صدر مسلم کانفرنس کا جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان قسط دوم
(Mian Kareem Ullah Qureshi, )
مقبوضہ و آزاد کشمیر کے درمیان’’جنگ بندی
لائن‘‘ نامی منحوس لکیر کو ختم کروا کر آزادی حاصل کرنے کی خاطر اقوام
متحدہ کی قراردادوں کے عملائے جانے کے لیے کشمیریوں نے چالیس برس تک جلسوں،
جلوسوں ، قراردادوں اور یاداشتوں کے اپنے مہذب و پُرامن طریقہ احتجاج کے
ناکام ہونے پر 1989-90 میں ریاست پر بھارت کے ناجائز و جبری قبضے کے خلاف
مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور تیس برس تک تسلسل سے جاری رہنے والی اس جدوجہد
کے دوران میر واعظ کشمیر مولوی محمد فاروق ، خواجہ عبدالغنی لون، مولانا
محمد سعید اور قاضی نثار جیسے مایہ ناز کشمیری رہنماؤں کے علاوہ عالمی شہرت
یافتہ کشمیری معالجوں ڈاکٹر عبدالاحد گورو اور ڈاکٹر عشائی جیسی شخصیات
سمیت ایک لاکھ کشمیریوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ،دَسیوں ہزار خواتین
بیوہ ہوئی ،دَسیوں ہزار بچے یتیم ہوئے، ہزاروں عزت مآب خواتین کی عصمت ریزی
کی گئی، اربوں روپے کی املاک تباہ کی گئیں اور ہزاروں خاندانوں کو اپنے گھر
بار چھوڑ کر آزاد کشمیر میں پناہ لینا پڑی۔ کشمیریوں کی ان بے مثال اور
عظیم قربانیوں کے باعث اُن کی یہ مسلح جدوجہد اس درجہ اُٹھان کو پہنچی کہ
مسئلہ کشمیر سرد خانے سے نکل کر ایک فلیش پوائنٹ اور عالمی توجہ کا حامل
مسئلہ بن گیا جس سے بھارتی ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا اور اُس نے اپنا
روائتی جانکہائی انداز سیاست اپناتے ہوئے کشمیریوں کی اس پُرامن تحریک کو
کچلنے کی ناپاک جسارت کر کے ہلاکو اور چنگیز کو بھی مات دے دی جب دوسری طرف
عالمی سطح پر غلط رنگ دینے اور بدنام کرنے کے لیے 9/11 کے بعد وضع ہونے
والی اصطلاح’’دہشت گردی‘‘ کا بے دریغ و بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو سپانسرڈ تحریک کہنا شروع کر دیا۔ برسوں سے
جاری بھارت کا پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف یہ بے بنیاد پروپیگنڈا زوروں
پر تھا کہ 8 جولائی 2016 ء کو ایک نہائت مقبول و معروف اور متحرک و جواں
سال کشمیری رہنمائی برہان مظفر وانی کو درندہ صفت بھارتی فوجیوں نے سرعام
گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا۔ برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ ریاست
بالخصوص وادی کشمیر کو آتش فشاں میں بدل دیا اور مودی سرکار کو مقبوضہ
ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مزید کئی بٹالین فوج تعینات کر
کے چوبیس گھنٹے کرفیو کا نفاذ جاری رکھنے میں ہی اپنی خیر سوجھی لیکن غیر
تمند کشمیری مردوزن ، نوجوان اور بوڑھے بچے کرفیو کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں
پر نکل آئے جنھیں اپنے احتجاج سے باز رکھنے کے لیے مودی سرکار کو ان پر
اپنے مظالم میں مزید اضافہ کرنا پڑاجن کی پاداش میں اس وقت تک 120 افراد
شہید اور دو ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں جن میں ایک ہزار افراد مکمل طور
پر اپنی بینائی کھو چکے ہیں جب کہ پندرہ سو سے زائد کی بینائی زبردست متاثر
ہوئی ہے۔ اور ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے بھارت کے مختلف عقوبت خانوں میں
اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ پوری حریت قیادت کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے
اور باہر نکلنے کی کوشش پر ان رہنماؤں کو زبردست جسمانی اذیتیں دی جا رہی
ہیں اور عقوبت خانوں میں بند کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ
انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے اس ترقی یافتہ دور میں بھارت مظلوم کشمیریوں پر
اپنے مظالم کو عالمی دنیا سے کسی صورت نہیں چھپا سکتا اور کشمیریوں کی آہ و
بقاکی باز گشت عالمی ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ جس سے بھارتی بنیا مزید
بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ ایسے میں آزاد کشمیر کے عوام اپنے مقبوضہ
کشمیر کے بہن بھائیوں کے کرب میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ آل غم میں گھل رہے
ہیں اور اُن کی عملی مدد کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ یہی وجہ
تھی کہ 23 اگست 2016 ء کو یوم نیلہ بٹ کے موقع پر صدر آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس سردار عتیق احمد خان کی زیر صدارت منعقدہ سالانہ اجلاس میں اپنے
بھائی بہنوں کے کرب کی روئیداد سن کر مسلم کانفرنس کے عظیم الشان عوامی
اجتماع میں موجود ہزاروں مردو زن کے دل بھر آئے جس سے نیلہ بٹ کی تاریخی
اور فلک شگاف چوٹی کی سرد مرطوب آب و ہوا میں ایک ارتعاش پیدا ہو گیا اور
’’تحریک آزادی کشمیر زندہ باد‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے فلک شکاف
نعروں سے نیلہ بٹ اور آس پاس کی پوری فضا گونج اُٹھی ۔ صدر آل جموں و کشمیر
مسلم کانفرنس سردا ر عتیق احمد خان جو اپنے تاریخی اعلان کے لیے عوامی
جذبات کے اسی نقطہ عروج کے منتظر تھے اپنے دلدوز اور فکر انگیز صدارتی خطاب
میں کشمیری بھائی بہنوں کی جدوجہد میں عملی شرکت کے لیے جنگ بندی توڑنے کا
اعلان کر دیا اور فرمایا جس کی باقاعدہ منظوری مسلم کانفرنس کی مرکزی مجلس
عاملہ نے اپنے 3اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں دی جس کا باضابطہ اعلان صدرمسلم
کانفرنس نے 9اکتوبر کو مظفرآباد پریس کلب میں کیا۔ صدر مسلم کانفرنس کے اس
تاریخی اور بروقت اعلان سے شرکائے اجتماع میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور
چاروں طرف ’’سرینگر چلو سرینگر چلو‘‘ کی صدائیں فضا میں گونجنے لگیں۔ (جاری
ہے)
|
|