امریکی الیکشن اور خوشی!

 ٹرمپ کی کامیابی کی خبر اور نتیجے کے بعد امریکہ کے حالات کی خبر سنی تو دل و دماغ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اپنے سیاسی حالات اور اسلام آباد نظروں کے سامنے آگیا ۔ ہمارے جیسے ’دور درازئیوں ‘ کواگرکبھی کسی کام کی غرض سے اسلام آباد جانا پڑ جائے تو طبیعت بہت خراب ہوتی ہے، غریب علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، وہاں کے ترقیاتی کاموں میں کٹوتی کرکے وہ رقم اسلام آباد اور لاہور کے میگا پروجیکٹس پر لگا دی جاتی ہے۔ اپنے علاقوں کی پسماندگی اور حکمرانوں کے شہروں کی نفاستیں اور نزاکتیں دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے، وہاں شاہ خرچیاں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اگر کچھ رقم بچا کر عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی پر لگا دی جائے تو لوگوں کے معیارِ زندگی میں کتنی بہتری آسکتی ہے۔ مگر جب اسلام آباد میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ دیکھتے ہیں تو دل کو کچھ تسلی ہوتی ہے، کہ چلیں یہ صدمہ تو اسلام آباد اور پسماندہ علاقوں والے برابر برداشت کر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہاں چھ گھنٹے بجلی جاتی ہے تو وہاں تین گھنٹے۔ ٹرمپ کی کامیابی کا پاکستان کی سیاست سے بہت گہرا تعلق ہے، خوشی اس لئے ہوئی کہ پاکستان اور امریکہ کی سیاست میں اب کوئی فرق نہیں رہا۔ پاکستان کے عوام (امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی وجہ سے) ہیلری کی کامیابی کے لئے بڑے پر امید تھے۔ چونکہ اکثر تجزیوں اور مباحثوں میں ہیلری کو ہی معمولی برتری رہی، بہت سے معاملات میں ٹرمپ نے ایسی باتیں بھی کیں جن سے مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا ہوا۔ حتیٰ کہ چند ماہ قبل جب امریکہ میں انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا تھا اور صادق خان لندن کے مئیر منتخب ہوئے تھے، تو ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں امریکہ کا صدر بن گیا تو صادق خان اور مسلمانوں کو امریکہ آنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ دیگر بھی بہت سے عوامل تھے، جن کی بنا پر امریکہ میں مقیم پاکستانی ٹرمپ کے خلاف تھے۔ مگر حالات نے پلٹا کھایا اور متوقع نتیجے کی ہی کایا پلٹ گئی۔ پاکستانی بھی ہیلری کی ناکامی پر شدید مایوسی کا شکار ہوئے۔

اس مایوسی کے باوجود ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے سیاسی نظام میں بہت سی مطابقت پائی جارہی ہے۔ یہ فیصلہ بعد میں ہوگا کہ پاکستان کے سیاسی بندوبست نے اس قدر ترقی کر لی ہے یا امریکی نظام اتنا زوال پذیر ہوگیا ہے کہ وہ پاکستان کے سسٹم کے برابر آگیا ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ عظیم تبدیلی امریکہ میں ہی آئی ہے، اپنے ہاں بہتری شاید آٹے میں نمک کے برابر ہی آئی ہو، مگر وہاں یہ منظر دیکھ کر دل خوش ہوگیا، کہ ہارنے والی امیدوار کے حامی جذباتی ہو کر سڑکوں پر نکل آئے، وہائٹ ہاؤس کے سامنے ان کا ٹکراؤ بھی ہوا۔ سڑکوں پر کچھ جلا کر آگ بھی لگائی گئی، ممکن ہے انہوں نے بھی ٹائر ہی جلائے ہوں۔ شہر شہر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، نئے صدر کے خلاف بھر پور احتجاج کیا گیا۔ ایسے لگتا تھا کہ یہ سارے مناظر پاکستا ن سے ہی مستعار لئے گئے ہیں۔ اپنے ہاں بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ انتخابی نتائج کو خوش دلی سے قبول کر لیا جائے، ورنہ ہمیشہ یہی کچھ ہوتا ہے کہ شکست کھانے والا ہمیشہ دھاندلی کا الزام لگاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہارنے والا اگلی مرتبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو گزشتہ الیکشن جیتنے والا اب ہار کر الزام تراشی کا فریضہ نہایت یکسوئی اور پورے عزم سے دہراتا ہے۔

امریکی الیکشن کی انتخابی مہم میں بھی ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے اور اسے وہاں کے عوام نے کھلے دل سے قبول کیا ہے کہ وہاں بھی ’’مولا جٹ‘‘ سٹائل کو بھرپور مقبولیت ملی ہے۔ ٹرمپ نے جس طرح بھی دھمکیاں دیں، دشمنوں کو للکارا، لتاڑا، وہاں کے عوام کی اکثریت نے ان کے اس انداز کو پسند کیا، اور تجزیہ نگاروں کے دعووں کے باوجود ٹرمپ کو ووٹ دے کر دنیا کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کردیا۔ اگرچہ نتائج کے فوراً بعد ٹرمپ نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دیاہے، اور یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ امریکہ کی حکومتیں بدل جاتی ہیں پالیسیاں بہت کم تبدیل ہوتی ہیں۔ تاہم اب تبدیلی کا آغاز ہوگیا ہے، اس مرتبہ بڑھکیں لگی ہیں، دھمکیاں ملی ہیں، منفی جذبات بھڑکے ہیں۔ نتیجے کے بعد احتجاج ہوا ہے، ریلیاں نکلی ہیں، آگ لگی ہے، بے شمار ٹی وی سیٹ توڑ دیئے گئے۔ اب آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ مایوسی کی کوئی بات نہیں، ہم ترقی کر کے امریکہ تک نہیں پہنچ سکتے تو کیا ہوا؟ ان کی تنزلی دیکھ کر خوش تو ہو سکتے ہیں نا!
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428476 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.