موجودہ مزاج کے ساتھ علمائے کرام کو حکومت نہیں مل سکتی
(Syed Abdul Wahab Sherazi, Islamabad)
اصل حکمران اور بادشاہ اللہ رب العزت کی
ذات ہے، اللہ تعالیٰ پوری کائنات اور سارے جہانوں کا بادشاہ ہے۔ اللہ
غفورالرحیم، ستار العیوب،غفار الذنوب................ ہے۔ جبکہ ہم لوگوں کو
توبہ کرنے کے بعد بھی ساری عمر معاف نہ کرنے والے ہیں۔
حکمرانی کرنے کے لئے مخلوق کی دنیوی زندگی سے متعلق خدائی صفات کا کچھ نہ
کچھ عکس اور پرتُو ہونا ضروری ہے، خاص طور پر مخلوقات کے ساتھ اللہ کا جو
معاملہ ہے وہ یا اس کی معمولی سی جھلک کا کسی حکمران میں ہونا نہایت ضروری
ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سو سال سے جو مغلوبیت کا دور گزررہا ہے اس کی وجہ بھی
یہی ہے کہ مخلوقات پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت سے بحیثیت مجموعی ہم عاری رہے
ہیں، انفرادی طور پر تو بڑے بڑے اللہ والے گزرے ہیں جو بلا شبہ خدائی صفات
کا عکس تھے لیکن عمومی لحاظ سے جو مزاج رہا ہے وہ ایسا ہر گز نہیں تھا جو
اللہ کی مخلوق پر حکمرانی کرنے والے کسی حکمران کا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ
اپنی مخلوقات ویسے ہی کسی کے حوالے نہیں کردیتا۔جب مسلمانوں میں یہ صلاحیت
موجود تھی تو حکمرانی ان کے ہاتھ میں تھی، پھر آہستہ آہستہ وہ صلاحیت ختم
ہوئی تو اللہ نے حکومت بھی چھین لی۔ انگریز اور مغربی اقوام جیسی کیسی بھی
کیوں نہ ہوں انہیں حکمرانی کرنے کا فن آتا ہے اور یہ صلاحیت ان کے پاس ہے
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمران اور ہمیں ان کی رعایا بنایا ہوا
ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے جس
میں ایک بات یہ بھی :”وعلم آدم الاسماءکلہا“ اس علم سے مراد صرف وہ علم
نہیں جو عام طور پر درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے۔
ہمارا عمومی مزاج مسلک پرستی میں اتنا ڈوبا ہوا تھا اور اب بھی ہے کہ کسی
دوسرے مسلک والے کے لئے زندہ رہنے کا حق ہم دینے کو تیار نہیں چہ جائے کہ
وہ صفات الٰہی کہ اُس ذات کے منکر اور ملحد بھی دنیا کی ہر نعمت سے مالا
مال اور مزے کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہ ذات ڈھیل پر ڈھیل دیتی جارہی
ہے۔اگر کوئی مسلک پرست حکمران بن جائے تو لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گا،
شاید اسی نااہلیت کی وجہ سے اللہ کی مشیت نہیں ہے کہ ہمیں حکمرانی ملے۔
(نوٹ: مسلک پرستی سے مراد یہ نہیں کہ آدمی کا کوئی مسلک نہ ہوہرمسلمان کا
وہی مسلک ہونا چاہیے جو صحابہ کرام اور اکابرین امت کا رہا ہے، بلکہ مسلک
پرستی سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کے لئے گنجائش نہ نکالنا اور یہ سوچنا کہ
میرا بس چلے تو سب کو ختم کردوں اور عملی زندگی میں ایسا ہی رویہ اختیار
کرنا کہ واقعتا وہ شخص سب کو فنا کرنے کے درپے ہو۔)
تاریخ اسلام میں اس کی ایک مثال ملتی ہے جسے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ
اللہ نے تاریخ دعوت وعزیمت میں بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جب ایک غالی
مسلک پرست شخص حکمران بن گیا تھا، پھر جو فساد فی الارض اس نے مچایا الامان
والحفیظ۔دوسری صدی ہجری میں مسلمانوں کا تعارف یونانی فلسفہ سے ہوایہ فلسفہ
چند خیالات وقیاسات کا مجموعہ اور الفاظ کا ایک طلسم تھا۔چنانچہ اس کے
نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات،کلام الٰہی، رویت باری، مسئلہ عدل،
تقدیر،جبرواختیار کے متعلق ایسی ایسی بحثیں اور مسائل پیدا ہوگئے جو نہ
دینی حیثیت سے ضروری تھے اور نہ دنیوی حیثیت سے مفید بلکہ امت کی وحدت اور
مسلمانوں کی قوت عمل کے لئے مضرتھے۔چنانچہ نئے نئے مسلک وجود میں آئے اور
ایک وقت وہ بھی آیا جب مامون کے دورحکومت میں اسی طرح کے ایک مسلک کا پرجوش
داعی قاضی ابن ابی داود سلطنت عباسیہ کا چیف جسٹس بن گیاجس کے نتیجے میں
مسلک ومذہبِ اعتزال کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔
خود مامون بھی اس مسلک کا داعی اور مبلغ تھاچنانچہ اس کے دربار میں ایسے ہی
مسلک پرستوں کا ہروقت ہجوم رہتا تھا۔عقیدہ خلق قرآن اس وقت معتزلہ کا شعار
اور کفر وایمان کا معیار بن گیا تھا اور محدثین اس مسئلہ میں معتزلہ کے
حریف تھے جس کی قیادت امام احمد بن حنبل کررہے تھے۔چنانچہ مامون نے سارے
کام چھوڑ کر اپنے مسلک کو زبردستی عوام پر ٹھونسنے کی کوشش شروع کردی اور
تمام حکومتی ذمہ داران کو ہدایت جاری کی کہ وہ لوگوں خصوصا علمائے کرام کا
امتحان لیں جو اس مسلک کو اختیار نہیں کرتا اسے معزول کردیا جائے۔اور سب کے
لئے یہی عقیدہ اختیار کرنا ضروری قرار دے دیا جائے۔پھر سات بڑے محدثین جو
اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے ان کو طلب کیا، ان سے مناظرے ہوئے کچھ کے قتل
کرنے کا حکم جاری کیا اور کچھ کو قید میں ڈال دیا۔اس ساری صورتحال میں
ہزاروں لوگوں نے حکومت کے شر سے بچنے کے لئے یہ عقیدہ اختیار کرلیاعلماءکی
بڑی تعداد بھی پسپائی اختیار کرگئی لیکن امام احمدبن حنبل ڈٹے رہے۔ امام
صاحب کو بڑی بڑی بیڑیاں ڈالی ہوتی تھیں، مختلف لوگوں سے مناظرے کروائے جاتے
تھے۔ کوڑوں کی سزا دی جاتی تھی اور وہ بھی اس انداز سے کہ ایک جلاد صرف دو
کوڑے مارتا تھا تیسرا کوڑا مارنے کے لئے نیا جلاد بلایا جاتا تھا تاکہ کوڑے
کی شدت میں کمی نہ آئے۔امام احمد بن حنبل 28مہینے تک قید وبند کی صعوبتیں
برداشت کرتے رہے، امام احمد بن حنبل کی بے نظیرثابت قدمی اور استقامت سے یہ
فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اور مسلمان اس دینی خطرے سے محفوظ ہوگئے۔
اس سارے جھگڑے میں تقریبا ایک صدی بیت گئی اور مسلمان آپس میں ہی لڑتے
رہے۔جب کوئی شخص اتنا متشدد ہو او ر پھر حکمران بھی بن جائے تو ایسے ہی
فساد پھوٹتا ہے ۔ آج ہماری بھی ایسی ہی حالت ہے چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل
میں بیسیوں مسلک وجود میں آچکے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت
ختم ہوچکی ہے۔ ہرمسلک کے اندر ایک دوسرا مسلک پیدا ہوچکا ہے، ایک ہی مسلک
والا اپنے ہی مسلک میں معمولی اختلاف پر دوسری رائے رکھنے والے کو
گمراہ،کافراور جہنمی قرار دے رہا ہے۔آپ خود ہی سوچیں ایسے لوگ اگر حکمران
بن جائیں تو اللہ کی زمین پر کیا گل کھلائیں گے؟ یہ ایسا جھگڑا کھڑا کردیں
گے جس میں لاکھوں انسان قتل ہوجائیں گے۔یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اختیار
ایسے لوگوں کے ہاتھ میں نہیںجو برداشت کا مادہ بالکل نہیں رکھتے، ہم پر
حکومت کرنے والے(زرداری،نواز شریف وغیرہ) جیسے کیسے بھی ہیںکم از کم ان کے
اندر اتنی برداشت تو ہے کہ وہ اپنے مسلک کو اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں۔اگر
وہ ایک مسلک کی طرف داری شروع کردیں یا مامون کی طرح ساری انتظامیہ کو حکم
جاری کردیں کہ لوگوں کو فلاں مسلک پر کاربند کردیا جائے تو اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ کتنا بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے گا۔حکمرانی کے لئے بلاامتیاز مخلوق
کی محبت اور مخلوق کی فکر بنیادی وصف ہے، چنانچہ یہی وصف حضرت عمر فاروق
رضی اللہ عنہ میں بھی نظر آتا ہے اور وہ فرماتے ہیں:اگر(مدینہ سے سینکڑوں
میل دور) دریائے نیل کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو عمر سے
پوچھ ہوگی۔ جس کو کتے کی اتنی فکر ہے اسے انسانوں کی کتنی فکر ہوگی۔ اللہ
کی طرف سے حکمرانی بھی ایسے ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہیں انسانوں کی
فلاح وبہبود کی فکر ہو۔انسانی فلاح وبہبود کا دنیوی پہلوہمارے دینی اداروں
کا موضوع ہی نہیں رہا لہٰذا اللہ کی نظر میں ہمارا دینی طبقہ دنیوی حکمرانی
کا مستحق بھی نہیں رہا۔چونکہ ہمارے دینی اداروں کا موضوع صرف اخروی فلاح رہ
گیا ہے اس لئے ان اداروں سے صرف امام مسجد،مدرس،اور روحانی معالج ہی پیدا
ہوسکتے ہیںکوئی حکمران نہیں پیدا ہوسکتا۔حکمرانی اور نیابت کے لئے علم
الاسماءاور تعلیم الاسماءکے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کے اس وصف اور رویے کا
حامل ہونا بھی ضروری ہے جو انہوں نے اپنے اپنے قاتلین اور دشمنوں کے ساتھ
اختیار کیا تھا، چہ جائے کہ ہمارا رویہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ساتھ۔
|
|