بلاول بھٹو زرداری پھر متحرک

پاکستان کی سیاست میں روز نئے تجربے ہوتے ہیں روزانہ ملک کے لئے نئی نئی لبارٹریاں تلاش کی جاتی ہیں۔ نئے نئے لوگ نئے نئے خیالات سے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی ذہن سازی کرتے ہیں اور اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کو ایک مرتبہ پھر متحرک کر دیا گیا ہے یہ پاکستان میں سیاست کے نئے نئے تجربات کروانے والے کی طرف سے ایک نئی کوشش ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری اب روزانہ کی بنیاد پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہر ایونٹ کو کیش کروانے کی کوشش کر رہے ہیں اور میڈیا میں بھر پور انداز میں ان رہنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہاں تک کے گزشتہ روز انھوں نے ٹرین حادثہ کے موقع پر بھی میڈیا سے بات چیت کی ، چند ہفتوں پہلے تک وہ میڈیا سے بہت دور رہتے تھے ۔ اگرچہ انھوں نے کہا وہ ٹرین حادثے کے موقع پر کوئی سیاست نہیں کرنا چاہتے لیکن اس کے باوجود ان کی باتین خالصتاً سیاسی تھیں۔جمعہ کو ڈھرکی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر انھوں نے حکمراں مسلم لیگ ن پر کڑی تنقید کی ۔ ان کے لب ولہجے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکمراں جماعت پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو کا طرز سیاست بتا رہاہے کہ وہ الیکشن کی تیاریوں میں ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں ایک مرتبہ پھر دھرایا ہے کہ اگر ان کے چار مطالبات پورے نہیں ہوئے تو الیکشن 2018کے بجائے 2017میں ہونگے۔عمران خان کو انھوں نے چا چا عمران کا خطاب دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ مائنس ون کی بات ترک کر دیں ورنہ پھر پیپلزپارٹی بھی تحریک انصاف میں مائنس ون کی بات کرے گی۔ جس تیزی سے پیپلزپارٹی آگے کی طرف سفر کر رہی ہے اور اپنے مطالبا ت منوانے کی بات کررہی ہے اس میں بہت سے اشارے مل رہے ہیں۔گزشتہ روز وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی طر ف سے بھی اسی قسم کے مطالبات سامنے آئے ہیں ۔ دونوں سابق اور موجودہ وزراء اعلی وفاقی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی طر ف سے پیش کئے گئے چار مطالبات فوری طور پر مان لئے جائیں ورنہ پیپلزپارٹی کی طرف سے لانگ مارچ شروع کیا جائے گا جو حکومت کے خاتمے پر ہی ختم ہو گا۔بلاول بھٹو زرداری جس رفتار سے سیاست میں آگے آ رہے ہیں وہ اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست کے لئے خوش آئیند ہے لیکن پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ویسی کامیابی ملے گی یا نہیں جس کی وہ توقع کر رہے ہیں ، یہ الیکشن کے وقت ہی طے ہو گا۔ چاہے الیکشن2018میں ہوں یا پی پی پی کی خواہش اور دعوے کے مطابق الیکشن2017میں ہوں۔جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو شاید اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس بار بھی الیکشن میں سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کو ماضی کی طرح ایک متاثر کن کامیابی حاصل ہو گی لیکن سندھ کے علاوہ دیگر ملک میں پی پی پی اپنی پرانی پوزیشن بنا سکے گی یا نہیں اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں ہو سکتی تاہم اگر پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ہی سامنے آتی ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کہیں پس منظر میں جا چکی ہے۔ یہ بلاول بھٹو زرداری کے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بننے کے بعد بھی ہوا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے بلاول کے پارٹی کے چیئرمین بننے کے بعد بھی ضمنی الیکشن میں پانچ چھ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکی جس سے اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کے چیئرمین بننے کے باوجود پیپلزپارٹی کی پنجاب میں پوزیشن بہت زیادہ اچھی نہیں ہو پائی ہے جبکہ دوسری طرف حال ہی میں آزاد کشمیر میں بھی پی پی پی کو بہت بری طرح شکست کھائی ہے ۔ حالانکہ آزاد کشمیر کی الیکشن مہم میں بلاول بھٹو زرداری نے خود مظفر آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور انھوں نے متعدد انتخابی جلسوں سے بھی خطاب بھی کیا تھا لیکن اس کے با وجود پیپلزپارٹی ہار گئی۔ اب ایسی صور ت حال میں الیکشن چاہے 2017میں ہوں یا 2018میں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر پی پی پی اور ن لیگ کا پنجاب میں کوئی مقابلہ نہیں اور نہ ہی ن لیگ کے لئے مستقبل قریب میں بلاول بھٹو زرداری کوئی خطرہ بننے جا رہے ہیں۔ یہا ں دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی بظاہر جو قبل از وقت الیکشن کی بات کر رہی ہے وہی خواہش حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کی بھی ہے تاہم وہ اس خواہش کا اظہار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ان حالات کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ قبل از وقت الیکشن کی بات مسلم لیگ ن پاکستان پیپلزپارٹی کی زبان سے کرو ا رہی ہے تو شاید غلط نہیں ہو گا۔
 
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19922 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.