بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کسی بھی سیاسی جماعت میں نظریاتی کارکن قیمتی اثاثہ اور اس کیلئے ریڑھ کی
ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو انتہائی اخلاص کے ساتھ ابتلا اور آزمائشوں کے
دور میں اپنی قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے اور وفا شعاری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان پر کھیلنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ حقیقت میں
یہی وہ کارکن ہوتے ہیں جو جماعتوں کو زندہ، منظم اور فعال رکھنے میں کردار
ادا کرتے ہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی جماعت پر مشکل وقت آتا ہے
تو چوری کھانے والے سب میاں مٹھو اپنے گھروں میں گھس جاتے ہیں اوربرسوں
فائدے اٹھانے والے یہ لوگ اپنی جماعت سے تعلق ظاہر کرنا بھی گوارا نہیں
کرتے مگر جب حالات بہتر ہوتے ہیں تو یہی موقع پرست اور خودغرض لوگ جماعتوں
کی قیادت کے سامنے اپنی وفاداریاں ظاہر کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا
رہے ہوتے ہیں۔پھر کچھ دیر بعد پارٹی کے اعلیٰ عہدے ایسے ہی لوگوں کے پاس
ہوتے ہیں اور مخلص و نظریاتی کارکن اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں۔
دیکھا جائے تو عام طور پر اس وقت تقریبا تمام سیاسی جماعتوں میں نظریاتی
کارکنوں کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب جماعتوں کی قیادت ان لوگوں کو
پسند کرتی ہے جو اپنے لیڈروں کو مختلف شہروں کے دورے کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر
لے کر دے اور کروڑوں روپے پارٹی فنڈ جمع کروائے سڑکوں پر ماریں کھانے والوں
کو کوئی پوچھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا؟مسلم لیگ (ن)میں بھی پچھلے کئی برسوں
سے یہ شکایات عام تھیں کہ بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے والوں کو
اعلیٰ عہدوں سے نوازا جارہا ہے ۔ پارٹی کی صحیح معنوں میں تنظیم سازی پر
توجہ نہیں کی جارہی۔ وزراء کا رویہ بھی کارکنان کے ساتھ اچھا نہیں ہے اور
پرویز مشرف کے دور میں ان کی ترجمانی کرنے والوں کو وزارتیں سونپی جارہی
ہیں لیکن حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلم لیگ کے قائد نواز شریف اور
میاں شہباز شریف کی جانب سے اس جانب توجہ دیتے ہوئے بعض نظریاتی کارکنوں کو
اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جس سے پارٹی کا امیج بہرحال بہتر ہوا ہے اور
عام کارکن اس پر خوش دکھائی دیتا ہے۔مسلم لیگ (ن) کا معاملہ دوسری تنظیموں
سے اس لحاظ سے تھوڑا مختلف ہے کہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں خاص طور پر
اس کے کارکنان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔انہیں جیلیں بھی کاٹنا
پڑیں اور ماریں بھی کھائیں۔اس لئے جن لوگوں نے مصائب و مشکلات میں وزیر
اعظم نواز شریف کا ساتھ دیاجماعت کے نظریاتی کارکنوں کی دلی خواہش رہی ہے
کہ انہیں نظرانداز کرنے کی بجائے آگے لایاجائے اور تنظیم کے اعلیٰ عہدوں پر
لاکر بٹھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کی طرف سے سمیع
اﷲ چوہدری جیسے باکردار شخص کو مسلم لیگ (ن) پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات
نامزدکیا گیا ہے تو اس پر نظریاتی اور مخلص کارکنان کی طرف سے زبردست خوشی
اور پارٹی قیادت پر اعتمادکا اظہار کیا گیا ہے۔ سمیع اﷲ چوہدری ایک ایسے
شخص ہیں جو پیدائشی سیاستدان نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے خاندان میں سے کسی
فرد نے اس سے پہلے کبھی سیاست میں حصہ لیا ہے تاہم اس سب کے باوجود انہوں
نے صرف خدمت کی سیاست کے ذریعہ اپنامقام بنایا ہے۔ اپنے سیاسی کیئریئر کی
ابتداء انہوں نے 85ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فار م سے کی۔ 91ء
میں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیکر بہاولپور کے ایک علاقہ سے کونسلر بنے اور
97ء میں پہلی مرتبہ ایم پی اے کا انتخاب واضح اکثریت سے جیت کر اپنی پارٹی
میں نمایاں حیثیت حاصل کی۔وہ 1997ء، 2002ء اور 2008ء میں مسلم لیگ کی طرف
سے پنجاب میں ٹکٹیں تقسیم کرنے والے پارلیمانی بورڈکے رکن رہے۔ اسی طرح وہ
پنجاب کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں اور اب حال ہی میں پارٹی کے صوبائی
انتخابات میں مسلم لیگ(ن) پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں
مسلم لیگ کے چند اہم رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے جنہیں وزیر اعظم نواز
شریف اور میاں شہباز شریف کا بھرپور اعتماد حاصل ہے۔ سمیع اﷲ چوہدری نے
تحریک نجات ہو، عدلیہ بحالی تحریک ہو، ٹرین مارچ یا کوئی اور ایونٹ ہو
ہمیشہ ایک نڈر کارکن کی حیثیت سے تحریکوں میں حصہ لیکراچھی حاضری کے ذریعہ
اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور مشکل ترین حالات میں بھی مستقل مزاجی کے
ساتھ اپنی جماعت سے چپکے رہے۔عدلیہ بحالی تحریک کے دوران جب گورنر راج
لگایا گیااور میاں نوا ز شریف، حمزہ شہباز شریف و خواجہ سعد رفیق کی قیادت
میں مال روڈ پر احتجاج کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے سمیع اﷲ چوہدری کی قیادت
میں ان کے ساتھیوں نے ریگل چوک مال روڈ پر آکر مظاہرہ کیاجس پر انہیں پولیس
کی طرف سے بے دردی سے برسائی گئی لاٹھیاں بھی کھانا پڑیں مگر یہی وہ احتجاج
تھا جس کے بعد (ن)لیگ کے دیگر کارکنان اور عوام میں بھی تحریک پیدا ہوئی
اور وہ سڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے۔میں سمجھتاہوں کہ ایسے متحرک لوگ چونکہ
اپوزیشن جماعتوں کی بھی نظر میں ہوتے ہیں اس لئے جب حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں
تو پھر انہیں اپنی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے رکھنے پر یقینی طور پرتکالیف کا
سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اسلئے چوہدری صاحب کو بھی قیدوبند کی صعوبتیں
برداشت کرنا پڑیں۔ وہ چونکہ تحریکی آدمی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگوں سے
رابطہ میں رہنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں اسلئے مسلم لیگ (ن) کا سیکرٹری
اطلاعات پنجاب منتخب ہوتے ہی انہوں نے مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں اور
کالم نگاروں سے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں مجیب الرحمن شامی، سہیل
وڑائچ، نجم ولی خاں، خالد عباس ڈار،حفیظ اﷲ نیازی، خواجہ فرخ سعید،پرویز
بشیر،اسرار بخاری، فیصل درانی، منصور اصغر راجہ، ارشاد احمد ارشد، ممتاز
حیدر، نسیم الحق زاہدی، شاہد محمود ودیگر سمیت صحافیوں ، کالم نگاروں اور
مقامی سیاسی لیڈروں کی کثیر تعداد موجود تھی اس لئے اس پروگرام کو بلا شبہ
سیاسی و صحافتی شخصیات کا حسین امتزاج کہا جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کی خاص
بات یہ تھی کہ اس میں بعض غیر سیاسی تنظیموں کے اہم ذمہ دار بھی موجود تھے
جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ذاتی کردار کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہ لینے
والی جماعتیں بھی انہیں پسند کرتی ہیں اور آنے والے وقت میں وہ مسلم لیگ
(ن) کے دوسری جماعتوں و مختلف طبقات سے تعلقات بہتر بنانے اور انہیں باہم
قریب لانے میں بھی فعال کردار ادا کریں گے۔ مجھے اس پروگرام کی دعوت تحریک
آزادی جموں کشمیر کے چیئرمین حافظ خالد ولید نے دی جو شروع دن سے ہی مسلم
لیگ (ن) کے حوالہ سے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح جماعۃالدعوۃ
کے ترجمان محمد یحییٰ مجاہد بھی موجود تھے جن کا ذکر سینئر صحافی مجیب
الرحمن شامی نے بھی اپنی تقریر میں کیا اور مسلم لیگ (ن) کی کسی تقریب میں
شریک ہونے پر خوشگوار حیرت کا اظہارکیا تو سمیع اﷲ چوہدری کا اپنی گفتگو
میں کہنا تھا کہ سیاست سے ہٹ کر میرے ذاتی تعلقات دوسری جماعت کے لیڈروں سے
بھی ہیں اور وہ اس سلسلہ میں کسی تعصب کا مظاہرہ نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ
آج غیر سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی ان کے مسلم لیگ کے سیکرٹری اطلاعات پنجاب
منتخب ہونے پر خوش ہیں۔یہ ایک شاندار تقریب تھی جس میں ہر مقرر کی جانب سے
سمیع اﷲ چوہدری کی اپنی پارٹی سے کمٹمنٹ پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
بعد ازاں چائے پینے کے دوران بھی سینئر صحافی و کالم نگار ان کی اس نئے
عہدہ پر تعیناتی سے مطمئن نظر آئے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) جس
کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کا میڈیا سیل صحافیوں سے بہت کم رابطے میں
رہتا ہے‘ سمیع اﷲ چوہدری اس کمی کو پورا کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گی۔
تقریب کے دوران ان کی گفتگو بھی بہت اچھی تھی ۔ عاجزانہ انداز اختیارکرتے
ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سینئر صحافیوں سے سیکھنے اور میڈیاسے رابطہ کی
کمی کوہر ممکن انداز میں دور کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اسی طرح ان کا کہنا
تھا کہ وہ صحافت میں اپنا مقام رکھنے والے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں
سے بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ انہیں ایک طالب علم سمجھتے ہوئے ہر قدم پر ان
کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ میں سمجھتاہوں کہ مسلم لیگ (ن) کا
سیکرٹری اطلاعات پنجاب منتخب ہوتے ہی ان کی دعوت پر پرنٹ اور الیکٹرونک
میڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں نے جس طرح بھرپور
انداز میں شرکت کی‘ یہ ان کے صحافیوں سے ذاتی رابطوں کی دلیل ہے۔ مجھے امید
ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ رابطے مزید مضبوط و مستحکم ہوں گے۔ ہماری دعا
ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیوں سے نوازے اور ملک و قوم کی بہتر
انداز میں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ |