قومی راز کا افشا ہونا اور پرویز رشید کی قربانی

سیاست کے رنگ بھی خوب ہیں یہ کبھی بندے کو آسمان پر اور کبھی دھڑام سے زمین پر دے مارتی ہے، نہیں معلوم کس لمحے کیا ہوجائے، میڈیا میں دھاڑتا ، چلاتا، پروٹول کے ساتھ پریس کانفرنسیز کرتا،مخالفین کو للکارتا، ڈراتا دھمکاتا، ان پر لعن طعن کرتا، ہتک کرتا،پھبتی کستا، اب تو نوبت مغلظات تک آن پہنچی تھی۔ مخالفین پر گرجتا، برستا، سو سو صلاواتیں سناتا ہوا نظر آیا کرتا، ہر چینل پر ٹاک شو میں بلایا جاتا، اس کے سوا کسی اور کی بات کی اہمیت نہ تھی، حکومت کا نقطہ نظر بیان کرنے کا اختیار صرف اسی کو تھا ۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک ایسا طاقت ور وزیر لمحہ بھر میں سین سے ایسے غائب ہوجائے گا کہ جیسے وہ دنیا میں کبھی موجود ہی نہیں تھا۔سینیٹر اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی کئی سیاسی ہیرو لمحہ بھر میں زیرو بن چکے ہیں۔عزت مآب جن کا اقبال بلند ہوتا ہے اپنے درباریوں کوقید کردینا تو دور کی بات انہیں قربان کرنے میں دیر نہیں لگاتے، لطفِ تماشہ یہ بھی ہے کہ درباری خوشی خوشی قربان بھی ہوجاتے ہیں۔اس لیے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت اپنے اوپر آئی ہوئی مصیبت کا صدقہ دے رہے ہیں، وہ کچھ عرصہ اُسے درباریوں میں پھر سے شامل کرلیاجائے گا۔

’پرویز رشید‘ لمحہ موجود کے بادشاہ سلامت کے دربار کے سب سے چھیتے درباری تھے۔ انہوں نے یہ مقام یوں ہی حاصل نہیں کیا، کسی دوسری جماعت سے نواز لیگ میں نہیں آئے،نہ ہی وہ ق لیگ حصہ رہے، یہ ان درباریوں میں سے بھی نہیں کہ جنہوں نے پرویز مشرف کی حکومت میں وزارت کے مزے لوٹے، یہ ان لوگوں میں سے بھی نہیں کہ جنہوں نے ڈکٹیٹر کی حکومت ختم ہونے کے بعد کچھ وقت ق لیگ میں گزارا اور میاں صاحب سے معافی طلب کرنے کی کوشش میں سر دھڑ کی بازی لگادی۔ آخر میاں صاحب کو رحم آیا اور انہیں اپنے دربار کا حصہ بنا لیا۔ پرویز رشید صاحب جن کو تازہ تازہ قربانی کا بکرا بنا یا گیا ہے، پرانے ن لیگی ہیں، میاں صاحب کے وفاداراور جان نثار ساتھیوں میں سے ہیں۔ تب ہی تو انہیں حکومت کی سب سے اہم وزارت یعنی وزارت اطلاعات سونپی گئی۔ وزارت اطلاعات یا وزیر اطلاعات تو حکومت کی زبان ہوا کرتا ہے، حکومت کا ترجمان ہوتا ہے، حکومت کو جو بات بھی عوام تک یا اپنے مخالفین تک پہنچانا مقصود ہوتی ہے اپنے اسی اہم درباری کے ذریعہ پہنچاتی ہے۔ سر کاری ٹی وی یا سرکاری ریڈیو تو گویا وزیر اطلاعات کا اپنا زرخریدادارہ ہوتا ہے ۔ وہاں تو اس ایک چہرے کے علاوہ کسی اور کا چہرہ نظر ہی نہیں آتا۔ اب سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ بادشاہ سلامت نے اپنے سب سے قریبی ، سب سے عزیزتصور کیے جانے والے درباری کی قربانی ہی کیوں اور کیسے دیدی۔ شواہد بتاتے ہیں کہ متنازع خبر کو لیک کرنے کا معاملا ا نتہائی سنگین نوعیت کا تھا۔ اس کے شعلے اس قدر بلند ہوچکے تھے کہ اس بھڑکتی اور سلگتی آگ کو معمولی قسم کے فائر بریگیٹس سے قابو میں لانا مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن تھا۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آگ ایک یا دو بیروکریٹس کی قربانی سے بھی مددھم نہیں ہوتی اس کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس آگ کو اپنے دربار کے سب اہم درباری کو ہی قربان کرنا پڑا۔ ذرائع بتا تے ہیں کہ قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے جو اجلاس ہوا، اس اجلاس میں تو وزیر موصوف موجود ہی نہیں تھے۔ کیونکہ قومی سلامتی کے حوالے سے جو متنازع ، پلانٹڈ اور من گھڑت خبر پرنٹ میڈیا کا حصہ بنی وہ اسی وزارت کے توسط سے یا وزیر موصوف کے علم کے ساتھ متعلقہ رپورٹر تک پہنچی ۔ اس وجہ سے پرویز رشید صاحب ہی کو اس کوتاہی اور قومی سلامتی کے بارے میں معلومات قبل از وقت یا نہ مکمل یا بالکل غلط کسی ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر کو دینے کا ذمہ دار قرار ٹہرایا گیا ۔ان پر الزام لگا یا گیا ہے کہ انہوں نے یہ خبر شائع ہونے سے روکنے کے لیے اخبار کی انتظامیہ یا متعلقہ ایڈیٹر سے رابطہ کر کے اسے رکوانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے حکومت کو آگاہ کیا۔دنیا کے ممالک میں عام طور پر تو رواج یہی ہے کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہو تو اس واقعہ کا تعلق جس شعبے سے ہوتا ہے اس کا سربراہ یا وزیر مستعفی ہوجاتاہے۔ مثال کے طور پر ریل گاڑی کا کوئی بڑا حادثہ ہوجائے تو وزیر ریلوے مستعفی ہوجایا کرتے ہیں۔ ہوائی حادثہ ہوجائے تو متعلقہ وزیر مستعفی ہوجاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اس قسم کی کسی روایت کا وجود نہیں ملتا ، یہاں تو الٹا متعلقہ وزیر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس حادثے کی وجوہات بیان کرتا ہے۔ میاں صاحب اپنے اس بااعتماد، وفاداردرباری کی قربانی کے حق میں نہیں تھے، چند بڑے دربارداروں نے میاں صاحب کو قائل کیا کہ ہوسکتا ہے کہ اس قربانی سے معاملا ٹل جائے اور ایساہی ہوا۔ قربانی دے دی گئی۔ کوتائی تو صاف نظر آرہی ہے، قومی سلامتی کی حفاظت پر مامور ذمہ داران کو اس کوتائی کے خلاف سخت ردِ عمل کا اظہار کرنا پڑا، فوری طور پر آگ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے پرویز رشید صاحب کی قربانی دے کر یہ تاثر دیا گیا کہ معاملے کا سخت نوٹس لیا جارہا ہے۔ اعلیٰ اختیارات اور اعلیٰ حکام پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی باتیں بھی سامنے آئیں لیکن اس پر عمل تا حال نظر نہیں ہوا۔انہی دنوں تحریک انصاف نے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کردیا،احتجاج، جلسہ، جلوس ، دھرنے کی حد تک تو بات مناسب تھی ، کپتان جوش میں کچھ آگے ہی نکل گئے اور اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کرڈالا، جب دس لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع ہوجاتے تو اسے تو خود بہ خود بند ہوہی جانا تھا ، بند کرنے سے کپتان از خود پھنس گئے۔ حکومت کو سخت ایکشن کا موقع مل گیا، عدالت نے بھی کہہ دیا کہ’ احتجاج کا حق لا محدود نہیں‘۔ 30 اکتوبر سے تاریخ 2 نومبر کردی گئی،لوگ تیاری میں لگ گئے، 28 تاریخ کو شیخ رشید کی لال حویلی کو اسٹیج بنا کر جلسہ کرنے کا پروگرام بنا، جس میں کپتان نے بھی شرکت کرنا تھی ، حکومت نے اس احتجاج کو ناکام بنا دیا، اتنا ضرور ہوا کہ شیخ صاحب بہادرانہ کرتب دکھاتے ہوئے ، کبھی پیدل اور کبھی موٹر بائیک پر جلسہ گاہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور مختصر خطاب بھی کیا۔ اس شو کو ٹریلر کہا گیا۔ اصل شو 2 نومبر کو ہونا تھا۔ لوگ بنی گالہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔گرفتاریاں ہوئیں اور حالات سنگین ہوجانے کے خطرات نظر آنے لگے ۔ ممکن ہے کہ حکومت کی تمام تر توجہ کپتان کے اسلام آباد مارچ پر لگ گئی ہو، اب کیونکہ خطرہ ٹل گیاتھا، یوم تشکر بغیر کسی بد مزگی کے منا لیا گیا ، معاملات نارمل ہوگئے، حکومت اور کپتان اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کے مابین سنگین صورت حال پیدا ہوچکی تھی، پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اپنا قافلہ لے کر پنجاب میں داخل ہونا چاہتے تھے ، حکومت نے انہیں باڈر پر ہی روک لیا، شیلنگ کی گئی، حالات خراب سے خراب تر صورت حال کی جان جارہے تھے۔ دونوں فریقین کا پارہ بلند ترین سطح پر پہنچا ہواتھا ، یہاں تک کہ کھلے عام ٹی سی پر غیر اخلاقی، بیہودہ، لغو،خرافات،انٹ شنٹ اور اوٹ پٹانگ ، اول فول جملے بازی عام ہوگئی۔ اسی خراب صورت حال میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا کردار بہت اہم رہا ، پاکستانی عوام کو عجیب و غریب قسم کے مخمصہ، تذبذب اور سراسیکگی کی کیفیت سے باہر نکالنے میں عدالت نے بنیادی کردار ادا کیا ۔ آئندہ جو کچھ بھی ہو لیکن فوری طور پر عدالت کے عمل نے ملک کو بڑی مشکل سے نکال دیا ۔عدالت کے روبرو دونوں فریقین یعنی میاں صاحب اور کپتان کے وکیلوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر جس رضامندی کا اظہار کیا ہے وہ بھی سیاسی ماحول کو بہتر بنا نے میں معاون ثابت ہوگا۔پوری قوم نے اس پر سکھ کا سانس لیا۔عدالت نے دونوں فریقین کو صبر تحمل سے کام لینے کی ہدایت بھی کی۔حکومت کی ہدایت پر دونوں فریقین اپنے اپنے سخت موقف سے دو قدم پیچھے چلے گئے، یعنی اسلام آباد کو بند کرنے کی کال واپس لے کر اس دن تشکر کا اہتمام مخصوص جگہ کرنے کا اعلان ہوا، حکومت نے فوری طور پر جن سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا تھا، جگہ جگہ پولیس اور دیگر ایجنسیز کے لوگ عمران خان کے کارکنوں کے تعاقب میں تھے انہیں واپسی کا حکم دے دیا گیا۔ اب حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عدالت میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے حوالے سے اپنا دفع کرے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے جو بات انگریزی اخبار کی ذینت بنی پھر میڈیا نے اس کی خوب خوب تشہیر کی اس جانب توجہ دے۔ جس بہ اختیار اور اعلیٰ حکام پر مشتمل افراد پر کمیٹی کی تشکیل کی بات کی گئی تھی وہ تشکیل دے کر تحقیقات کو حتمی شکل دے تاکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ جس شخص کو قربان کیا گیا ہے اگر وہ اور دیگر قصور وار ہیں تو انہیں قرار واقعی سزا دی جائے، اگر ان کی قربانی سیاسی قسم کی ہے تو انہیں دوبارہ حسب روایت دربار کی زینت بنا لیا جائے۔

کہتے ہیں کہ انسان کو بڑا بول کبھی نہیں بولنا چاہیے، تکبر اور گھمنڈ اﷲ کو پسند نہیں، وزیر موصوف کی بھٹرکیں ، دعوے، مخالفین کے بارے میں کیسی بیہودہ باتیں یہ کیا کرتے تھے۔ عمران خان نے جب تیس اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا بعد میں تاریخ بدل کر 2نومبر کردی گئی، اکثر چینلز نے وزیر موصوف کی وہ ویڈیو متعدد بار چلائی جس میں وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں’’ عمران خان 30اکتوبر کو نہیں ہوگا‘‘، اس جملے سے ان کی مراد کیا تھی ، یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں ، عمران نے کہاں جانا تھا، دنیا سے چلے جانا تھا، ملک چھوڑ جانا تھا، سیاست چھوڑ جانا تھا ۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ذات کے حوالے سے وہ لمحہ اﷲ کو نا گوار گزرا اور پسند نہیں آیا، جس طرح انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا ضرور ہوتا ہے جس میں اس کی دعا قبول کر لی جاتی ہے۔ 30اکتوبربلکہ 2نومبر آیا ،حالات بہت ہی پریشان کن تھے لیکن عمران خان زندہ ہے ،موجود ہے ، پارٹی اس کی موجود ہے، وہ اسی طرح اس کا سربراہ ہے، اس کے برعکس پرویز رشید ٹی وی چینلز سے، خبروں سے ایسے غائب ہوئے کہ جیسے بکرے کے سر سے سینگ ۔ان کی قربانی کا تعلق عمران کے احتجاج سے دور دور کا نہیں ،وہ تو قدرت کی طرف سے زیادہ سنگین معاملے کی گرفت میں آگئے۔ قبلہ پرویز رشید کے لیے اب یہی مشورہ ہے کہ اب اگر دربار میں واپسی ہوبھی جائے اور لگتا ہے کہ ایسا ہوجائے گا، مناسب ہوگا کہ وہ آئندہ بڑے بول نہ بولیں، بھڑکے لگانے سے گریز کریں۔یہ کوئی پہلی قربانی نہیں اس سے قبل کئی نون لیگیوں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے ، چرب زبان مشاہد اﷲ کو قربان نہیں کیا گیا ، رعنا ثناء اﷲ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، پنجاب کے ایک اور رعنا جن کی قربانی ہوئی اب پھر سے پنجاب کی کابینہ میں وزیر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ایسی قربانیاں ہوچکی ہیں۔ حسین حقانی کو قربان کیا گیا۔ اس قسم کی سیاسی قربانی کا مقصد فوری طور پر آگ پر پانی ڈالنا ہوتا ہے اوراس عمل سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔آج حسین حقانی اور اس جیسے کتنے ہی معاملات سرد خانے کی نظر ہوچکے۔ ہماری سیاست یہی ہے۔ بات سیدھی اور سادہ سی ہے کہ پارٹی کا سربراہ اپنے گرد جن متوالوں کو جمع کرتا ہے ، حکومت یا اقتدار کے حصول کے بعد بادشاہ سلامت اپنے اپنے دربارداروں کو مختلف طریقے سے خوش کیا کرتے ہیں۔ انہیں اپنے لیے ہر کام کرنے پر آمادہ کرنا، نوازنے ، اپنا گرویدہ بنا نے، اپنا وفادار بنانے کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ان میں وزارت، سفارت، رکن اسمبلی، سینیٹر، پارلیمانی سیکریٹری، مشیر ، معاون خصوصی، بوڑھے بوڑھوں کو اگر وفادار ی کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں تو کسی کو پی ٹی وی کا سربراہ، کسی کو ریڈیو پاکستان کا سربراہ، کسی کو پی آئی اے، کسی کو اسٹیل مل، کسی کو نیب، کسی کو پارٹی کا عہدہ تو کسی کو کچھ ، کسی کو کچھ الغرض مراعات کے ذریعہ حکمراں یا با اختیار لوگ اپنے وفاداروں ، قربانی کا بکرا بننے والوں ، دربارداروں ، ان کے لیے جان دینے والوں کی پرورش کیا کرتے ہیں اور جب وقت پڑتا ہے تو وہ اپنے کسی نہ کسی درباری کو اسی طرح قربان کردیتے ہیں جس طرح پرویز رشید کو قربان کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کا المیہ یہی ہے کہ یہاں جو بھی بر سر اقتدار آیا اس نے اپنی یا پارٹی کی وفاداری کو ترجیح دی ، میرٹ اور صلاحیت کا گلا کاٹا۔ نون لیگ تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ، با صلاحیت لوگ اوپر نہیں پہنچ سکے۔ وجہ با صلاحیت شخص خوشامدی نہیں ہوگا، درباری نہیں بنے گا، غلط کو غلط ، صحیح کو صحیح کہے گا، یہ کسی لیڈر پسند نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ نون لیگ کو وزیر خارجہ کے لیے پورے پاکستان میں کوئی شخص نہیں ملا، لوگ تو بہت ہیں پر وہ با صلاحیت لوگ نون لیگ کے دربار سے وابستہ نہیں۔ صدر پاکستان ممنون حسین کی مثال اس حوالے کافی ہے ، جب صدر کے جیتنے کے آثار نہیں تھے تو جسٹس سعید الزماں صدیقی کو اپنا امیدوار بنا دیا لیکن جب صدر کے عہدہ کے لیے یقینی جیت تھی تو جسٹس صاحب نظر نہیں آئے یہاں وفاداری اور درباری ہونا ضروری قرار پایا، یہ صورت حال صرف نون لیگ میں ہی نہیں ہر سیاسی جماعت ایک آدھ کو چھوڑ کر یہی حال ہے۔ ٹیلنٹ اور صلاحیت کو لیڈر پسند نہیں کرتے، تحریک انصاف کا یہی حال ہے کیا جسٹس (ر)وجیہ الدین با صلاحیت نہیں ، مخدوم جاوید ہاشمی پرانا سیاست دان اسی طرح اور کپتان کے ساتھ نہیں چل سکے۔کپتان کو ان کی پروا بھی نہیں۔ جب تک صلاحیت ہماری سوچ کا مہور اور منبع نہیں بنے گی، جب تک ہم میرٹ کو فوقیت نہیں دیں گے ، ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال اسی قسم کی رہے گی۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277908 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More