضامین کی تکرار
بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن کہیں کہیں ایسی پختگی پائی جاتی ہے کہ محسوس
نہیں ہوتا یہ کسی نوعمر شاعر کا کلام ہے، چند شعر نشانِ خاطر ہوں ؎
جھکائیں کج کلہ سنگِ درِ جاناں پہ سر اپنا
جہاں دم توڑتی ہے سروروں کی سروری تم ہو
مالکِ کونین ہو کر سادگی بے انتہا
تختِ شاہی سے فزوں تیری چٹائی خوب ہے
گریباں چاک ہیں آنکھوں میں کم خوابی کا عالم ہے
تمہارے در پہ میرے دل کی سب حسرت نکل جائے
پڑھیں کلمہ حجر ، دوڑیں شجر ، مردے بھی جی اٹھیں
دمِ عیسا تمہارا ہے ، یدِ بیضا تمہاراہے
مدینے والے کی یادیں بسی ہوں جب دل میں
تو دل شگفتہ یہ مثلِ گلاب ہوتا ہے
کا میابی کے سب نصابوں میں
ان کی الفت کاباب داخل ہے
نعت گوئی کا محرک حقیقی عشقِ رسول ﷺ ہے ۔ یہ عشق جتنا پرخلوص اور والہانہ
ہوگا ، فن کار کی شاعرانہ ریاضتیں اتنی ہی زیادہ تاثیر کے جوہر سے آراستہ
و مزین ہوں گی۔ سرورؔ اعظمی نے جس تقدیسی و ملکوتی اوصاف کے حامل ’’دبستانِ
بریلی‘‘ سے اکتسابِ فیض کیا ہے ،اس کی محبت رسول ﷺ میں ’’محتاط وارفتگی ‘‘
اظہر من الشمس ہے۔ اس لحاظ سے اُن کے یہاں موضوعات میں تقدس ، خیالات میں
طہارت اور اظہارِ عشق میںاعتدال نظر آتا ہے ۔ مبالغہ و غلو سے پَرے یہی
نعت گوئی دراصل شاعر کے لیے اخروی نجات کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ سرورؔ صاحب
کی نعتوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ناچیز اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ
نعت گوئی کے فن کی باریکیوں سے نہ صرف واقف ہیں بل کہ ان کو کامیابی سے
برتنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے موصوف کا کلام بے جا خیال
آرائیوں سے پاک و صاف دکھائی دیتا ہے ۔ شاعر نے قدم قدم پر اپنے خیالات و
محسوسات کو ادا کرنے میں سچائی اور صداقت کا پاس و لحاظ رکھا ہے ۔
سرورؔ صاحب نے لفظیات میں تنوع لانے کے ساتھ ساتھ زمینوں اور بحروں کے
انتخاب میں بھی عمدگی برتی ہے ۔ بعض ردیفیں اور قوافی جدت و ندرت کی آئینہ
دار ہیں ؎
ولاے مصطفی دل میں بسا کر آج تم نکلو
ثناے مصطفی لب پر سجا کر آج تم نکلو
وہ نورِ کبریا جب انسان بن کے چمکا
جگ میں وہ نور رشکِ بستان بن کے چمکا
جن کا رخ مثل بدرِ کامل ہے
وہ جو سب خوبیوں کا حامل ہے
جس جگہ بھی رب تعالیٰ کی خدائی خوب ہے
مصطفی کی اس جگہ پر مصطفائی خوب ہے
جہاں پہ ذکر رسالت مآب ہوتا ہے
خدا کا لطف و کرم بے حساب ہوتا ہے
تیری مدحت جو کیا دہر میں محمود ہوا
تجھ سے رکھے جو عداوت وہی مردود ہوا
سرورؔ نے سہیل پیرایۂ زبان و بیان میں سادگی و سلاست ، برجستگی و سادگی
اور سلیقہ مندی کے ساتھ آدابِ نعت کا خیال رکھتے ہوئے معتبر مضامینِ نعت
کو اشعار کے پیکر میں خوب صورتی سے ڈھالا ہے۔ فکر و فن کے لحاظ سے بھی سرور
ؔ کی شاعری خوب ہے ۔ صنائع لفظی ، استعارات ، تراکیب اور پیکریت کی مثالیں
بھی ’’زیست کا عنوان‘‘ میں چار چاند لگائے ہوئے ہیں سرورؔ نے اپنے تخلص کی
مناسبت سے کس درجہ خوبی کے ساتھ تجنیس تام کا کام لیا ہے، ملاحظہ ہو ؎
جو سرورؔ ، سرورِ کونین کی نعتیں سناتا ہے
کوئی مچلے ولاے مصطفی میں کوئی جل جائے
اردو لفظیات کے ساتھ عربی ، فارسی اور ہندی لفظیات کا حسین امتزاج سرورؔ کے
اسلوبِ شاعری کو ایک اچھوتا بانکپن عطا کرتا نظر آتاہے ۔ ساتھ ہی ذیل کی
مثالیں صنعتِ تلمیع اور صنعتِ اقتباس میں بھی شامل ہیں ؎
اشارہ یہ رفعنا میں ہے روشن
جہاں میں ذکر اونچا ہے نبی کا
( قرآنی آیت کا جز)
صفت ان کی عنتّم ہے تو کیسے؟
گدا ہو رنج سے دوچار ان کا
( قرآنی آیت کا جز)
اذہبوا غیری کی ہے جب کہ صدا چاروں طرف
عاصیوں کو اپنے دامن میں چھپانا خوب ہے
( حدیث پاک)
گزر گاہِ ارم پر و ہ کھڑے ہیں
صدا جب ربِّ سلم کی لگائے
(حدیث پاک)
عربی کے علاوہ ہندی اور فارسی لفظیات کی مثالیں ملاحظہ کریں ؎
پیوں میں جامِ ولاے شاہِ بطحا
مَیں اپنے دل کی دنیا کو سجاؤں
ہے روشن چاند سے چہرہ نبی کا
تجلاے خدا جلوہ نبی کا
جہاں میں تاج ور تم ہو
ضیاے ہر نظر تم ہو
سب مری اور بڑے رشک سے دیکھا کرتے
ساری دنیا کے لیے مثل نمونہ ہوتا
وہ نورِ کبریا جب انسان بن کے چمکا
جگ میں وہ نور رشکِ بستان بن کے چمکا
خالص ہندی لفظ ’’اُسارا‘‘ بمعنی سائبان کا فارسی ترکیب ’’زلف معنبر‘‘ کے
ساتھ فن کا رانہ استعمال تو بڑا لطف دے رہا ہے ؎
گرمیِ حشر کا پھر خوف نہ ہوتا مجھ کو
تو اگر زلف معنبر کااُسارا کرتا
علاوہ ازیں ذیل کا شعر تو بڑا ہی خوب صورت اور دل کش ہے ، تصویریت کا حُسن
اور منظر کشی کا جمال لائق دید و شنید ہے ؎
نبی کے رخ پہ ہیں زلفین کچھ اس طرح سرورؔ
کہ جیسے ماہِ مبیں پر سحاب ہوتا ہے
مذکورہ زمین کے مزید دو شعر ملاحظہ کریں اور سلاست و روانی کی داد دیں ؎
نبیِ پاک کے روضے پہ دیکھ لو آکر
خدا کے جلووں کا اٹھا حجاب ہوتا ہے
اگر ہوں آخری منزل مدینے کی گلیاں
تو زندگی کا سفر لاجواب ہوتا ہے
سرورؔ نے معجزات ِ نبوی علیہ السلام کا بیان بھی دل کش پیرایے میں کیا ہے
جو صنعت تلمیح کے ضمن میں آتے ہیں ، جن کی مثالیں ’’زیست کا عنوان‘‘ میں
جا بہ جا دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس مجموعہ میں شامل نعتِ پاک ’’کاش! مَیں نعلِ نبی کا کوئی ذرہ ہوتا
ہے‘‘میں سرورؔ صاحب نے جس ایمانی تمنا کا والہانہ اظہار کیا ہے، وہ قابل
رشک اور ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداے قلبی ہے، چند شعر پڑھیں
اور لطف و سرور کو دوبا لا کریں ؎
کاش! مَیں نعل نبی کا کوئی ذرہ ہوتا
اپنی قسمت پہ مَیں ہر آن مچلتا ہوتا
لعل و گوہر مری قسمت پہ فدا ہوجاتے
شاہِ کونین کے قدموں سے مَیںلپٹا ہوتا
ان کے قدموں کے مَیں جب چاہتا بوسہ دیتا
بالیقیں اوج پہ میرا بھی نصیبہ ہوتا
ان کے قدموں سے لپٹ کر مجھے ملتی عزت
اصفیا کے رخ زیبا کا مَیں غازہ ہوتا
اسی طرح ’’اے شہ دیں شفیع الورا‘‘- ’’ضیاے ہر نظر تم ہو‘‘- ’ ’ لامکاں تک
سرورِ دیں کی رسائی خوب ہے‘‘- ’’اے مسیحا ترے قربان مسیحائی ہے‘‘- ’’بس چلے
تو حشر ہی برپا کرے‘‘- ’’ ان کا مدحت سرا مرا دل ہے‘‘- ’’ آپ کی مدح سرائی
مرا مقصود ہوا‘‘- ’’ کردیا سب نے جبیں سائی ترے دربار میں‘‘- جیسی نعتیں
بہت خوب اور لائقِ مطالعہ ہیں ۔
سرورؔ صاحب نے قاضی القضاۃ فی الہند حضور تاج الشریعہ علامہ ازہری میاں دام
ظلہ العالی کی دو شہرۂ آفاق نعت ’’سنبل جا اے دل مضطر مدینہ آنے والا
ہے‘‘ اور’’ مصطفاے ذاتِ یکتا آپ ہیں‘‘پر تضمین بھی قلم بند کی ہے ۔ جو
عقیدے اور عقیدت کے ساتھ فکر و فن ، جذبہ و تخیل اور زبان و بیان کے لحاظ
سے بھی بلند معیار ہیں۔ دونوں تضمین سے ایک ایک بند خاطر نشین کریں ؎
ہے مہبط قدسیوں کا بالیقیں وہ روضۂ جاناں
دل عشاق کی ٹھنڈک ہے دیدِ جلوۂ جاناں
مرے دل میں ہے حسرت دیکھ لوں مَیں قبۂ جاناں
’’ مجھے کھینچے لیے جاتا ہے شوقِ کوچۂ جاناں
کھنچا جاتا ہوں مَیں یک سر مدینہ آنے والاہے‘‘
رشکِ قدس و زیبِ تاجِ قدسیاں
جس سے روشن ہیں زمین و آسماں
مالکِ کل خاتمِ پیغمبراں
’’زیب و زینِ خاک و فخرِ خاکیاں
زینتِ عرش معلا آپ ہیں‘‘
نعتیہ نغمات کے بعد سرورؔ صاحب نے اصحابِ بدر ،حضرت عثمان غنی ، حضرت علیِ
مرتضیٰ ، حضرت امام حسین ، حضرت غوث اعظم ، حضرت خواجہ غریب نواز، امام
احمد رضا بریلوی رضی المولیٰ عنہم کی شان میں مناقب بھی نظم کی ہے۔ جواِن
بزرگوں کے تئیں آپ کی مخلصانہ محبت و عقیدت کی غمازی کرتی ہیں ، سرورؔ
صاحب نے ان مناقب میں تاریخی واقعات وغیرہ سے کام لے کر بعض اشعار کو صنعتِ
تلمیح سے سجا دیا ہے۔
سرورؔ صاحب نے اتنی کم عمری میں جس مقدس شعری خزانے سے نعتیہ ادب میں ایک
دل کش گل دستے کا اضافہ کیا ہے، اُس مجموعۂ کلام کی حوصلہ افزائی نہ کرنا
اںصاف کے خلاف ہوگا ۔ موصوف اسی طرح نعت گوئی کے میدان میں اپنا اشہبِ قلم
دوڑاتے رہیں اسی نیک خواہش کے ساتھ دعا ہے کہ روشن جذبات اور اجلے تخیلات
کی یہ تقدیسی شاعری سرورؔ اعظمی کی ’’ زیست کا عنوان‘‘ بن کر میدانِ محشر
میں ’’نجات کا سامان ‘‘بھی بن جائے ۔ ( آمین)
( ۲۴؍ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ/ 20/12/2012منگل صبح 09:30)
{……}
|
|