دنیا کی تمام ایٹمی طاقتیں سیاسی
استحکام کے باعث ترقی و خوشحالی کے میدان میں آگے سے آگے بڑھ رہی ہیں ۔
لیکن پاکستان ایٹمی ممالک کی صف میں شامل تو ہوگیا ہے لیکن ہماری قوم اور
سیاسی قائدین میں ابھی تک شعور نہیں آیاجو ملک کو کرپشن سے پاک اور سیاسی
استحکام فراہم کرسکے ۔ جمہوریت ہو یا آمریت ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا
قانون یہاں نافذ ہے ۔ ایک بزرگ نے سیاست دانوں کے حوالے سے یہ خوبصورت
واقعہ سنایا کہ دوزخ میں ہر قوم کے لیے الگ الگ کنویں مقرر تھے جن کے باہر
فرشتوں کا سخت پہرہ تھا تاکہ کوئی دوزخی باہر نہ نکل سکے ۔ وہاں ایک ایسا
کنواں بھی نظر آیا جس کے باہر کوئی فرشتہ موجود نہیں تھا ۔ پوچھا گیا کہ اس
کنویں پر فرشتوں کا پہرہ کیوں نہیں لگایاگیا ۔ بتایا گیا کہ اس کنویں میں
پاکستان کے سیاست دان ہیں۔ اگر کوئی کنویں سے باہر نکلنے کی جستجو کرتا ہے
تو دوسرا اس کی ٹانگ پکڑ کر نیچے گرا دیتا ہے ۔اس لیے یہاں فرشتہ بٹھانے کی
ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بھارت نہایت خاموشی سے 70 ڈیم بنا چکا ہے لیکن
پاکستان اگر ڈیم کی تعمیر شروع ہونے لگتی ہے تو بم مار کر تباہ کرنے والے
اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اگر اقتصادی راہداری کا کثیر الامقاصد اور گیم چینجر
منصوبہ شروع ہوتا ہے تو اس کے خلاف کے تحفظات کا اظہار کرنے والے سر
اٹھالیتے ہیں۔گویا کوئی ایسا قومی منصوبہ نہیں جس کی مخالفت نہ کی گئی
ہو۔ہونا تو چاہیئے کہ قومی منصوبوں کے خلاف جو بھی شخص یا سیاسی جماعت
پروپیگنڈہ کرتی ہے اس کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے قرار واقعی
سزا دینی چاہیئے تاکہ بھات بھات کی بولیاں بولنے والوں کی بولتی بند ہو ۔
بہرکیف سپریم کورٹ میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی مبینہ کرپشن کے حوالے
سے سماعت شروع ہوچکی ہے ۔اب سپریم کورٹ نے 15 نومبر تک فریقین سے ثبوت /دستاویزات
جمع کروانے کا حکم دیا ہے ۔سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔ اس کے بارے میں
پیشگی کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ عدالت صرف الزامات پر ہی فیصلہ نہیں
کرتی بلکہ ثبوت مانگتی ہے ۔اس کے برعکس عمران سمیت دیگر سیاست دانوں نے
الزام تراشی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور ہر سماعت ختم ہونے کے بعد سپریم
کورٹ کے احاطے میں ہی اپنی عدالت لگا کر فیصلے صادر کرنا شروع کردیتے ہیں ،جو
سراسر زیادتی ہے۔ وزیر اعظم تو عدالتی فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں
لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عمران اور باقی اپوزیشنیں بھی عدالتی فیصلے
کو قبول کرکے 2018ء تک خاموش ہوجائیں گی۔ خان صاحب کا سابقہ ریکارڈ اس بات
کاگواہ ہے کہ وہ صرف اپنے حق میں فیصلہ قبول کرتے ہیں ،برعکس نہیں۔ لوہا
گرم دیکھ کربلال زرداری بھی احتجاجی سیاست میں کودپڑے ہیں انہوں نے بھی
للکارنے کے انداز میں کہا ہے کہ وہ صرف پیپلز پارٹی کے چا ر نکات پر مشتمل
ٹی آر اوز کے مطابق ہی عدالتی فیصلہ قبول کریں گے ۔پیپلز پارٹی کے ٹی آر
اوزکیا ہیں ؟ آصف علی زرداری کو چھوڑدیا جائے اور باقی لیٹروں کو پھانسی کے
پھندے پر لٹکا دیا جائے ۔ جماعت اسلامی نے اپنی ترجیحات سپریم کورٹ میں جمع
کروا دی ہیں کہ ان تمام افراد کے خلاف بھی تیز رفتار انکوائری کرکے سخت
سزائیں دی جائیں جن کے نام پاناما لیکس میں شامل ہیں اور جنہوں نے بنکوں سے
قرض لے کر معاف کروائے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں سب سے صائب رائے جماعت اسلامی
کی ہے ۔اس لیے چیف جسٹس سماعت کو آگے بڑھانے سے پہلے پاناما لیکس کیس کی
پیروی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے تحریری طور پر ایک
عہدنامہ حاصل کریں کہ وہ نہ صرف فیصلہ دل سے قبول کریں گے بلکہ ہر قسم کی
احتجاجی تحریک سے اجتناب کریں گے تاکہ ایٹمی پاکستان کو سیاسی استحکام
فراہم کیا جاسکے۔اسی کردار کی ہم الیکٹرونکس میڈیا سے توقع رکھتے ہیں جو
ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں جمہوری حق کی آڑ میں احتجاج کرنے والوں کو حد سے
زیادہ کوریج دے کر ملک کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے
کہ ہمارے ہاں جمہوری حق کانعرہ لگا کر پورے ملک کو بند کرنے اور ریاستی
اداروں کے خلاف زہر اگلنے سے بھی گریز نہیں کیاجاتا۔یہ کیسا جمہوری حق ہے
جو عوام کی زندگیوں کو اجیرن کردیتا ہے ۔بہرکیف کرپشن چونکہ پاکستان کی
رگوں میں خون کی طرح سرایت کرچکی ہے اس لیے سپریم کورٹ نیب کو ختم کرے یا
نہ کرے لیکن سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی نگرانی میں ایک ایسا کمیشن
تشکیل دے جو نہ پانامہ لیکس میں شامل تمام افراد کے بارے میں تحقیقات کرکے
بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سز ا بھی دے۔ اسی کمیشن کا ایک شعبہ بنکوں کے
معاف کیے جانے والے قرضوں کی واپسی کا اہتمام کرے۔ ڈیفالٹر افراد کی فہرست
سٹیٹ بنک سے باآسانی مل سکتی ہے۔اسی عدالتی کمیشن کے ایک اور سیکشن کے سپرد
غیر ملکی بنکوں میں جمع ہونے والے 250 ارب ڈالر کو واپس لانے کا کام کیا
جائے ۔جہاں کرپٹ سیاسی قائدین ، بیوروکریٹوں اور دیگر لیٹروں کی ناجائز
کمائی سوئزرلینڈ سمیت دیگر غیر ملکی بنکوں میں جمع ہے۔اس کے باوجود کہ کتنی
ہی حکومتیں یہ بھاری رقوم واپس لانے کا اعلان تو کرچکی ہیں لیکن عملی طور
پر کچھ نہیں کیاگیا اور نہ ہی کرنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ مجھے یقین ہے یہ
فریضہ عدالت عظمی کو ہی انجام دینا پڑے گا ۔یہ آزاد عدلیہ کا دور ہے اگر اس
دور میں بھی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے کارنامے ، بنکوں سے معاف کروائے
جانے والے قرضوں کی وصولی اور غیر ملکی بنکوں میں کک بیک اور کرپشن کی جمع
شدہ رقم واپس لانے کا جرات مندانہ فیصلہ نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوگا ۔میں
سمجھتاہوں پاکستان میں کرپشن ایک رواج بن چکا ہے نیچے سے لے کر اوپر تک ہر
و ہ سرکاری اہلکار کھلم کھلا رشوت لیتا ہے جس کے پاس اختیارات ہیں صرف وہی
سرکاری افسر اس لعنت سے بچا ہوگا جس کو موقعہ ہی نہ ملا ہو ۔ اس کے ساتھ
ساتھ سیاسی قائدین اور بے لگام الیکٹرونکس میڈیا کے حوالے سے ایک ضابطہ
اخلاق تیار کیاجائے کیونکہ یہ نہ صرف عدالت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے
بلکہ عوام بھی ان کی تخلیق "بریکننگ نیوز" سے عاجز آ چکے ہیں ۔اگر ملک میں
کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے اور سیاسی استحکام کو دوام دینا ہے تو عدالت عظمی
کو بلاخوف خاطر جلد، دوررس اور بے باک فیصلے کرنا ہوں گے۔
|