سرل المیڈا کی خبر کے بعد حکومت بظاہر عجیب
مخمسے کا شکار نظر آتی ہے۔ اس خبر پر حکومت کے کئی موقف ہیں جس کی وجہ سے
معاملہ بہت زیادہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ میں پہلے بھی اپنے کالم میں لکھ چکا
ہوں کہ اس خبر میں کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اس خبر کے
حوالے سے اتنی زیادہ سنسنی پھیلانے اور شور مچانے کے مقاصد کچھ اور ہیں مگر
پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ۔ جب مذکورہ خبر کو حکومت
اور ادارے جھوٹی اور بے بنیاد قرار دے چکے ہیں تو پھر اس پر اتنا زیادہ رد
عمل ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت کی طرف سے اس معاملے پر ہفتہ کو
وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کی قربانی دی دے گئی لیکن معاملہ یہیں پر بس
نہیں ہوا ۔ اتوار کو وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسی خبر کے
حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کی وضاحت کے لئے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
پریس کانفرنس میں چوہدری نثار نے ثابت کیا کہ جیسے ڈان میں چھپنے والی خبر
کے ذمہ دار صرف وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید ہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب
مذکورہ خبر پر رائے لینے کیلئے روزنامہ ڈان کے کے نمائندے نے پرویز رشید سے
رابطہ کیا تو انھوں نے اسے اپنے دفتر بلا لیا لیکن انھوں نے خبر رکوانے کی
کوشش نہیں کی۔ چوہدری نثار نے یہ نہیں کہا کہ پرویز رشید نے مذکورہ رپورٹر
سے کہا کہ یہ خبر جھوٹی ہے لیکن چوہدری صاحب کی گفتگو سے یہ تاثر ضرور ملا
کہ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کہ پرویز رشید نے خبر کو جھوٹا ثابت کرنے
کی بھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی خبر رکورانے کے لئے روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر
یا انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ اب یہاں ایک مرتبہ پھر کئی سوال جنم لے رہے ہیں
بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب تک اس معاملے کو طول دیا جاتا رہے گا اس وقت تک
اس میں سے درجنوں سوال جنم لیتے رہیں گے ، کسی طور بھی غلط نہیں ہو گا۔جب
حکومت اور تمام اداروں کا یہ اسرار ہے کہ خبر جھوٹی ہے تو پھر وہ کس بات کی
وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ جب خبر ہی جھوٹی ہے تو پھر کس طرح سیکیورٹی بریچ
ہو گئی؟ جب خبر ہی جھوٹی ہے تو پھر کس طرح خبر چھاپنے والے نے ملکی راز کو
افشا کر دیا؟ جب خبر ہی جھوٹی ہے تو پھر پرویز رشید کو ان کے عہدے سے کیوں
ہٹا دیا گیا؟ چوہدری نثار نے کہا کہ پرویز رشید کو چاہیے تھا کہ وہ ڈان کے
ایڈیٹر یا انتظامیہ سے رابطہ کر کے خبر رکوا دیتے۔ میں چوہدری نثار سے یہ
سوال کرتا ہوں کہ کیا اگر وہ وزیراطلاعات ہوتے تو وہ اس خبر پر کس طرح کا
رد عمل ظاہر کرتے۔کیا وہ زور زبردستی کر کے اس خبر کو رکوا سکتے تھے ؟ یا
اب بھی وہ وزیرداخلہ ہیں کیا آج وہ اپنی وزارتی طاقت استعمال کر کے کسی خبر
کو رکوا سکتے ہیں؟ ہاں پرویز رشید سمیت حکومت کا کوئی بھی وزیر صرف خبر کو
بے بنیاد اور جھوٹی قرار دے کر اس میں حکومتی موقف شامل کرنے کی درخواست
ضرور کر سکتا ہے اور یہ کام پرویز رشیدنے بھی کسی حد تک ضرور کیا ہو گا۔
دراصل سرل المیڈا کی اس خبر پر اتنا زیادہ رد عمل آنا کسی اور ہی فسانے کا
پتہ دے رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس خبر کو افسانہ بنانے کا کہیں
سے حکم صادر ہوا ہے اوراب ایسا لگ رہا ہے کہ اسی خبر کو بنیاد بنا کر
موجودہ حکومت کا ڈھڑن تختہ بھی جائے گا۔ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ
اس جھوٹی خبر سے حکومت کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ پاکستان کی اب تک یہ تاریخ رہی
ہے کہ یہاں ہر کچھ عرصے منظر سے غائب رہنے کے بعد فوج خود براہ راست اقتدار
میں آ جاتی ہے اس بار بھی ان امکانات کو کلی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا
تاہم غالب گمان یہ ہے کہ فوج اب اقتدار میں نہیں آئے گی اس میں سرل المیڈا
کی اس خبرکا ایک اہم ترین کردار ہو سکتا ہے، جو بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ
ایک سیاسی پتے کے طور پر جان بوجھ کر چھپوائی گئی ہے۔خبر کے متن میں یہ بات
موجود ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لفٹینٹ جنرل رضوان اختر کے
درمیان اس بات پر تلخ کلامی ہوئی کہ حکومت پنجاب کالعدم تنظیموں کے افراد
کو گرفتار کرتی ہے تو آئی ایس آئی والے انھیں چھڑا کر لے جاتے ہیں۔یہ ایک
جملہ اس پوری خبر کی جان ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا میں اس ایک جملے کو بہت
زیادہ اہمیت دی گئی۔ خبر میں ا س ایک جملے کی وجہ سے ساری دنیا میں مذکورہ
عسکری ادارے کی پوزیشن بری طر ح متاثر ہوئی۔ اب ذرا اس بات کا جائزہ لیجئے
کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی ، یہاں تک کے فوجی حکومتوں کے اقتدار میں
آنے میں عالمی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کا کتنا عمل دخل اور کیا کردار
ہوتا ہے۔ جب یہ خبر اس طرح عالمی طاقتوں کی پاس پہنچی تو انھوں نے اس پر
اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا جس کی وجہ سے فوج کے اس بار اقتدار میں آنے
کے امکانات بہت ہی زیادہ معدوم ہو گئے ہیں تاہم پاکستان معجزات کی سرزمین
ہے یہاں کوئی بھی معجزہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔اب جب اس خبر کی وجہ سے فوج
کے اقتدار میں آنے کے امکانات بہت ہی زیادہ معدوم ہو گئے ہیں یا ایک سیاسی
چال اور خبر کے ذریعے یہ امکانات معدوم کر دیئے گئے ہیں توپھر اب جو کچھ ہو
رہا ہے وہ کسی کا سخت ترین ردعمل اور جوابی کارروائی ہے۔ بظاہر یہ محسوس
ہوتا ہے کہ ایک طرف تو حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ انھیں مزید اقتدار میں
نہیں رہنا اور ایک سال کی قربانی دیکر مزید پانچ سال کے لئے دوبارہ منتخب
ہو کر آنا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں داخلی سیاست کو کنڑول کرنے والے
اداروں نے بھی یہ طے کر لیا ہے کہ نواز شریف کو پانچ سالہ ٹرم پوری نہیں
کرنی دینی۔اس بات کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اتوار ہی کو پاکستان پیپلز
پارٹی کے چیئرمین نے بھی اپنے کارکنوں کو قبل از وقت انتخابات کا سگنل دے
دیا ہے۔آخرمیں یہ بات کہ آج میڈیا کی وجہ سے فوج کی اقتدار پر گرفت کمزور
سے کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی کی طرح آج وہ جو چاہتے ہیں بالکل اسی طرح
نہیں کر پا رہے ہیں لہذا ان میں بے چینی ہے اور اب وہ وقتاً فوقتاً اس بے
چینی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔پاکستان پر فوج کے براہ راست اقتدار کے حوالے
سے آنے والے دن اور بھی زیادہ سخت ہونگے مگر اس میں سیاست دانوں سے زیادہ
میڈیا کا کردار نظر آ رہا ہے۔
|