پاکستان میں سیاست پر بات کرنے والے جدیدیت
کے شوقین سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہ ہونے سے بڑے شاکی ہیں۔لیکن عوام ہیں
کہ وہ جمہوریت سے زیادہ اپنے لیڈروں کے پیرو کار ہیں ۔جب عوام ہی لیڈر کی
پیرو کار ہو تو سیاسی پارٹی میں جمہوریت کیا رنگ لائے گی۔وقت ہی وہ واحد
جُز ہے جو تبدیلی کا تعین کرے گا ۔بھٹو ایک سیاسی رہنما تھے لیکن انکو
ماننے والے آج بھی پیپلز پارٹی میں بھٹو ہی تلاش کرتے ہیں اور اس نعرے سے
جڑے ہیں ۔پیپلز پارٹی میں بھٹو کی لیڈر شپ ہی تھی جس نے بلاول بھٹو کا نام
بلاول زرداری سے بلاول بھٹو زرداری تبدیل کروایا ۔ دراصل اس میں عوام کا
کوئی قصور نہیں برصغیر کی تاریخ میں عقیدہ پرستی کچھ اتنی گہری جڑیں رکھتی
ہے کہ اسکے بغیر ایسا لگتا ہے کہ انسان ادھورا ہے۔ یہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا
کہ جسکا کوئی کھونٹا نہیں وہ بھی کوئی انسان ہے۔ یہ کسی سیاسی کھونٹے کی
بات نہیں بلکہ اسکا تعلق پیرو مرشد سے ہے۔تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ
محمود قریشی ملتان کے بڑے پیر ہیں اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی پیر ہیں ۔ تحریک انصاف جتنے بھی جتن کر
لے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ سیاست کو کسی کی جاگیر نہیں بننے دے گی لیکن تحریک
انصاف کے کارکن تحریک انصاف کو عمران خان کی ہی جاگیر سمجھتے ہیں انکی قربت
اور شفقت پارٹی میں جن لوگوں پر ہوگی وہی کارکنوں میں بھی پزیرائی پائیں گے
اور یہ گذشتہ دنوں جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کی
مخالفت اور بلاآخر انکے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ نے ثابت بھی کیا
۔ اگر عمران خان کمیشن کی رپورٹ کے مطابق عمل کرتے تو آج جہانگیر ترین دور
بین میں بھی نظر نہیں آتے۔
یہ چند مثالیں صرف ثابت کرنے کیلئے تھیں کہ جب یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ
سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہیں تو یہ صرف نواز شریف،آصف علی زرداری،مولانا
فضل الرحمٰن،اسفند یار ولی،الطاف حسین، محمود خان اچکزئی وغیرہ کا ہی قصور
نہیں بلکہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے ۔اگر جمہوری سلسلہ بار بار رکاوٹوں کا
شکار نہ ہوتا تو یہ معاشرتی مسئلہ بڑی حد تک کمزور ہو سکتا تھا لیکن ختم
شائد نہ ہوتا۔بھارت میں تسلسل کے ساتھ جمہوری نظام کے باوجود کانگریس جیسی
تاریخی پارٹی میں آج بھی نہرو فیملی کے اثرات حاوی ہیں۔ پھر ابھی ملا عمر
کی موت کی تصدیق کے بعد انکے بیٹے کی امارت پر اتفاق بھی یہ ثابت کرنے
کیلئے کافی ہے کہ لیڈر شپ کے پیرو کار ہوتے ہیں جو اس سے قریبی تعلق کو ہی
لیڈر قبول کرتے ہیں ایک طرح سے یہ لیڈر میں اپنے مرشد کی جھلک دیکھنے جیسا
معاملہ ہے ۔ ایک طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی کے کارکن محترمہ بے نظیر بھٹو
میں بھٹو کی شکل دیکھتے رہے۔انکی شہادت نے انہیں ایک رہنما کی صورت دی۔
یہاں یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے صاحبزادے میر
مرتضیٰ بھٹو نے شہید ہونے سے پہلے اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی تشکیل دے لی تھی
لیکن انہیں وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی تھی جو بے نظیر بھٹو کو حاصل تھی یہ
رویہ ثابت کرتا ہے کہ بھٹو زندگی میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کو ہی عملی طور پر
جانشین بنا چکے تھے ۔محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ نے بھی جب محترمہ بے نظیر بھٹو
کو پارٹی سربراہ بنایا تو کئی سینئر پارٹی رہنما خوش نہیں تھے چونکہ وہ بے
نظیر کے سرپرست بن کر رہنا چاہتے تھے جب کہ محترمہ پارٹی لیڈر تھیں اور اسی
حیثیت میں عمل کرنا چاہتی تھیں یہی وجہ تھی کہ جس نے بھی اختلاف کیا وہ
کارکنوں سے محروم ہوگیا تھا۔ اور اب، جب تک بلاول بھٹو ،آصف علی زرداری کے
ساتھ ہیں آصف علی زرداری ہی لیڈر رہیں گے ۔پیپلز پارٹی کے اندر کئی قومی
رہنما موجود ہیں لیکن وہ پارٹی کی لیڈر شپ سے ایسا اختلاف کرنے کی پوزیشن
میں کبھی نہیں ہوں گے جس سے وہ پارٹی لیڈر شپ کو ہی تبدیل کروا دیں۔ کچھ
یہی صورت حال مسلم لیگ میں بھی ہے۔ اسی پر کیا بس کسی بھی پارٹی کو اٹھا کر
دیکھ لیں انکی لیڈر شپ کارکنوں کیلئے صرف سیاسی رہنما سے کہیں آگے کی حیثیت
رکھتی ہے ۔
یہ صورت حال کسی کیلئے بھی پسندیدہ نہیں حتیٰ کہ عوام کو بھی سخت نا پسند
ہے لیکن اسکے باوجود اس رویہ کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں اجتماعی اور
شعوری کوشش کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔اجتماعی اور شعوری فیصلے طویل عرصہ
کے جمہوری پراسس کے مرہون منت ہیں اور ہم تو ابھی تاریخ کے دوسرے ہی تسلسل
میں سویلین منتخب دورانیہ کو مکمل نہیں کرپائے۔ ویسے تو یہ کہا اور سمجھا
جاتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں معاشرے چھلانگیں لگا رہے ہیں
۔پاکستان میں بھی کئی معاشرتی اقدار چھلانگیں لگاتی دکھائی دیتی ہیں لیکن
ابھی معاشرتی بنیادوں میں تبدیلیوں کا نمبر نہیں آیا۔ جینیٹک سائینس نے یہ
ثابت کیا ہے کہ سوچ و فکر،عادت و اطوار نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔جو رویہ آج
کے معاشرے کا ہے وہ کم از کم دو نسلوں میں تو منتقل ہوگا ہی ۔یہ کئی نسلوں
تک بھی جاری رہ سکتا ہے اگر پاکستانی معاشرے کو ماضی کی طرح اقتدار کا
پینڈولم بنائے رکھا گیا۔ یا عالمی خواہشات و مفادات پر سیکورٹی اسٹیٹ کا
کردار اپنائے رکھا گیا۔ یا ریاست کے ادا کردہ کردار کے سُر خیلوں کی سوچ و
فکر سے جلد از جلد اور شعوری طور پر پیچھا نہیں چھڑوایا گیا تو وہ معاشرے
کی ہر نئی سوچ و فکر کو مغربیت اور امن کی بات کو بزدلی قرار دیتے رہیں گے۔
اور ہم سیاسی عقیدہ پرستی کے عفریت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
مذہبی عقیدے کی نسبت سیاسی عقیدہ زیادہ خطرناک ہے چونکہ یہ ایک لیڈر کی شکل
میں ایک نظام کی قربانی کا باعث بنتا ہے ۔یہ مکمل درست نہیں ہوگا کہ سیاسی
عقیدے کے جنم ، پیوستگی اور اسکی بڑھوتری کو فطری قرار دے دیں بلکہ اسکی
کئی ٹھوس مادی وجوھات بھی ہیں جن میں سب سے اہم طبقاتی استحصال ہے ۔اجتماعی
شعور سے بہرہ مند معاشرے سیاسی عقیدہ کی مکمل نفی کا مظہر بنتے ہیں ۔اور
ساتھ ہی استحصال و جبر کے مکمل خاتمے کی نا سہی لیکن عوام کی بہت بڑی
اکثریت کو برابر کے مواقع اور ننگے جبر کی نفی لازماً بنا دیتے ہیں۔
|