بھارتی سیکولرازم کے بنگلہ دیش پر اثرات
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں پر حکومت کے بدترین تشدد
|
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ہیومن رائٹس واچ(Human Rights Watch)کی عالمی رپورٹ سال 2015 کے مطابق’’
بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی سیاسی جماعت ’’عوامی لیگ‘‘نے2014کے
انتخابات میں اس وقت بھاری اکثریت حاصل کرلی جب باقی تمام بڑی سیاسی جماعوں
نے منعقد ہونے والے ان انتخابات میں حصہ نہ لینے کافیصلہ کیاتھا۔حزب اختلاف
کی سیاسی جماعتو ں کاموقف تھا کہ انتخابات کاانعقاد ایک غیرجانبدار عبوری
حکومت کے زیرنگرانی ہوناچاہیے،اس مقصد کے لیے طویل مزاکرات کے کئی
ادوارہوئے اور اقوام متحدہ نے بھی ثالثی کی کوشش کی لیکن عوامی لیگ اپنے
انکارپرقائم رہی ۔حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سڑکوں پر ہونے والے ٹکراؤ
میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘‘جن انتخابات کے بعد عوامی لیگ حکومت
میں آئی ان کی حقیقت ایک ڈھونگ ،دھوکہ دہی اور فراڈ کے سوا کچھ نہ
تھی۔2014کے انتخابات میں ملک کی تمام بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے حصہ لینے سے
انکارکردیاتھااوراعلی پارلیمان کی تین سو میں سے ایک سوچون نشستوں پر مخالف
امیدوار موجود ہی نہیں تھے۔انتخابات کے جونتائج برآمد ہونے تھے اس کااندازہ
لگایا جاسکتاہے جس کے باعث حزب مخالف نے نتائج ماننے سے
انکارکردیا۔انتخابات کے بعد بھی فریقین کے درمیان مزاکرات چلتے رہے اور
اقوام متحدہ ے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی بنگلہ دیش کے ان سیاسی
معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی لیکن عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے کسی کی نہ
مانی اور ان کی ہٹ دھرمی کے باعث معاملات بڑی تیزی سے خرابی بسیار کی جانب
بڑھتے چلے گئے۔انتخابات والے دن اکیس افراد کی ہلاکت اور چارسوسے زائد زخمی
افراد کی تعداد نے انتخابات کے بعد کے ماحول کو مزید بگاڑ کی طرف دھکیل
دیاجب کہ سینکڑوں انتخابی مقامات مسلسل تناؤ کاشکاررہے اور متعددکو نذرآتش
بھی کردیاگیا۔
ان بدمعاشیوں، بدعنوانیوں،دھونس دھاندلیوں اورسیاسی ہٹ دھرمیوں سے بننے
والی حکومت سے بعد میں کسی عدل و انصاف اور خیرومصلحت کی توقع کرنا اپنے آپ
کو محض خوش فہمی کاشکار کرنے کے مترادف ہے۔جب عوامی لیگ کی حسینہ واجدنے
دیکھ لیاکہ وہ عوامی حمایت سے محروم اور ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ چلنے
کی اہل نہیں رہیں تو انہوں نے بھارت سمیت نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘کی
حمایت حاصل کرنے کے لیے ریاست کے اندر اسلام پسندوں کو ٹھکانے لگانے کا
پروگرام بنالیا جس پر کہ وہ ان انتخابات کے پہلے سے عمل کرتی چلی آ رہی
تھیں۔داخلی حمایت سے محروم اور خارجی حمایت کی طلب گار عوامی لیگ کی حسینہ
واجد نے درجن بھرسے زائد بزرگ اسلام پسند راہنماؤں کوعدل و انصاف کے تقاضے
پورے کیے بغیر تختہ دار پر لٹکا دیا۔ان میں سے بعض بزرگ صاحب فراش تھے اور
اپنی عمر کے سترستر سال بھی پورے کرچکے تھے۔ایک نام نہاد جنگی مقدمات کی
عبوری عدالت کے قیام کے ساتھ ہی کم و بیش نصف صدی پرانے الزامات کے تحت ان
بزرگ راہنماؤں کو گھروں سے اٹھاکر قیدوبند کی صعوبتوں کے سپردکیاگیااور
پیرانہ سالی کی پرواہ کیے بغیر ان پر بے پناہ تشددکر کے اور ان کو اپنے
دفاع کا خاطر خواہ حق دیے بغیر ریاستی مشینری پر ناجائز دباؤ کے ذریعے
انہیں پھانسی دے دی گئی۔ملک میں جب ان ناجائزظلم رسائیوں کے خلاف آواز بلند
ہوئی تو عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے کل اسلام پسندوں کے خلاف ایک مہم شروع
کر دی جس میں گھروں سے اٹھا لینا،ہراساں کرنا،بغیر مقدمات کے آہنی سلاخوں
کے پیچھے بندکردینا اور طرح طرح کی تکالیف بہم پہنچانا بھی شامل ہے۔
28فروری 2013کو دلاور حسین سیدکی سزائے موت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں
حکومتی اداروں نے ایک ہی دن میں سولہ افراد کو قتل کردیااور بعدمیں آنے
والے دنوں میں ساٹھ افرادکو مارڈالا گیا۔جون2016ء تک بنگلہ دیش کی پولیس کے
مطابق ایک شہرنوسوسے زائد اسلام پسندافراد کو حراست میں لیاجاچکاتھااور
پولیس کی اپنی رپورٹس کے مطابق پورے ملک سے گرفتارہونے والوں کی تعداد آٹھ
ہزار سے متجاوز ہے۔یہ تعدادتو ان قیدیوں کی ہے جن کی گرفتاری دستاویزات میں
موجود ہے،جو ماوارائے قانون غائب ہیں ان کی کوئی تعداد معلوم نہیں۔ان کے
ورثادربدر کے دھکے کھاتے ہیں،ہرجگہ انہیں ذلیل و خوار کیاجاتاہے اور کہیں
انکار توکہیں تکرار کے بعد صبح سے شام تک اپنے پیاروں کاپتہ کرنے والے
مہینوں کے بعد بھی ان کاکوئی سراغ نہیں پا سکتے۔اسی طرح 20ستمبر2016کوایک
مظاہرے کے دوران پولیس نے چھ سو افراد کو حراست میں لے لیا،حکومت کے خلاف
یہ مظاہرہ بنگلہ دیش کے اسلام پسند کررہے تھے کیونکہ حسینہ واجد نے ان کے
دو مرکزی راہنماؤں کو بلاوجہ گرفتارکرلیاتھا۔حسینہ واجد کا جذبہ انتقام اس
حد تک بڑھ چکاہے کہ خاتون ہوئے بھی اسے خواتین کااحترام لاحق نہیں ہے اور
چٹاگانگ اور سلہٹ جیسے شہروں سے اسلام پسند خواتین راہنماؤں کو بھی ان کے
گھروں سے ناجائز گرفتارکرلیاگیاہے۔ان میں سے بعض خواتین خود اسلام
پسندخواتین کی راہنما ہیں اور بعض خواتین اسلام پسندراہنماؤں کی اہل خانہ
میں سے ہیں۔اغیارکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حسینہ واجد اس گہرائی تک
جااتریں گی اس کاتوتصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔خواتین کااحترام کاغیراقوام
بھی کرتی ہیں لیکن یہاں کے رویے سیکولرازم سے مستعارہیں۔ حالات کی شدت اتنی
بڑھی کہ مظلوموں کی چینخیں بنگلہ دیش سے باہر بھی سنی جانے لگیں توعالمی
تنظیم برائے مسلم ماہرین(International Union of Muslim Scholars IUMS)کے
بین الاقوامی اسلامی راہنما علامہ یوسف القرضاوی بھی بول اٹھے اور انہوں نے
عوامی لیگ کی حکومت سے اپیل کی کہ بنگلہ دیش کے حکمران اپنے مخالفین کو
پھانسیاں دینابندکریں اور انہوں نے شیخ حسینہ واجد سے مطالبہ بھی کیاکہ ملک
میں جلدازجلدانتخابات کرائے جائیں تاکہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو۔ترکی نے
بھی اسلام پسندوں کی پھانسیوں پر بنگلہ دیش کی حکومت سے شدید احتجاج کیاہے
اور عالم اسلام کے اندرخاص طور پر جب کہ باقی دنیاؤں میں عام طورپر ایک
عمومی نفرت کی فضا پھیل رہی ہے جس میں بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کو نفرتوں
اور حقارتوں کے تندوتیزحملوں کاسامنا ہے لیکن ان سب کے باوجود بنگلہ دیش کی
حکومت نے بری طرح ہٹ دھرمی کامظاہرہ کیاہے اوراسلام پسندوں کے خلاف اب تک
بھی حکومتی رویہ میں کوئی تبدیلی رونمانہیں ہوئی۔
1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے نتیجے میں بنگالی عوام کوبے پناہ سبزباغ
دکھائے گئے تھے اور خیالی پلاؤکھلائے گئے تھے،اس وقت یہ کہاجاتاتھا کہ
بنگالی قوم کی غربت اور جہالت کی وجہ مغربی پاکستان ہے اور اسلام آباد کی
سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے اور پاکستانی کھاگئے بنگلہ دیش کو اور
پاکستانیوں نے بنگالیوں کا استحصال کررکھاہے اور غرب اور جہالت کی واحد وجہ
مغربی پاکستان اور پنجاب اور پاکستانی افواج ہیں،اب ہم اس بحث میں جاتے کہ
یہ باتیں حقیقت سے کتنی متعلق تھیں لیکن سیکولربھارت کی زبان بولنے والی
بنگالی قیادت نے پاکستان سے علیحدگی اور بھارت کی چھتری تلے آکر اپنی قوم
کوکیادیا؟؟؟بھارت کے بے فیض برہمن نے بنگلہ دیش کی جھولی میں ہیرے اور
جواہرات کے انبار لگادیے کیا؟؟کیا آج بھی مشرق وسطی سے مشرق بعید تک
دنیابھرمیں سب سے سستا مزدوربنگالی نہیں ہے؟؟عالمی سیاست میں پاکستانی
کرداراور بنگلہ دیشی کردار میں کوئی مطابقت ہے؟؟اور کیا آج تک بنگلہ دیش
اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں اور معاشی منصوبہ بندیوں میں
آزادہوسکاہے؟؟یہ سوالات نوشتہ دیوار ہیں جو چاہے پڑھ لے۔حقیقت یہ ہے
پاکستان کے ساتھ رہنے میں بنگلہ دیش ایک عالمی قدآور قوم کی حیثیت سے
پہچاناجاتا،بھارت اپنے کرتوتوں کے باعث مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی
چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس کرختم ہوچکاہوتااوراتحادواتفاق کی برکت سے
دونوں خطوں کے عوام آج ایک خوشحال زندگی بسر کررہے ہوتے۔لیکن افسوس کہ
مصنوعی، کم فہم اور جلدبازبنگالی قیادت نے اپنی قوم کوایک نام نہاد کھڈ سے
نکال کر ایک اندھے کوئیں میں دھکیل دیاجہاں سے آج تک بنگالی قوم کو
باہرنکلنے کی کوئی سبیل نظرنہیں آ رہی۔بھارت کے آسیب کو خوش رکھنے کے لیے
1971ء سے آج تک بنگلہ دیش قربانیوں کا مذبح خانہ بناہوا ہے،دنیابھرکی قومیں
دوسرے ملکوں میں بھی اپنے شہریوں کا مکمل دفاع کرتی ہیں لیکن بنگلہ دیشی
حکومت اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں کا گلا کاٹنے میں مصروف عمل ہے۔دراصل
یہی سیکولرازم کااصل چہرہ ہے جس کی پرچھائیاں بھارت سے بنگلہ دیش میں منتقل
ہو رہی ہیں۔جس طرح یورپ اور امریکہ میں سیکولرازم کی آڑمیں اسلام کو
دبایاجارہا ہے اسی طرح بھارت اور اب بنگلہ دیش میں بھی اسی سیکولرازم کانام
لے کر مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ان سیکولرز کے سامنے
ہندو،عیسائی،بدھ،سکھ یاکسی بھی اور مذہب کے ماننے والے آجائیں تو انہیں
انسانوں کے سارے حقوق یادآجاتے ہیں اور اسلام ،مسلمان،امت مسلمہ اورعلمائے
دین کانام آئے توان کی دہشت گردی کی رگ پھڑکنے لگ جاتی ہے لیکن حق اور باطل
کے درمیان اب آخری معرکہ برپاہے اور بہت جلد طلوع ہونے والا سورج نویدفتح
حق لے کرآنے والاہے،انشاء اﷲ تعالی۔
|
|