سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کی طرف سے نئے
گورنر سندھ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی سے یوں تو کوئی توقعات وابستہ کرنا
ان پر پہلے سے موجود ضعیف العمری اور سیاسی دباؤ کے حوالے سے بوجھ میں غیر
ضروری طور پر اضافہ کرنا ہے کیونکہ نہ تو ان کے پاس کوئی اختیارات ہیں اور
نہ ہی جسمانی اعتبار سے کوئی بڑی تبدیلی لانے کی سکت۔ سندھ کی سیاست ایک
مخصوص ٹریک پر سفر کرتی ہے۔ یہاں کی ڈیموگریفک وجوہات کی بنا پر صوبے کی
شہری اور دیہی آبادی میں توازن قائم رکھنے کے لئے ایک غیر اعلانیہ معاہدہ
موجود ہے جس کی پاسداری نہ صرف سیاسی حکومتوں کے دور میں بھی کی جاتی ہے
بلکہ فوجی ادوار حکومت میں بھی اس کا متعدد بار خیال رکھا گیا ہے کہ اگر
وزیراعلی کا تعلق سندھ کی دیہی علاقوں سے ہے تو پھر گورنر سندھ شہری آبادی
کی نمائندگی کی علامت کے طور پر سمجھا جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی
دھائیوں سے اس معیار کو پیش نظر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ شہری آبادی
کے احساس محرومی کوکم کیا جا سکے ۔ لیکن مجموعی طور پر اس حکمت عملی کے
باجود صورت حال بہتر نہیں ہوئی ہے اور سندھ کے شہری علاقوں خاص طور پر
کراچی کی اردو بولنے والی آبادی میں احساس محرومی میں روز بروز اضافہ ہو
رہا ہے۔سندھ کے نئے گورنر جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی ایک شریف النفس شخصیت
کے طور پر جانے مانے جاتے ہیں تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد سے ان کا جھکاؤ مسلم
لیگ ن کی طرف رہاہے یہی وجہ ہے کہ وہ سابق صدر پاکستان آصف علی زردای کے
مقابلے میں مسلم لیگ ن کے صدارتی امید وار تھے۔اس وقت پیپلزپارٹی کے امید
وار آصف علی زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ ن بہت زیادہ اچھا مقابلے کرنے
کی پوزیشن میں نہیں تھی لہذا جسٹس (ر) سعید زماں صدیقی کو آصف علی زردای کے
مقابلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم جب مسلم لیگ ن ملک میں اپنا صدر
لانے کی پوزیشن میں آئی تو اس نے سعید الزماں صدیقی کے بجائے ممون حسین کو
اپنا صدارتی امید وار بنایا۔ اس وقت سے سعید الزماں صدیقی کے بارے میں یہ
تاثر آتا رہا ہے کہ جیسے مسلم لیگ ن نے انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے
استعمال کر لیا کہ جب اسے ہارنے کا یقین تھا تو جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی
کو آگے کر دیا لیکن جب اسے جیت کا یقین تھاتو ن لیگ کے امیدوار ممنو ن حسین
صاحب بنے۔ لیکن اب مسلم لیگ ن نے بڑی حد تک اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش
کی ہے کہ اس کے نظر میں جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی بڑی قدر منزلت ہے
لہذا انھیں سندھ کا نیا گورنر مقرر کر دیا گیا ہے۔ جسٹس (ر) سعید الزماں
صدیقی کو سندھ میں دیہی اور شہری کے اسی فارمولے کے تحت ہے گورنر مقرر کیا
گیا ہے۔ جسٹس (ر) سعید الزماں بنیادی طور پر ایک اردو بولنے والے کراچی کے
شہری ہیں لہذا اسی اعتبار سے سندھ کی گورنری کے لئے ان کا انتخاب کیا گیا
ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے سعید الزماں صدیقی کے انتخاب کی دوسری وجہ یہ بنی
ہے کہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے
انکار کر دیا تھا اور جنرل مشرف کو للکارا تھا۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم میاں
نواز شریف کو ان کی یہ ادا بھائی ہوئی ہے لہذا انھوں نے ایک مرتبہ انھیں
اپنا صدارتی امیدوار بنایا اور اب سندھ کو نیا گورنر مقرر کیا۔ سندھ کے نئے
گورنر کو محدود اختیارات کے ساتھ کام کرنے میں بہت سی مشکلات در پیش رہیں
گی۔ اب پیپلزپارٹی ان کو کتنی اہمیت دیتی ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ ماضی
میں سندھ کے گورنر یعنی ڈاکٹر عشرت العباد کے ساتھ پی پی پی کی ایک اچھی
ورکنگ ریلیشن شپ تھی اس کی سب سے بڑی وجہ ایم کیو ایم تھی لیکن بعد ایم کیو
ایم سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر عشرت العباد سے پی پی پی نے اپنے ذاتی مراسم
بنا لئے ۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے پیپلزپارٹی کے کسی بھی حکم پر نہ نہیں کہا
جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے انھیں ڈائجسٹ کئے رکھا۔ لیکن اب سندھ کے نئے
گورنرکی بڑی حد تک سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن سے ہے ایسے ماحول میں کہ جب آج
کل بظاہر پیپلزپاڑٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تناؤ موجود ہے ایسے حالات
میں پیپلزپارٹی نئے گورنر سندھ کے ساتھ کس قسم کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم
کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
اگر جسٹس (ر) سیعد الزماں صدیقی نے پیپلزپارٹی کے راستے میں رکاوٹیں نہ
کھڑی کیں اور ان کے معمولات میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا تو شاید پیپلزپارٹی
انھیں ڈاکٹر عشرت العباد کی طرح قبول کر لے لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو صورت
حال بہت مختلف ہو سکتی ہے اور نئے گورنر سندھ کو بہت سی مشکلات در پیش ہو
سکتی ہیں۔ |