کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی !

کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہرکوئی اسے برداشت نہیں کرپاتا۔دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سچ لکھنے ،بولنے اور سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔سچ کھل کر بولا جائے یا اشارے کنایوں میں ،سچ کاٹ براہ راست دلوں پر اثر کرتی ہے جس سے بہت سوں کے دل کٹ جاتے ہیں اور بہت سوں کی برداشت جواب دے جاتی ہے لیکن پھر بھی سچ بولنے والے ہر دور میں پائے جاتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ سچ بولنا بند کردیں تو بہت سے لوگ بہت تیزی کے ساتھ جھوٹ بولنا شروع کردیتے ہیں۔

ہمارے پاکستانی معاشرے میں یوں تو اب جھوٹ زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کرچکا ہے لیکن غنیمت ہے کہ آج بھی کچھ لوگ کھرا سچ بول کر معاشرے کی آبرو برقرار رکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں جیسے کہ سیاست کے میدان میں گزشتہ 7 ماہ کے دوران سیاسی بھونچال پیدا کرنے والے ایک باکمال سیاسی لیڈر جنہوں نے بہت کم عرصے میں سچ کی تلوار کے ذریعے کراچی کی سیاست پر کئی عشروں سے راج کرنے والے ایک سیاسی ہیرو کی سیاست کو اس تیزی کے ساتھ روبہ زوال کیا کہ نہ صرف اسے ہیرو سے زیرو بنادیا بلکہ خود اس کی قائم کردہ پارٹی کے رہنماؤں کو اس مقام تک لے آئے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی پارٹی کے بانی اور قائد کو اسی کی بنائی ہوئی پارٹی سے نکال باہر کیا اور یوں مائنس ون کا فارمولا اپنے منطقی انجام تک پہنچاکر اس باکمال اور برق رفتار سیاسی لیڈر نے اس کہاوت کو سچ ثابت کردکھایا کہ سچ کو آنچ نہیں اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ،بعض لوگ پیدائشی سیاسی ہوتے ہیں جیسا کہ باکمال سیاسی ہیرو جس نے پرانی پارٹی میں رہ کربھی صاف ستھری ،کرپشن سے پاک اور کامیاب سیاست کے ذریعے اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم کرکے باعزت مقام حاصل کیا اور اب نئی سیاسی پارٹی بنا کر بھی اس باکمال شخص نے جس تیز رفتاری کے ساتھ کراچی کی سیاست میں اپنے مقاصد کو حاصل کیا ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اہلیت،قابلیت،صلاحیت ،فعالیت اور بے خوف قیادت کے لحاظ سے بہت دنوں بعد پاکستان اور خاص طور پر کراچی کو کوئی ایسا بے باک اور سچ بولنے والا لیڈر ملا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان سیاست میں اس شان سے کودا کہ اسے سننے اور دیکھنے والوں نے حیرت زدہ ہوکر دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔اس باکمال سیاسی لیڈر کے نہ رکنے والے کمالات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کی تازہ ترین مثال سندھ کے اہم ترین عہدے پر گزشتہ 14 سال سے فائض عیش وعشرت کا دلدادہ وہ شخص ہے جس نے سندھ کی گورنر کی سیٹ پر طویل عرصہ تک برآجمان رہنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے ایک عرصہ سے گورنر بن کر عیش وعشرت کرنے والاشخص اب باکمال سیاست دان کا نیا ٹارگٹ ہے اور چونکہ اس باکمال سیاسی ہیرو نے صرف 6 ماہ کے اندر اپنے پہلے ٹارگٹ ’’الطاف کوکین‘‘کو ہیرو سے زیرو بناکر شاندار کامیابی حاصل کی اس لیئے’’ عشرت‘‘ کے دلدادہ افراد ہوجائیں ہوشیا ر کے اب باکمال سیاست دان ان کے خلاف سچ کی تلوار کومیان سے نکال کر میدان میں کود پڑا ہے لہذا برے لوگوں پر کسی بھی وقت بہت برا وقت آنے کے قوی امکانات ہیں ۔عشر ت سندھ کے علاوہ باکمال بھائی کا ایک ٹارگٹ اور بھی ہے لیکن اس ٹارگٹ کو وہ رسوا کرکے نہیں بلکہ پیار محبت اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے اپنے ساتھ لانے کے شدت سے خواہشمند نظر آتے ہیں ان کی شایدکبھی نہ پوری ہونے والی اس خواہش کے پیچھے اصل بات کیا ہے وہ تو خود باکمال بھائی ہی جانتے ہوں گے لیکن انہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ بدنام لوگوں کے ساتھ سختی کے ساتھ جڑے ہوئے ہٹ دھرم اور مفاد پرست لوگوں کو نیک نام لوگ جب اپنے ساتھ ملاتے ہیں تو ان کی اپنی حیثیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے ۔

جس طرح چانداپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے لیکن اس کے باوجود اس پر بھی داغ ہے اسی طرح کچھ سیاست دان باکمال خوبیوں کے باجود ایک آدھ غلطی کر ہی بیٹھتے ہیں جیساکہ ’’چالاک اور مکار‘‘ سیاست دان سے سدھرنے کی امیدیں وابستہ رکھتے ہوئے اسے مسلسل مظلوم اور معصوم قرار دیناجسے خوش فہمی اور حسن ظن کے علاوہ اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے کہ جن کے نصیب میں ہدایت نہ ہو وہ کبھی راہ راست پر نہیں آتے جیسا کہ طوفان نوح کے واقعے میں حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو گمراہی کا راستہ چھوڑ کر راہ راست پرآنے کی بار بار دعوت اور ان کے بیٹے کا باربار انکار اور آخر کار اس نافرمان اور گمراہ بیٹے کا طوفان نوح میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھوبیٹھنا ۔اسی تناظر میں اگر ’’مکار بھائی‘‘ کا گمراہی کے راستے پر ہٹ دھرمی کے ساتھ قائم رہنا اور’’ باکمال بھائی ‘‘ کا مکار بھائی کو بار بار دعوت و تبلیغ کرکے اپنے ساتھ آنے کی پیش کشیں کرنا اور اپنی قائم کردہ پاکستان پرست پارٹی میں ’’الطاف کوکین‘‘ کے تا حال وفادار اور اس کے تمام جرائم سے آگاہ اور ان میں شریک رہنے والے’’ مکار بھائی‘‘ سے کبھی نہ پوری ہونے والی امیدیں لگانا ایک ایسی سیاسی غلطی ہے جس سے باکمال بھائی جتنی جلدی جان چھڑالیں اتنا اچھا ہے کہ بعض اوقات ایک معمولی سی غلطی سیاستدان کی ساری کامیابی کو مٹی میں ملانے کا سبب بن جاتی ہے۔ باکمال بھائی کی قائم کردہ سیاسی پارٹی کا اب تک کا طریقہ کار یہ بات واضح کرتا ہے کہ یہ پارٹی صرف کراچی اور حیدرآباد کی سیاست کرنے نہیں آئی اور پھر پاکستانی عوام کی جانب سے ملنے والا بھرپور ریسپونس بھی اس بات کا شاہد ہے کہ لوگ باکمال بھائی اور ان کی پارٹی کو ایک ملک گیر لیڈر اور ملک گیر پارٹی کے طور پر دیکھ رہے ہیں لہذا انہیں صرف کراچی پر ہولڈ قائم کرنے کی خواہش پوری کرنے کے لیئے ’’مکار بھائی‘‘ کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی ترک کرنی ہوگی کہ بالفرض اگر مکار بھائی ،باکمال بھائی کی پارٹی میں آ بھی جائیں تو وہ ان کے لیئے نیک نامی یا شہر ت کا ذریعہ بننے کی بجائے بدنامی اور پارٹی کی ملکی سطح پر قائم ہونے والی مقبولیت میں کمی کا سبب بنیں گے کہ پاکستانی عوام اب کافی باشعور ہوچکی ہے اور گزشتہ 6 ماہ سے جاری کراچی کی ایک علاقائی سیاسی جماعت کے پاکستان اور لندن کے نام سے قائم ہونے والے گروپس کے ٹوپی ڈرامے دیکھ دیکھ کر عاجز آچکی ہے ایک ایسا مکار شخص جس نے اپنی مکاری اور چالاکی سے ’’الطاف کوکین ‘‘ کو نئی آکسیجن فراہم کی ہو اس کی قائم کردہ پارٹی اور اس کے کراچی میں موجود جرائم میں ملوث لیڈروں کو جیلوں میں جانے سے بچایا ہواسے مظلوم اور معصوم آدمی قرار دے کر اسے اپنی وطن پرست پارٹی میں آنے کی دعوت دینا درحقیقت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلانا اور خود پر خود کش حملہ کرنا ہے ،باکمال بھائی ایک اچھے انسان اور سچائی کی علامت کے طور پر عوام میں بہت مقبول ہیں انہیں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے اور ملکی سطح کا لیڈر بننے کے لیئے اپنے ناعاقبت اندیش اور خوشامد ی دوستوں کے بے کار مشوروں سے خود کو دور رکھنا ہوگا کہ ہر لیڈر کو بانس پر چڑھا کر چوراہے پر اس کا بینڈ بجوانے میں ہمیشہ خوشامدی اور محدود سوچ رکھنے والے لوگ ہی مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے آئے ہیں ۔لہذا باکمال بھائی کو ملکی سطح کا ایک کامیاب سیاست دان بننے کے لیئے ہر سیاسی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا ۔

مفاد پرستی ،ابن الوقتی اور جھوٹی باتیں کرنے والے پاکستانی سیاست دانوں کی بھیڑمیں کراچی کی سیاست میں ہلچل مچادینے والے باکمال لیڈر کے علاوہ ایک سیاسی کھلاڑی بھی گزشتہ 22 سالوں سے سچ بول کر پاکستان کے اہم حکومتی اور عدالتی اداروں اوراقتدار کے مراکز کہلائے جانے والے مقتدر افراد کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے لیکن افسوس وہ تاحال اپنے اس نیک مقصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپایاکہ اقتدار کی بساط پر قابض دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی مرکزی قیادت نے اپنی کرپشن اور کرسیاں بچانے کے لیئے آپس میں دوستانہ اور مفاہمانہ تعلق قائم کرکے کسی تیسری سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے امکان کو بہت حد تک محدود کردیا ہے ،پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ جب تک متذکرہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف رہیں تیسری قوت کو اقتدار میں آنے کا موقع ملتا رہا خوا ہ یہ قوت سیاسی تھی یا فوجی لیکن اقتدار کی گردشوں سے ان دونوں سیاسی جماعتوں کو کرپشن کے الزامات کی وجہ سے کئی بار اپنی حکومتوں سے فارغ ہونا پڑا جس کی وجہ سے متعدد بار فوج کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا لیکن پھر ان روایتی مخالف سیاسی جماعتوں نے باری باری اقتدار میں آنے کے لیئے آپس میں مک مکا کرکے’’میثاق جمہوریت‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے ثمرات سے پہلے ’’ زرداریوں ‘‘ نے فائدہ اٹھایا اور گزشتہ ساڑھے تین سال سے نام نہاد’’شریف لوگ‘‘ اسی سیاسی مفاہمت کی وجہ سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور سیاسی کپتان کی بھرپور کوششوں ،جدوجہد،کامیاب سیاسی جلسوں ،ریکارڈ ساز دھرنوں اور مثالی ریلیوں کے باوجود تمام تر کرپشن اور بری حکمرانی کرنے والے مفاد پرست ’’شریفوں‘‘ کا اقتدار سلامت ہے تو اس میں ’’زرداریوں‘‘ کی دوستی اور سیاسی مفاہمت کی پالیسی کا کردار نہایت واضح ہے ۔

ایک دوسرے کو باری باری اقتدار کا موقع فراہم کرنے والے یہ مفاد پرست کرپٹ سیاسی عناصر عوامی مقبولیت کے لحاظ سے باکمال لوگوں اورسیاسی کھلاڑیوں سے بہت پیچھے ہیں لیکن اقتدار کے مراکز پر مکمل کنٹرول اور سیاسی رشوت کا بازار گرم رکھنے کی وجہ سے فی الحال ان کے اقتدار کو ماسوائے فوج اور عدلیہ کسی جانب سے کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا ۔سیاسی کپتان عوامی طاقت کے ریکارڈ ساز اور کامیاب ترین مظاہرے کرنے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں موجود زرداریوں اور شریفوں کو حکومت سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئے جس کی وجہ جہاں ’’کپتان‘‘ کی بعض سیاسی معاملات میں جلد بازی ،ضد،غلط پلاننگ اور سیاسی چالوں سے ناواقفیت قرار دیا جاتا ہے، وہیں کپتان کی بعض پاکستانی اداروں سے وابستہ امیدیں یا خوش فہمیاں ہیں جن کی وجہ سے کپتان کی جہد مسلسل کے باوجود امپائر کی انگلی آج تک نہیں اٹھی اور یوں کپتان کو آخر کار اپنا آخری سیاسی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرنا پڑا جس کے مطابق وہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں ایک بار پھر ایک بھرپور عوامی طاقت کے مظاہرہ کرنے جارہے ہیں۔شریفوں کے خلاف یہ کپتان کا آخری وار ہے جو ان کے لیئے شاید آخری موقع ہے کہ جب کوئی سیاستدان سیاست میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کے بعدآج اور ابھی یا پھر کبھی نہیں کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچتا سو 2 نومبر کا عوامی طاقت کا مظاہرہ کپتان کی سیاست کا بہت بڑا امتحان ثابت ہوگا کہ اس عوامی شو کی کامیابی کی صورت میں شریفوں کے حوالے سے کپتان کے موقف کی جیت کپتان کو ایک بار پھر سیاسی کامیابی کی بلندیوں پر پہنچا دے گی لیکن اگر اس عوامی شو سے کپتان کو وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تو پھر کپتان کو سیاست کے میدان سے باعزت واپسی کے لیئے کوئی راستہ ڈھونڈنا ہوگا ورنہ وہ سیاسی ہیرو سے زیرو ہوجائیں گے جو خود ان کے لیئے اور ان کی پارٹی کی سیاسی ساکھ کے لیئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوگا۔

لہذا سیاسی کپتان کو اپنے ہم خیال سیاست دانوں کو کسی ایک نکتے پر اپنے ساتھ ملانے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی اور وہ نکتہ سیاست دانوں کی کرپشن اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیئے عملی اقدامات بروئے کار لانے کی حکمت عملی ہوسکتی ہے اس لحاظ سے کپتان کی سیاسی سوچ سے قریب ہمیں جو سیاست دان نظر آتے ہیں ان میں کراچی کے ’’با کمال بھائی‘‘ ،راول پنڈی کے شیخ صاحب‘‘ اور سندھ کے ’’تلوار مرزا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں کہ یہ تینوں ہی سیاست دان کپتان کی طرح سچ بولنے اور بہادری کے حوالے سے مشہور ہیں اور یہ تینوں بھی پاکستانی عوام کو کرپشن میں ملوث سیاست دانوں سے نجات دلانے کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔باکمال بھائی اور راول پنڈی کے شیخ تو آج بھی کافی فعال ہیں البتہ تلوار مرزا کچھ عرصے سے سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں لیکن اگر سیاسی کپتان ان سچ بولنے والے دلیر سیاست دانوں سے رابطہ کر کے انہیں اپنے 2 نومبر والے عظیم الشان عوامی مظاہرے میں شرکت کی باضابطہ دعوت دیں تو یہ نہ صرف خود کپتان کے لیئے بلکہ مجموعی طور پر پورے پاکستان کے لیئے ان کا ایک دور اندیشی پر مبنی ایک ایسا سیاسی فیصلہ ہوگا جس کے پاکستانی سیاست پر بہت دوررس نتائج مرتب ہونگے اور اگر کپتان کا 2 نومبر کا شو کامیاب ہوکر اپنے مقاصدکے حصول میں کامیاب ہوگیا تو مستقبل کی سیاست میں کپتان ،باکمال بھائی ،شیخ صاحب اور تلوار مرزا سے انتخابی و سیاسی اتحاد کرکے اور مختلف جگہوں پر سیٹ ایڈجسٹمینٹ کے ذریعے 2018 کے الیکشن میں نمایا ں کامیابی حاصل کرکے اس ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلانے کے لیئے عملی کردار ادا کرسکتے ہیں لہذا جتنی جلدی ہوسکے کپتان کو اپنے ہم خیال سیاست دانوں سے رابطہ کرکے ان سے سیاسی اتحاد قائم کر لینا چاہیے اور اسی طرح باکمال بھائی ،تلوار مرزا اور شیخ صاحب کو بھی کپتان کی جانب سے دی جانے والی باضابطہ دعوت قبول کرکے ان کے ہاتھ مظبوط کرنے چاہیں کہ جب ساری منفی اور کرپٹ سیاسی قوتیں اکٹھی ہوکر ایک دوسرے کی کرپشن اور اقتدار کو بچانے میں تعاون کرسکتی ہیں تو پھر سچائی اور حب الوطنی کی پالیسی پرگامزن سیاسی لیڈراور پارٹیاں پاکستان اور پاکستانی عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیئے کیوں متحد نہیں ہوسکتے ؟۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی !
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125537 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More